خبریں/تبصرے

ڈئیر بی بی سی! کراچی کے باسی گرمی نہیں غربت سے ہلاک ہو رہے ہیں

فاروق سلہریا

گذشتہ روز بی بی سی اردو نے کراچی بارے ایک تفصیلی فیچر شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ گرمی کی لہر نے درجنوں جانیں لے لی ہیں۔ یہ بھی یاد دلایا گیا کہ 2015 میں کراچی کے اندر ہیٹ ویو یا گرمی کی شدید لہر نے 1200 جانیں لی تھیں۔ یہ فیچر اس لنک پر دستیاب ہے۔

بلا شبہ موسم میں تبدیلی انسانی بقا کے لئے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ موجودہ مضمون کا مقصد مین اسٹریم اور سرمایہ دار میڈیا کی خبر نگاری بارے ہے جہاں طبقاتی نقطہ نگاہ سے خبر نگاری کی ہی نہیں جاتی۔

ہندوستان پاکستان میں ہر سال جب گرمیاں آتی ہیں تو خبریں شائع ہوتی ہیں کہ درجنوں لوگ گرمی سے مر گئے۔ جب دسمبر جنوری میں سردی کی لہر آتی ہے قارئین یا ناطرین کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اتنے لوگ سردی سے مر گئے۔

بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی سردی سے مرتا ہے نہ گرمی سے۔ لوگ غربت سے مرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ سیلاب اور زلزلے سے بھی ہلاکتیں نہیں ہوتیں۔ ہلاکتیں ریاست کی نا اہلی کی وجہ سے ہوتی ہیں جو ایسا انفراسٹرکچر نہیں بناتی جو قدرتی آفات سے نپٹ سکے۔چلی میں بلا ناغہ زلزلے آتے ہیں مگر ہلاکتیں نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کیمونسٹ پارٹی کے دور حکومت میں بلڈنگ کوڈز بنائے گئے جن پر عمل درآمد سے زلزلے سے ہونے والی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئیں۔

بی بی سی کی مندرجہ بالا فیچر رپورٹ کا ہی جائزہ لیجئے۔ اس فیچر کا آغاز رکشہ ڈرائیور ارشاد حسین سے ہوتا ہے۔پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ یہ ٹرانسپورٹ ورکر رکشہ چلاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اسے دل کا عارضہ لاحق تھا۔ ایک شام پہلے طبیعت بھی خراب ہوئی۔اگر یہ مزدور اس خوف میں مبتلا نہ ہوتا کہ اس کی دیہاڑی ماری جائے گی، وہ کام پر نہ جاتا۔ آج زندہ ہوتا۔

اسی طرح لیاقت نامی ایک مزدور کام پر ہلاک ہوا۔ وہ کھارادر کپڑا مارکیٹ میں ہاتھ ریڑھی چلاتا تھا۔ ریلوے کالونی میں ایک نامعلوم مزدور کا بھی ذکر ہے جو کام کرتے ہوئے ہلاک ہوا۔

کسی ایسی شخص بارے بی بی سی نے رپورٹ نہیں کیا جو کراچی ڈیفنس میں رہتا تھا، ائر کنڈیشنڈ کار میں گھومتا تھا، ائر کنڈیشنڈ دفتر میں کام کرتا تھا اور گرمی سے ہلاک ہو گیا۔

سردیوں کے موسم میں دلی ہو یا لاہور،بمبئی ہو یا کراچی۔۔۔سردی سے وہ لوگ مرتے ہیں جو فٹ پاتھ پر پڑے ہوتے ہیں۔

خلیجی ممالک میں تو پاکستان سے بھی زیادہ گرمی پڑتی ہے۔ کبھی سنا کہ کوئی عرب شہزادہ یا شہزادی گرمی سے ہلاک ہوئے ہوں؟مقدس سر زمین پر بھی جب کوئی گرمی سے مرا تو جنوب ایشیائی کنسٹرکشن ورکرہی مرا۔

مصیبت یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے جرنلزم ڈیپاڑٹمنٹس ہوں یا مین اسٹریم اخبارات کے نیوز روم، صحافت میں وارد ہونے والوں کو یہ تربیت ہی نہیں دی جاتی کہ حالات و واقعات کا جائزہ طبقاتی عدسے سے بھی لیا جائے۔ طبقاتی عدسے سے جائزے لینے کو مارکسزم کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، مزاق اڑایا جاتا ہے۔

(اس مضمون کے موضوع پر میں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لئے بھی تحقیق کی۔ اس موضوع پرمیرے مقالے میں پورا ایک باب شامل ہے یہ مقالہ بعنوان ’میڈیا امپیریلزم اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ کتابی شکل میں اشاعتی ادارے روٹلیج نے لندن سے شائع کیا۔اس کتاب میں تفصیل سے اس موضوع پر بحث کی گئی ہے)۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔