تاریخ

جب بھٹو کی پولیس نے مزدوروں پر گولی چلائی، کراچی 13 دن بند رہا

ضیا الرحمان

بابِ مزدور شہید قبرستان کی یادگار فرنٹیئر کالونی کے داخلی دروازے پر نصب ہے، جو کراچی کے سب سے بڑے صنعتی علاقے سائٹ کے اندر زیادہ تر پشتونوں کی آبادی والاایک غریب محلہ ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (PILER) اور شہید مزدور یادگاری کمیٹی کی جانب سے تعمیر کی گئی یہ یادگار جون 1972 کی مزدور تحریک کے دوران مارے جانے والے مزدوروں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

7 جون 1972 کو پولیس نے ٹیکسٹائل مل کی انتظامیہ کے خلاف واجب الادا اجرت کے خلاف احتجاج کرنے والے غیر مسلح کارکنوں پر گولی چلا دی تھی۔ اگلے دن مقتول کارکنوں میں سے ایک کے جنازے کے دوران ہجوم کی گورنر ہاؤس تک پہنچنے کی کوشش احتجاج میں بدل گئی، جس کے نتیجے میں بنارس چوک میں مزید تشدد اور ہلاکتیں ہوئیں۔ مزید کئی کارکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دو روزہ وحشیانہ تصادم نے پاکستان کے صنعتی مرکز کراچی بھر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ نتیجے کے طور پر شہر بھر میں ہڑتال ہوئی،جس نے 13 دنوں تک معاشی پیداوار کو مکمل روک دیا۔

یہ بغاوت صرف ایک سال قبل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نتیجے میں بنگلہ دیش بننے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی ہلچل کے دوران ہوئی تھی۔ سوشلسٹ نظریات کی وکالت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کے سربراہ کے طور پر ذولفقار علی بھٹو کی نئی تشکیل شدہ حکومت اچانک اس محنت کش طبقے کے ساتھ متصادم ہو گئی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ انتخابات کا فاتح ہے۔

10 فروری 1972 کو صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک قومی خطاب میں مزدوروں کے لیے نئی مراعات کا وعدہ کیا،لیکن ساتھ ہی ’گھیراؤ’اور’جلاؤ‘ کے ہتھکنڈوں کے ذریعے صنعتی انتظام کو دباؤ میں لانے کے خلاف سخت وارننگ بھی جاری کی۔ بھٹو نے اعلان کیا کہ ”گلی کی طاقت کے ساتھ ریاست کی طاقت سے نمٹا جائے گا۔“جون تک ان کی حکومت نے اس انتباہ پر عمل کیا تھا۔

کراچی کے صنعتی شعبے کو اپنی لپیٹ میں لینے والی 1972 کی مزدور تحریک پاکستان کی سیاسی اور مزدور تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ یہ تحریر ان نازک دنوں کے واقعات کی تشکیل نو کے لیے موجودہ لٹریچر کے جائزے کے ساتھ تحریک کی ایک سرکردہ ملیٹنٹ شخصیت ’باور خان‘اور دیگر کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ اس میں تحریک کے عروج، اس کی کامیابیوں اور جدوجہد، اور پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کی لڑائی پر اس کے دیرپا اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

مزدوریکجہتی کا نیٹ ورک

سابق صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں کی طرح نوعمر باورخان بھی 1960 کی دہائی کے وسط میں سوات سے کراچی پہنچے۔یہ کراچی میں ٹیکسٹائل صنعت کے عروج کا وقت تھا۔یہ لوگ اپنے لئے روزگار کے مواقع تلاش کر رہے تھے۔

’اسکول میرے لیے نہیں تھا‘،باور خان مسکراتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں۔

’چنانچہ میں دو بار سوات سے بھاگ کر کراچی پہنچا۔آخر کار، میرے والد نے مجھے یہاں رہنے اور کام تلاش کرنے پر راضی کیا‘۔ ان کی پہلی ملازمت سائٹ ایریا میں حافظ ٹیکسٹائل میں تھی۔

اس وقت مل مالکان نے ذاتی طور پر ممکنہ ملازمین کا انٹرویو کیا۔ جب مل مالک نے باور کو دیکھا تو اس نے ریمارکس دیے،”تم کافی جوان لگ رہے ہو“، باور کے فوری جواب ”جوان، لیکن میں کھاتا بھی ہوں!“ پر مل مالک مسکرا دیا۔

حافظ ٹیکسٹائل میں وہ 9 مہینے ٹیکسٹائل مل کے کام کے دوران ان کا مزدور ایکٹوازم سے تعارف ہوا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا اور آخر کار دوسری ملوں کی طرف چلے گئے۔ 1966 میں زیبتان ٹیکسٹائل ملز میں جا پہنچے۔

اس وقت ملک میں ایوب خان مخالف جذبات ابل رہے تھے اور مزدور تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ باور خان یاد کرتے ہیں کہ ان سمیت دیگر مزدوروں نے ایوب کی آمریت کے خلاف ہڑتالوں میں حصہ لیا تھا۔

”عثمان بلوچ ہمارے رہنما اور سرپرست تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے حقوق کیلئے لڑنے کا طریقہ سکھایا۔“ باور خان احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ عثمان بلوچ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں لیبر ایکٹوازم میں ایک زبردست شخصیت تھے۔ انہوں نے لی مارکیٹ کے تعمیراتی مزدوروں سے لے کر سائٹ اور سرکاری اداروں میں ٹیکسٹائل مل کے کارکنوں تک مختلف صنعتوں اور غیر رسمی شعبے میں مزدوروں کو منظم کیا۔.

باور خان نے کنیز فاطمہ، شاہ رضا خان اور بائیں بازو کے طالب علم رہنماؤں جیسے کرامت علی (پائلرکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر) کا بھی تذکرہ کیا، جنہوں نے سائٹ کی لیبر بستیوں میں اپنے ڈیروں (صرف مردوں کے مشترکہ گھروں) پر کارکنوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار کر کارکنوں کو متحرک کرنے میں مدد کی۔
باور خان کی لگن اپنے ساتھی کارکنوں میں گونجتی رہی، جس کے نتیجے میں وہ زیبتان ٹیکسٹائل ورکرز یونین کے صدر منتخب ہوئے۔

1969 میں جب یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو باور خان کو مل کے گیٹ سے گرفتار کر لیا گیا اور ان کی کم عمری کی وجہ سے انہیں لانڈھی چلڈرن جیل بھیج دیا گیا۔

اس وقت کے آس پاس ایک طاقتور مزدور اتحاد متحدہ مزدور فیڈریشن (MMF) نبی احمد، ایس پی لودھی اور عثمان بلوچ جیسی شخصیات نے تشکیل دیا تھا۔ بالآخر باورخان ترقی کرتے ہوئے ایم ایم ایف کے نائب صدر اور ورکرز ایکشن کمیٹی کے اہم رہنما بن گئے، جس نے کراچی بھر کے 75 سے زائد صنعتی یونٹس کے ہزاروں کارکنوں کو متحد کیا۔

باور خان بتاتے ہیں کہ ”اس وقت اگر ایک مل میں کوئی مسئلہ ہوتا تو تمام ملوں کے تمام مزدور مالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے وہاں جمع ہوجاتے۔“ اس عرصے میں مارچ 1971 میں سائٹ میں والیکا ٹیکسٹائل ملز پر مزدوروں کا قبضہ بھی دیکھا گیا۔

پیرس میں قائم Centre de Recherches Internationales (CERI) Sciences Po سے وابستہ،سینئر ریسرچ فیلو لارینٹ گائر،کی تحقیق کے مطابق باورخان اور عثمان بلوچ کے زبردست ابھارنے کراچی میں ٹریڈ یونین رہنماؤں کے پروفائل میں گہری تبدیلی کا اشارہ دیا۔ اپنی آنے والی کتاب ’گن پوائنٹ کپیٹلزم: انفورسنگ انڈسٹریل آرڈر ان کراچی‘ کے مصنف گائر کہتے ہیں کہ ”وہ(باور خان اور عثمان بلوچ) اکثر اردو بولنے والے اور شاذو نادر ہی صنعتی کام کا تجربہ رکھنے والے، لیکن زیادہ پڑھے لکھے، زیادہ پالش پروفیشنل ٹریڈ یونینسٹوں کے مقابلے میں زمین سے اٹھے تھے۔“

اس طرح جبری برطرفیوں، استحصالی مل مالکان اور حکومت کی ناموافق پالیسیوں کے خلاف تحریک جون 1972 تک جاری رہی۔

جون1972کے واقعات

7جون 1972کو رونما ہونے والے واقعات اور اس کے نتیجے میں چلنے والی تحریک کو یاد کرتے ہوئے باور کہتے ہیں کہ ”یہ سب فیروز سلطان ملز سے شروع ہوا“۔ یہ ایک عام دن تھا، جب باور خان نے شفٹ میں تبدیلی کے دوران زیبتان ٹیکسٹائل ملز کے گیٹ پر کارکنوں سے خطاب کیا، یہ مزدور رہنماؤں کی حمایت کو متحرک کرنے کے لیے ایک باقاعدہ کوشش تھی۔

باور خان یاد کرتے ہیں کہ ”خبریں آئیں کہ پولیس نے فیروز سلطان ملز کے مزدوروں پر وحشیانہ لاٹھی چارج کیا،جو اپنی واجب الادا اجرت کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔“ باور خان نے زیبتان کے سینکڑوں مزدوروں کے ہمراہ،جنہوں نے ابھی اپنی شفٹ ختم کی تھی، فیروز سلطان ملزکی طرف مارچ کیا، تاکہ یکجہتی کا اظہار کریں۔

انتظامیہ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مل کے قریب پہنچے تو صورتحال مزید بگڑ گئی۔ باور خان کے مطابق گیٹ پر تعینات پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کی اور منظر افراتفری میں بدل گیا۔

باور خان کہتے ہیں کہ ”ہمارے دو ساتھی،جو زیبتان ٹیکسٹائل سے تعلق رکھنے تھے،پیندا محمد اور محمد شعیب،فائرنگ میں مارے گئے، جب کہ بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔“ پولیس پیندا خان کی لاش کو مل کے اندر لے گئی اور اوپر سے فائرنگ جاری رکھی، جب کہ مشتعل کارکنوں نے جوابی پتھراؤ کیا اور شعیب کی لاش کو تشدد سے دور لے گئے۔

مزدورشعیب کی میت پٹھان کالونی کے عیدگاہ گراؤنڈ میں لے آئے۔ شہر بھر سے مزدور رہنما اور کارکنان جمع تھے، رات گئے تک تقریریں کرتے رہے۔ مزدوروں نے متفقہ طور پر شعیب کے لیے ایک بڑا جنازے کا جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا، جس کا اختتام گورنر ہاؤس میں نماز کے بعد ہونا تھا۔

8 جون کی صبح ہزاروں کارکن پٹھان کالونی میں جمع ہوئے۔ جیسے ہی جلوس بنارس چوک پہنچا، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کنور ادریس کی قیادت میں پولیس کی بھاری نفری ان کا انتظار کر رہی تھی۔ آنسو گیس بھیڑ کو روکنے میں ناکام رہی۔ اچانک پولیس نے گولی چلا دی، جس سے کئی مزدور ہلاک ہو گئے، جن کا تعلق سوات اور مردان کے اضلاع سے تھا، اور درجنوں زخمی ہوئے۔

قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ باورخان ایکشن کمیٹی کے دیگر مزدور رہنماؤں کے ہمراہ ایکشن میں آگئے۔ ہلاکتوں کے خلاف کراچی بھر میں مزدوروں نے ہڑتال کر کے فیکٹریاں بند کر دیں۔ باور خان بتاتے ہیں کہ ”تمام بڑی ٹیکسٹائل ملز اور دیگر صنعتوں کو احتجاجی کارکنوں نے ٹھپ کر دیا تھا۔“

پائلر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کرامت علی نے اپنی کتاب ’راہ گزر تو دیکھو‘میں نوٹ کیا ہے کہ جب مزدور قیادت اگلے اقدامات کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے کوشاں تھی، رینک اینڈ فائل ورکرز نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”سائٹ اور لانڈھی کے پورے صنعتی علاقوں کے ساتھ ساتھ کورنگی اور کوٹری حیدرآباد کو مزدوروں کی زیرقیادت خود روشٹ ڈاؤن کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔“

شہر بھر میں صنعتی پیداوار رک گئی۔ پاکستان کا صنعتی مرکز کراچی مؤثر طریقے سے مفلوج ہو چکا تھا۔

ملوں کے کئی دنوں سے بند رہنے کے ساتھ ایک ناخوشگوار جنگ، مالی مشکلات نے مزدوروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جن میں زیادہ تر یومیہ اجرت کمانے والے تھے۔

باور خان کا کہنا ہے کہ ”قیادت دباؤ میں آگئی اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیاگیا۔“

مزدور رہنماؤں نے 14 نکاتی ڈیمانڈ چارٹر پیش کیا، جس میں فائرنگ کی انکوائری، ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی، واقعے کے بعد گرفتار ہونے والے تمام کارکنوں کی رہائی اور ان کے خلاف مقدمات واپس لینے کا مطالبہ شامل تھا۔ دیگر مطالبات میں شہری مسائل، جیسے کہ پانی، گیس اور بجلی تک رسائی، سائٹ ایریا کی بستیوں، جیسے فرنٹیئر کالونی اور پٹھان کالونی میں کارکنوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے اور ان بستیوں کو ریگولرائز کرنے کی بھی شرط رکھی گئی۔

باور خان بتاتے ہیں کہ ”انہوں نے عارضی رہائش گاہیں تعمیر کیں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا،لیکن کراچی میونسپل کارپوریشن زمین کو غیر مجاز قرار دے کر انہیں گرادیتی یا رشوت طلب کرتی۔“

مزدوروں ملوں میں آٹھ گھنٹے محنت کرتے تھے اور انہیں ان نظر انداز علاقوں میں پانی کی تلاش کے لیے مزید آٹھ گھنٹے کی جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔

یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن میں بشریات پڑھانے والے ماہر تعلیم کامران اسدرعلی اپنے مقالے ’دی سٹرنتھ آف دی سٹریٹ میٹس دی سٹرنتھ آف سٹیٹ: دی 1972لیبر سٹریگل ان کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’حکومت ایکشن کمیٹی کے اہم مطالبے،یعنی ملوث اہلکاروں کی معطلی کو تسلیم کرنے سے گریزاں نظر آرہی تھی۔ کچھ رہنماؤں نے ریاستی نمائندوں کی جانب سے وعدہ خلافی کی شکایت کی اور کہا کہ وہ ایک دن صوبائی وزیر محنت عبدالستار گبول سے ملاقات کریں گے۔ دوسرے نمبر پر سندھ کے گورنر میر رسول بخش تالپور، اور تیسرے نمبر پر وزیراعلیٰ ممتاز بھٹوسے ملاقات کرینگے۔ بعد میں تینوں سرکاری عہدیداروں نے اپنی بات چیت بھٹو تک پہنچائی، جو غیر ملکی دورے پر تھے۔‘

تاہم، مزدور تحریک کو ایک غیر متوقع پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔ باور خان کے مطابق نیشنل عوامی پارٹی (نیپ)ولی،کے مقامی رہنماؤں نے نہ صرف علاقوں میں تحریک کی مخالفت کی بلکہ اسے فعال طور پر کمزور بھی کیا۔ انہوں نے یہ کام کارکنوں کو ”خون بیچا، پانی لیا“ کے نعرے لگا کر کیا، جس سے تقسیم اور بداعتمادی پیدا ہوئی۔

اس کا مقابلہ کرنے اور عوامی عزم کو محفوظ بنانے کے لیے مزدور رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ حکومت کے ساتھ معاہدے کا اعلان نشتر پارک میں کیا جائے گا، جس میں شہر بھر کے مزدور رہنماؤں اور کارکنوں کو مدعو کیا جائے گا۔

باور خان نے انکشاف کیا کہ ”ریلی میں حکومت نے ہڑتال ختم ہونے کی صورت میں ہمارے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے اپنے معاہدے کا اعلان کیا۔“۔۔۔لیکن اس اعلان نے مشتعل مزدوروں میں غم و غصے کو جنم دیا۔ انہوں نے پولیس افسر ڈی ایس پی نور خان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے، ’خون کا بدلہ خون‘ کے نعرے لگائے، جس نے فائرنگ کا حکم دیا تھا۔ نبی احمد نے انہیں پرسکون کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھ کر عثمان بلوچ نے باور خان کو اسٹیج پر بلایا۔ باور خان کہتے ہیں کہ ”میں نے کارکنوں سے خطاب کیا“۔

”میں نے ان سے کہا کہ ہم نے معاہدہ اس لیے قبول کیا ہے کہ مزید مالی مشکلات صرف ہمیں کمزور کر دیں گی۔ ہم ان دکانداروں سے نہیں لڑ سکتے، جو ہمیں یا ہمارے خاندانوں کو راشن نہیں دے رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کر سکے ہیں اسے محفوظ کر رہے ہیں اور مستقبل کی لڑائیوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمارا مقدر مزدور کسان راج ہے۔“

باور خان کے الفاظ کارکنوں میں گونج اٹھے۔ انہوں نے اتفاق سے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میں نے انہیں ایک دن اور چھٹی لینے کو کہا اوریہ کہ فیکٹریاں انہیں اس کی قیمت ادا کریں گی۔ آخر کار مشکل ترین 14دنوں کے بعد فیکٹریاں دوبارہ کھل گئیں۔“

کریک ڈاؤن

مزدور رہنماؤں کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کے بعد بھٹو حکومت نے تیزی سے جبر کا راستہ اختیار کیا جبکہ بھٹو کی مزدور اصلاحات نے بے مثال فوائد کی پیشکش کی، جیسے مہنگائی کے الاؤنس، سماجی تحفظ اور مینجمنٹ میں مزدوروں کی شرکت میں اضافہ۔ان ترقی پسند اقدامات کے ساتھ ساتھ مزدور رہنماؤں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن بھی ہوا۔

حکومت نے ڈیفنس آف پاکستان رولز (DPR) کو استعمال کیا، جو کہ پہلے سیاسی اپوزیشن کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جس سے اختلاف کرنے والوں بشمول آواز اٹھانے والے مزدور رہنماؤں کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس کریک ڈاؤن کا بہت زیادہ انحصار فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) پر تھا، جو ایک پیراملٹری فورس تھی اور بھٹو نے مارچ 1972 میں پولیس کی ہڑتال کے بعد اختلاف رائے کو روکنے کے لیے بنائی تھی۔اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق جون 1972کی بدامنی کے ایک سال کے اندر گھارو، حیدرآباد، کوٹری اور کشمورسے باور خان اور عثمان بلوچ سمیت 58مزدور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔

باور خان بتاتے ہیں کہ ”جون 1972 کے بعد سے حکومت مجھے گرفتار کرتی رہی اور رہا کرتی رہی، یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا۔ انہوں نے ان گرفتاریوں کا جواز پیش کرنے کے لیے مویشیوں کی چوری سمیت من گھڑت الزامات لگائے۔“ انہوں نے بھٹو کے دور حکومت میں مختلف صوبائی جیلوں میں کل تین سال گزارے۔

جولائی 1977 میں جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے باور خان سمیت سیاسی، مزدور اور طلباء رہنماؤں کے خلاف ڈی پی آر کے مقدمات ختم کر دئیے۔

مخالفت کا سامنا، اتحادکا قیام

1972 کی کراچی مزدور تحریک نے سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل کے سنگم سے اپنی طاقت حاصل کی۔ اسکالرز اور مزدور رہنما اس کی کامیابی پر مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔شہر کے منفرد سیاق و سباق کو اجاگر کرتے ہوئے ان سب کا کہنا ہے کہ اس سیاق و سباق کی روشنی میں مزدور تنظیموں کی حکمت عملی سامنے آئی۔

اسدر علی 1947 اور 1972 کے درمیان صنعت کاری کے ذریعے کراچی کی دھماکہ خیز ترقی اجاگر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جس شہر میں مزدور تحریک ایک عنصر بن کر ابھری،اس کی آبادی میں 217 فیصد اضافہ ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”1950 کی دہائی کے اوائل سے اب تک کراچی کی نصف سے زیادہ ترقی کی وجہ بھارت اور ملک کے دیہی اور دیگر شہری علاقوں سے نقل مکانی ہے۔“وہ مزید بتاتے ہیں کہ کس طرح صوبہ سرحد اور جنوبی پنجاب کے مخصوص اضلاع سے مزدوروں کی’نوکریوں‘ پر بھرتی کے عمل نے معاشی اور سماجی جبر کے ذریعے، اکثر نسلی بنیادوں پر محدود سودے بازی کی طاقت کے ساتھ منقسم افرادی قوت پیدا کی۔

اسدر علی لکھتے ہیں کہ ”1960 کی دہائی کے آخر تک ایک ریڈیکلائزڈبائیں بازو کی تحریک ابھر کر سامنے آئی تھی، جس نے انتظامیہ کے زیر کنٹرول ’پاکٹ یونینز‘کو چیلنج کیا‘‘۔ اس تحریک کا مقصد کارکنوں کو آزاد ٹریڈ یونینوں میں منظم کرنا اور کام کی جگہوں اور ورکر کالونیوں کے اندر پیچیدہ نسلی اور سماجی درجہ بندی کو حل کرنا تھا۔

ادہر،گائر کا کہنا ہے کہ بھٹو کے اقتدار میں آنے سے کارکنوں میں جوش پیدا ہوا تھا اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس سے مزدور کسان راج کا آغاز ہو گا۔

”پاکستان فورم“نامی جریدے میں اگست 1972 کے اپنے مضمون ”فرام دی پٹھان کالونی ٹو اے ورکرز اسٹیٹ“ میں ماہر تعلیم اقبال خان نے نوٹ کیا کہ جون 1972 میں مزدوروں کے خلاف ریاستی تشدد کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس واقعے سے پہلے کے دور میں خاص طور پر بھٹو حکومت کی لیبر پالیسی کے اعلان کے بعد محنت کش طبقے کی سرگرمی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جسے انہوں نے مزدور طبقے کی میلیٹنسی میں ایک دھماکے کے طور پر بیان کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ”ہڑتالیں اور گھیراؤ روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ بہت سی صنعتی اکائیوں میں انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان جنگ کی حالت ہے، اکثر خونی جھڑپیں ہوتی ہیں۔“

اس بدامنی کے پیمانے کو واضح کرنے کے لیے انہوں نے سرکاری اعدادوشمار کا حوالہ دیا۔ صرف پنجاب میں جنوری سے مئی 1972 تک 63 ہڑتالیں اور 55 گھیراؤ ہوئے۔ سندھ کی صورتحال اور بھی زیادہ غیر مستحکم تھی، کراچی میں 150 اور حیدرآباد میں 176 فیکٹریوں کا گھیراؤ کیا گیا۔

اپنی طاقت کے باوجود 1972 کی کراچی مزدور تحریک کو اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ باورخانکے مطابق نہ صرف نہ صرف بھٹو کی پی پی پی اور این اے پی (ولی گروپ) جیسی جماعتوں بلکہ کچھ کمیونسٹ رہنماؤں کی طرف سے بھیمزدور تحریک کی مخالفت کی گئی جس کی وجہ چین نواز اور سوویت نواز تقسیم تھی۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے بھی مذہبی بنیادوں پر اس تحریک کی مخالفت کی۔ باور خان نے انکشاف کیاکہ ”جماعت نے باقاعدہ اجرت سے الگ منافع سے منسلک بونس کے مطالبے کو اسلام میں ’حرام‘قرار دیا۔“

تاہم تحریک نے مزدوروں کے اندرلسانی تقسیم پر قابو پاکرایک قابل ذکر کارنامہ انجام دیا۔

اسدر علی کے مطابق مہاجروں پر مبنی ٹریڈ یونین قیادت، جس نے کراچی میں مزدوروں کے حقوق کی وکالت کرنے میں اہم کردار ادا کیا،زیادہ ہنر مند مقامی(مہاجر) کارکنوں اورکم ہنر مند ملک کے مختلف علاقوں (پشتون /جنوبی پنجابی)سے آئے مزدوروں کے درمیان ثقافتی اور لسانی تناؤ پر قابو پانے میں بھی کامیاب رہی۔

جیسا کہ باور خان کا مشاہدہ ہے کہ ”اس وقت تمام نسلیں، پشتون، اردو بولنے والے، پنجابی، بلوچ وغیرہ ملوں میں مل کر کام کرتے تھے اور مزدور سیاست میں حصہ لیتے تھے۔“ تاہم یہ اتحاد کمزور ثابت ہوا۔ باور خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ ضیاء آمریت کے دوران نسلی سیاست کے عروج نے، خاص طور پر مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ابھرنے سے، محنت کش طبقے کی اس یکجہتی کو پارہ پارہ کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اس نے محنت کش طبقے کو خاص طور پر غریب مزدوروں کو بہت نقصان پہنچایا۔“

بھٹو کا کریک ڈاؤن: بیلنسنگ ایکٹ یا غداری؟

اکیڈیمکس اور مزدور رہنما بھٹو کے طاقت کے استعمال کی مختلف وضاحتیں پیش کرتے ہیں۔

کچھ سکالرزکی طرف سے نمایاں کیا جانے والا ایک اہم عنصر بھٹو کو وراثت میں ملنے والی نازک معاشی صورتحال ہے۔اکیڈمک اقبال خان پاکستان فورم کے لیے لکھتے ہوئے معیشت کی گرتی ہوئی حالت اور غیر ملکی کرنسی کے کم ہوتے ذخائر پر زور دیتے ہیں اور مزدوروں کے اقدامات کو سرمایہ داروں کو معاشی خودکشی پر اکسانے جیسا عمل قرار دیتے ہیں۔

کچھ لوگ اسے ایک سوچے سمجھے توازن پیدا کرنے والے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خود بھٹو کے نیشنلائزیشن کے پروگرام کو مزدوروں کے مطالبات تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے جس کا مقصد یہ تھا کہ مزدور ایکتو ازم سے دور رہیں۔ شاید بھٹو نے ایک ہنگامہ خیز دور کے بعد معیشت کو مستحکم کرنا اور طاقت کو مستحکم کرنا زیادہ اہم سمجھا۔

اکیڈمک توصیف احمد خان بتاتے ہیں کہ ”صنعتکار، جو پہلے ہی بھٹو کی قومیانے کی پالیسیوں سے ناراض تھے، مزدور تحریک نے مزید ڈرا دیے تھے۔ بھٹو کا مقصد کریک ڈاؤن کرکے انہیں مطمئن کرنا اور معاشی استحکام برقرار رکھنا تھا۔“

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھٹو کا مقصد امریکہ کے لیے ایک اعتدال پسند امیج پیش کرنا ہو سکتا ہے، اورمضبوط مزدور تحریکوں سے وابستہ سوشلسٹ نظریات سے خود کو دور کرنا۔

کرامت علی کہتے ہیں کہ بھٹو کی آمرانہ اور جاگیردارانہ ذہنیت بالآخر مزدور تحریک کے ساتھ تعمیری بات چیت میں رکاوٹ بنی۔ ان کے مطابق”بھٹو اپنے مزدور دوست اقدامات کا اھسان جتاتے تھے،جیساکہ صنعتوں کو قومیانہ، مزدوروں کے نمائندوں کو ڈائریکٹر شپ پر مقرر کرنا اور مزدوروں کی منافع میں حصہ داری کو بڑھانا، اور اس لیے وہ مزدوروں کی تنقید سے ناراض ہو گئے اور ان کے تحرک کو اپنی اتھارٹی کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔“

مزدور تحریک نے پیپلز پارٹی کے اندر تناؤ کو بھی بے نقاب کیا۔ معراج محمد خان جیسے ریڈیکل عناصر نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ صنعتکاروں کو خوش کر کے اپنے مزدور دوست موقف سے غداری کر رہی ہے۔ اس اندرونی کشمکش نے پارٹی کے بائیں بازو اور زیادہ قدامت پسند عناصر کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کو اجاگر کیا، جنہیں خدشہ تھا کہ طویل ہڑتالیں حکومت کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔

توصیف احمد خان کا استدلال ہے کہ کمزور مزدور تحریک نے ایک خلا ء پیدا کیا،جس کا جماعت اسلامی جیسی اسلامی جماعتوں نے آسانی سے فائدہ اٹھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ”پاکستان نیشنل الائنس(پی این اے) تحریک کے عروج کے دوران اس عمل نے کراچی کے بہت سے مہاجر اور پشتون ووٹروں کو دائیں بازو کی طرف راغب کیا۔“

وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ایک متحرک مزدور تحریک کراچی کے تاریخی طور پر لبرل کردار کو تقویت دے سکتی تھی، جس کی تشکیل طالب علم اور کارکن ایکٹوزم سے ہوئی ہے۔ان کے بقول اگر آج کراچی میں پی پی پی کو کئی چیلنج درپیش ہیں اور وہ شہر میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے تو اس کے پیچھے یہ سارے عوامل بھی ہیں۔

تجربہ کار مزدور وکیل منان باچا کے مطابق بہت سے رہنما اور کارکن، بنیادی طور پر پشتون، بعد میں مرکزی دھارے کی جماعتوں، خاص طور پر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) میں شامل ہو گئے۔ بھٹو کی جانب سے نیپ پر مبینہ تخریبی سرگرمیوں کی وجہ سے پابندی عائد کئے جانے کے بعد قائم ہونے والی یہ جماعت ان شخصیات کے لیے ایک نیا سیاسی گھر بن گئی۔ بلوچ میر غوث بخش بزنجو کی زیر قیادت پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوگئے۔

منان باچا نوٹ کرتے ہیں کہ ”پی پی پی نے مزدور تحریک کو لسانی عدسے سے دیکھا۔یوں مزدور پی پی پی سے دور ہو گئے۔“ وہ 1977 کے قومی اسمبلی کے انتخابات کا حوالہ دیتے ہیں، جہاں این ڈی پی کے رہنما شیرباز مزاری نے بلدیہ ٹاؤن اورسائٹ کے صنعتی علاقے میں پی این اے کے بینر تلے پی پی پی کے امیدوار کو شکست دی تھی، جو مزدوروں کی پیپلز پارٹی سے وفاداری میں تبدیلی کاثبوت ہے۔

تحریک کی کمزوری

کرامت علی نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح مل مالکان اور لیبر ڈیپارٹمنٹ نے معروف مزدور رہنماوں کی تصویریں مشتہر کر کے مزدوروں کی سرگرمی کو دبانے کے لیے مل کر خوف کا ماحول پیدا کیا۔ یہ جبر بھی تھا ساتھ معاشی مشکلات کا دوربھی تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ”ٹیکسٹائل کے بحران نے ان شعبوں کو بہت زیادہ متاثر کیاجہاں مزدور زیادہ متحرک تھے۔ اس کے بعد تیل کا بحران آیا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر صنعتی بندشیں ہوئیں۔“

کرامت علی نے مزید کہاکہ ”مقامی صنعتوں کی زبوں حالی کے باعث بہت سے سرگرم ٹریڈ یونینسٹ،بنیادی طور پر وادی سوات سے تعلق رکھنے والے، 1975 کے اوائل تک اپنے آبائی شہروں کو واپس جانے یا خلیجی ممالک میں بیرون ملک کام تلاش کرنے پر مجبور ہوئے۔اس بڑے پیمانے کے اخراج نے کراچی کی مزدور قوت کو نمایاں طور پر کمزور کر دیا، جس سے تحریک اس کے اہم مرکز سے محروم ہو گئی“۔

منان باچا اس تحریک کو’حادثاتی‘تحریک قراردیتے ہیں،جس کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہ تھی،سو یہ تحریک شروع میں تو کامیاب ری مگر طویل مدتی اثرات قائم نہ کر سکی۔ تحریک کو سیاسی پشت پناہی حاصل نہ تھی،اس اہم عنصر کا فقدان کی وجہ سے یہ تحریک اپنی رفتار کھو بیٹھی۔

منان باچا کے مطابق مل مالکان نے ضیاء آمریت سے حوصلہ پا کرٹھیکہ داری نظام نافذ کیا اور بڑے پیمانے پر چھانٹیاں کیں، جس نے مزدور تحریک کو مزید کمزور کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”صنعت کی سطح پر ٹریڈ یونین لیڈرز ’پاکٹ یونینز‘ کا حصہ بن گئے اور’ٹھیکیدار‘کا کردار ادا کرنے لگے۔“

باور خان کی کہانی انفرادی کارکنوں پر اثرات کو واضح کرتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ”قید کے بعد، مجھے بلیک لسٹ کر دیا گیا۔کوئی بھی مجھے بطور مزدور نہیں رکھ رہا تھا۔“

مہینوں کی بے روزگاری کے بعدمزدوروں نے باور خان کے خاندان کو واپس سوات بھیجنے کے لیے چندہ اکٹھا کیا اور جہاز رانی کی صنعت میں بطور سی مین بھرتی ہونے میں ان کی مدد کی، جہاں انہوں نے 12 سال تک کام کیا۔ بعد میں انہوں نے امریکہ میں ایک مزدور کے طور پر کام کیا۔کچھ عرصہ قبل،وہ مستقل طور پر پاکستان واپس آگئے۔

1972 کی کراچی ہڑتال ایک اہم واقعہ ہے۔گو وہ اپنے ابتدائی اہداف حاصل نہ کر سکی مگر منظم مزدوروں کی طاقت کا ثبوت ہے۔ تاہم آج پاکستان کی ٹریڈ یونین کا منظرنامہ بالکل اس تحریک کے برعکس ہے۔تقسیم، معاشی تبدیلیوں اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کمزور ہو جانے والی مزدور تحریک، مزدوروں کے حقوق کی مؤثر طریقے سے وکالت نہیں کرپا رہی۔

باور خان کی عمر اب 70 سال سے زیادہ ہے۔وہ سوات کے ڈھیرئی گاؤں میں پرسکون ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 2022 کے اوائل میں انہوں نے پرانے دوستوں سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے کے لیے کراچی کا دورہ کیا، جہاں مزدور گروپوں نے ان کے اعزاز میں پروگراموں کی میزبانی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ”بدقسمتی سے آج مزدوروں کی صورت حال، خاص طور پر کراچی میں 1972 کے مقابلے میں ابتر ہے، لیکن مختلف بنیادوں پر مزدوروں کے درمیان تقسیم کی وجہ سے وہاں کوئی مزدور تحریک یا ٹریڈ یونین نہیں ہے۔“

وہ کہتے ہیں کہ”ہماری تحریک صرف تنخواہ میں اضافے کے لئے نہیں تھی۔ہم مزدور کے لئے احترام چاہتے تھے۔ کراچی 1972 میں مزدوروں کا شہر تھا، یہ ایک الگ قسم کی طاقت تھی، یکجہتی تھی جس نے حکومت کو سننے پر مجبور کیا۔کراچی کو دوبارہ مزدوروں کا شہر بنانے کی ضرورت ہے۔“

(بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: حارث قدیر، فاروق سلہریا)

Zia Ur Rehman
+ posts

ضیا الرحمن ایک صحافی اور محقق ہیں،جن کا کام نیویارک ٹائمز، ڈان اور دیگر اشاعتی اداروں کے ساتھ ساتھ مختلف پالیسی اداروں کے لیے شائع ہوتا ہے۔