عطا انصاری
میڈیائی مولویوں اور مداریوں کا کیمرے میں دیکھنا، سرُخیوں میں بات کرنا اور اوُٹ پٹانگ مثالیں دے کر اپنے آپکوقابل ظاہر کرنا – یہ سارے انداز و ڈھکوسلے امریکہ اور یورپ کے نیم پادریوں جیسے ہیں۔ یہ سب ایک طے شُدہ آزمودہ فارمولہ کے تحت بات کرتے ہیں۔ اِنھیں اکثر مغرب کے معتبر دانشور و فلسفی جہالت کا آخری کنارہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ اکثر روحانیت اور ایمانیات کی آڑ میں، ہر مسئلے کا حل مذھب قرار دے کر لوگوں کو درحقیقت گُمراہ کرتے ہیں اور اپنی دوکانیں چمکانے کے لیئے جدید میڈیا اور مخصوص انداز بیان کا بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔
اب ناروے کی طرف آئیے کہ جہاں میں گزشتہ اڑتالس برس سے، بچپن سے رہ رہا ہوں۔ یہیں تعلیم حاصل کی اور پچھلے ۳۶ برس سے بطورِ صحافی جاب کررہاہوں۔ میرے خاندان کی چوتھی نسل ناروے میں پروان چڑھ رہی ہے لہذا میں جو بات بھی کہونگاتجربے اور مشاہدہے کی روشنی میں ہی کہونگا۔
ناروے نے اپنا جمہوری آئین ۱۸۱۴ میں بنالیا تھا اور ۱۹۰۵میں پڑوسی مُمالک کے تسلّط سے بھی آذاد ہوگیا تھا۔ اس آئین میں عوام کو فوقیت حاصل ہے۔ مُلکی نظام کی جو تشریح کی گئی ہے اس میں اکثریتی مذھب یعنی عیسائیت کا کوئی رول نہیں۔ نیشنل پبلک چرچ ریاست کی طرح جمہوری اصولوں کے تحت کام کرتا ہے۔ نیشنل پبلک چرچ مُلکی آئین اور قوانین کا پابند ہے اور پارلیمینٹ کو صرف اپنی رائے دے سکتا ہے۔ ناروے میں نہ تو کوئی کرسچن شریعت کورٹ ہے، نہ کوئی کرسچن نظریاتی کونسل اور نہ ہی یہاں کا آئین بائبل اور حضرت عیسیٰ یا اُنکے اصحاب کی احادیث و سُنت کی روشنی میں بنا ہے۔ بلکہ یہ کہنا ذیادہ درست ہوگا کہ یہاں کا آئین ونظام دو ہزار سال پُرانے رجعت پسند، دقیانوسی اور عورت دشمن عیسائی دین کے ضد میں انسان و انسانیت کی بقأ کے لیئے بناہے۔ یعنی ناروے میں رائج نظامِ طاغوت خُدا اور اُسکے دین سے لاتعلق ہے اور یہ بے حد عوام دوست اور مساوات پر مبنی ہے۔
یہ درُست ہے کہ یہاں احترامِ قانون اور جمہوری اقدار کی تربیت گھر سے شروع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پی یہاں بچوں کوذھنی کوفت، کوئی اذیت یا جسمانی سزا دینے پر پابندی ہے۔ نرسری اور اسکولوں کے تدریسی طریقۂ کار میں حِفظ یا رٹّے کے اصول کے بجائے سوال کرنے، مُشاہدات کو زیر بحث لانے اور تبادلۂ خیال کی اخلاقیات کی تعلیم و تربیت شامل ہیں۔
ناروے کی طرح یورپ کے لگ بھگ تمام مُمالک میں ملتا جلُتا نظامِ طاغوت رائج ہے۔ مذھب کے ٹھیکیداروں کو ریاست کے معاملات میں رائے دینے کا حق ضرور حاصل ہے مگر اصل سیاسی معرکہ سیاسی جماعتوں، عاجر و مزدور یونین کے درمیان ہی ہوتا ہے اور عوام کے فیصلے کرنے کا حق صرف پارلیمینٹ کے پاس ہے جو کہ طاغوتی آئین کی پابند ہے۔ یہاں نہ بائبل نہ سُنتِ عیسیٰ یا مودیٰ اور نہ ہی کسی خلیفہ یاامام و پیشوأ کا قول و روایت کام آتی ہے۔ یہاں عوام کی مرضی چلتی ہے اور عقل و دانش کی روشنی میں فیصلے کیئے جاتے ہیں۔ یہاں جنت دوزخ کے تصور یا خُدا اور انبیا پر ایمان کی روشنی میں کوئی سیاسی فیصلہ نہیں ہوتا البتہ انفرادی و اجتماعی طور آپ جو چاھیں مذھب اپناسکتے ہیں۔
کرسمس کے موقع پر جب لوگ کبھی چرچ جاتے ہیں تو پادری دروازے پر کھڑے ہوکر سب کا مُسکرا کر استقبال کرتے ہیں۔ یہاں پادری اپنے خُطبوں میں نہ تو سرکاری نظام کو طاغوتی کہتے ہیں اور نہ ہی سیاسی موضوعات پر کوئی بات کرتے ہیں۔
یہاں نیشنل پبلک چرچ میں چندہ جمع کرنے کا رواج بھی نہیں ہے کیونکہ انھیں بجٹ فراہم کرتی ہے۔ آذادیِ مذھب کے تحت چھوٹے کرسچن گروپ بھی اپنے علیحدہ چرچ بھی چلاتے ہیں۔ انھیں فری چرچ کہا جاتا ہے اور انکے سیاہ سفید کے مالک اپنے آپکو عقلِ کُل سمجھنے والے پریچرز ہوتے ہیں۔ انکی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ یہ ٹی وی پر شو کرنا بہت پسند کرتے ہیں، لائیو معجزوں کا ڈرامہ، من گھڑت منطق، بیماریوں سے نجات کا ڈھکوسلا، پھونک مار کر بلائیں بھگانا اور سر پر ہاتھ رکھ کر ایسا کرنٹ مارنا کہ مرُدہ بھی زندہ ہوجائے۔ یورپ سے کہیں ذیادہ امریکہ میں ایسےکرسچن پریچرز کی بھرمار ہے جنھیں اس وقت امریکہ کی سب سے طاقتوراور دقیانوس لابی مانا جاتا ہے۔ یورپ میں ایسی مذھبی تحریکوں کا اثر ووثوق بہت کم ہے۔
اب آپ پاکستان پر نظر ڈال کر دیکھیئے اور ذرا گن کر بتائیے کہ کتنی تحریکیں، تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، پریشر گروپ، مسلّحہ اور غیر مسلّحہ گروہ ایسے ہیں کہ جنکا ایجینڈا کسی نہ کسی حوالے سے اسلام ہے؟ ان سب کے لیڈروں میں کیا چیز مشترک ہے؟ جب یہ فہرست مکمل ہوجائے تو ذرا یہ بھی سوچیئے گا کہ پاکستان میں متحرک یہ سارے گروہ اور انکے سرغنالیڈر پیر و پیشوا غریب مسلمانوں کو روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، تعلیم فراہم کرنے اور عوام کو باشعور اور خودار بنانے میں کتنے فعال ہیں؟
یہاں مذھبی آذادی اپنی جگہ برقرار ہے، اقلیتوں کے حقوق بھی، مگر سیاست و مذھب میں فاصلہ پیدا کردینے سے ہی یورپ میں چرچ یعنی پادری ٹولے کی طاقت کم ہوپائی اور یہ خطہ انفرادی اور اجتماعی آذادی و مساوات کا گہوارہ بن سکا۔ اب سے سو سال پہلے یہاں بسنے والے ہزاروں خلیل اُلرحمٰن اور ساحل عدیل مذھب سے پاک جمہوری نظام کو طاغوتی یعنی شیطانیت قرار دیتے تھے۔ وہ بھی خاک میں مل گئے اور اُنکی فسطائیت پر مبنی سوچ بھی مگر پاکستان کی منزل ابھی بہت دور ہے۔
پاکستان میں ناروے جیسا حقیقی طاغوتی نظام رائج کرنے کے لیئے مذھب کو آئین و قانون، پالیمینٹ و عدالتی نظام سے بے دخل کرنا ہوگا تاکہ قرونِ وُسطیٰ کے پادریوں اور چرچ کی ترجمانی کرنے والے پریچرز اور میڈیائی مداریوں کی زھریلی اور کھوکلی منطق سے نجات مل سکے اور یہ کام ۱۹۴۹ کی قراردادِ مقاصد کو بابائے قوم کی نافرمانی اور اقلیتوں کے خلاف اُس زمانے کے پریچرز اور اُنکے حواریوں کی گھنونی سازش تسلیم کرتےہوئے ۱۹۷۳ کے آئین سے بھی اسلام کو بے دخل کردینے سے شروع ہوسکے گا۔