عطا انصاری
حال ہی میں سما چینل پر مکالمہ نامی پروگرام میں لکھاری خلیل اُلرحمن قمر اور ٹی وی پریچر ساحل عدیم کو عورتوں کو درپیش مسائل پر رائے زنی کے لیے بلایاگیا۔ میں پروگرام کے آغاز میں یہ سوچتا رہا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ بات تو عورتوں کے حقوق پر ہورہی ہے،مگر اسٹوڈیو میں بطورِ مہمان صرف مرد حضرات کو ہی بلایا گیا ہے۔ بعد میں یہ بھی دیکھا کہ پبلک میں بیٹھی ایک باشعور و تعلیم یافتہ لڑکی کو تنقیدی تبصرہ اور کڑوے سوال کرنے پر اس طرح جھڑک کر حقارت سے گھورا گیا کہ جیسے کوئی جاہل و بدکردار جاگیردار اپنے زرخرید غلام کی تذلیل کر رہا ہو، مگر ازبا عبداللہ نامی اس بہادر لڑکی نے95 فیصد عورتوں کو جاہل کہنے والے دونوں ادھیڑ عمر مردوں کو نہایت ہی بردباری و معلمانہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کھولتے تیل کے کڑھائے میں پھینک دیا۔
وہ دن کب آئے گا،جب بھری محفل میں اس ادھیڑ عمر مرد لکھاری کو عورتوں کی بے عزتی کرنے پر اسِی کے لہجے میں کوئی مرد بھی جواب دے گا؟
مگر افسوس نہ تو ایسے پریچرز کو کوئی روکے گا اور نہ ہی ایسے لکھاریوں اور میڈیائی شخصیات کو، کیونکہ انِ جیسے لوگوں کے بت اب منات و ہبل سے بھی زیادہ مضبوط و بلند ہوچکے ہیں۔
پروگرام کے دوران نیم پادری نما پریچر نے ناروے کو ایک رول ماڈل معاشرہ کہا، مگروہاں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ لسانی اقلیتوں، عورتوں، تارکین وطن یا مسلمانوں کا کوئی بھی معاملہ زیر بحث آئے اور اُن سے براہ راست بات کرنے کی بجائے غیر متعلقہ لوگوں کو کسی بڑے ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو میں بلالیا جائے۔ مکالمے کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ متعلقہ افراد اور نمائندوں سے براہ راست بات کرو۔
ابھی میں یہ سب کچھ سوچ ہی رہاتھا کہ پروگرام کا ایک بڑا حصہ گزر گیا اور پھر میں نے دل ہی دل میں پروگرام کی میزبان اور پروڈیوسر کو داد دینے لگا کہ کس مہارت سے اُنھوں نے اُن دونوں مرد مہمانوں کوننگا کردیا کہ اُنھیں خود بھی اپنے کپڑے اُتر جانے کا احساس تک نہ ہوا۔
اصل دھچکا مجھے تب لگا کہ جب ٹی وی پریچر نے ناروے کی مثال دی کہ جہاں لوگوں کی نسل در نسل تربیت سے ایک ایسا قانون پسند ماحول و معاشرہ تعمیر ہوسکا کہ جہاں لوگ اب قانون کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اُسی نیم پادری نما پریچر نے پاکستان کو طاغوت کا نظام قرار دیتے ہوئے اسے اسلامی بنانے پر بھی زور دیا۔ یعنی اُس کا بیان کردہ اسلامی نظام پاکستان میں آجائے گا تو انصاف ہی انصاف ہوگا۔ یہاں ایک بات فقط عدیم نامی پریچر سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی روح سے سب سے بڑا گناہ شرک ہے،نہ کہ طاغوت اور لفظِ جاہل کے لغوی، عمومی اور قرآنی معنی الگ الگ ہیں اور یہ تینوں اعتبار سے عدیم پریچر پر پورے اُترتے ہیں۔
ناروے کی طرف تو میں بعد میں آؤں گا، پہلے آپ یہ جان لیجیے کہ یہ باتیں وہی ٹی وی پریچر کہہ رہا تھا کہ جو اکثر ڈائریکٹ کیمرہ میں دیکھ کر بات کرتا ہے اور اپنے آپکو عقل کل سمجھتا ہے۔ پاکستان میں اس جیسے میڈیائی مولویوں کی بھر مار ہے اور انکی گفتگو سے ہمیشہ حقارت اور تکبر ہی جھلکتا ہے اور یہ نفرت کا زہر مذہب اور کھوکھلے دلائل کے شربت میں گھول کر پلاتے ہیں۔