فن و ثقافت

غزہ، نسل کشی اور احتجاج سے عاری اے آئی آرٹ

مریم شکیل

مئی کے آخری ہفتے کے دوران، سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ چلاجو فوراً ہی ایک مظہر (phenomenon)بن گیا!

ایک اے آئی(آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے تیار کردہ تصویر بعنوان All Eyes on Rafah (آل آئز آن رفاہ) انسٹاگرام پر اس کے Add Your فیچر کے ساتھ پوسٹ کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسے تقریباً 50 ملین لوگوں نے شیئر کر لیا۔

اس تصویر یا مظہر نے ڈیجیٹل سوشو-پولیٹکل ماحول میں ہلچل مچادی۔ دنیا نے ’ایکٹوازم‘ کی ایک ایسی اُبھرتی ہوئی لہر کا مظاہرہ دیکھا جس کا اظہارآرٹ کے ذریے کیا جا رہا تھا۔

اس دن کے بعد سے، متعددرست مگر بعض اشتعال انگیز آراء سامنے آئیں۔ ایک تنقید یہ تھی کہ یہ تصویر دھلے ہوئے کپڑوں کی طرح بے داغ ہے جس میں نفاست سے ترتیب دیے گئے خیمے دکھائے گئے تھے۔حقیقت میں رفاہ میں فلسطینیوں کی حالت بہت زیادہ خوفناک ہے: بچوں کے سر قلم کئے گئے اور زندہ لوگ جلادئے گئے۔

وار آرٹ (war art)سے کسی بھی نوع کی آشنائی یا سامنا انسان کو اسکی روز مرہ مشکلات سے بالاترہو کر،اس دنیا کو سمجھنے اور دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ آرٹ انسان کو اس حقیقت سے آشناکراتا ہے کہ اپنے پیاروں کی زندگیاں ایک نامعلوم مقصد کے لیے کھو دینا کتنا خوفناک ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جنگ یا نسل کشی یا دہشت گردی نے ایک visual expression کو جنم دیا ہے جو دیکھنے والے کو ہلا کر رکھ دے۔ جیمز بالڈون کے خوبصورت الفاظ کے مطابق:

”آرٹسٹ کا کردار بالکل اسی طرح ہے جیسے محبوب کا کردار۔ اگر میں آپ سے محبت کرتا ہوں، تو مجھے آپ کو ان چیزوں سے آگاہ کرنا ہوگا جو آپ نہیں دیکھتے۔“

گو جدید آرٹ ہمیشہ جنگوں اور نسل کشیوں کے دوران کئے گئے مظالم کو بے نقاب کرنے والی سچائی کا علمبردار رہا ہے، لیکن اے آئی سے تیار کردہ آرٹ کی آمداور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی”جمالیاتی“ شرائط کے بعد ایک نمایاں انحراف دیکھا گیا ہے۔ اے آئی کی اس مداخلت اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی”جمالیاتی“ شرائط نے ایک”بے اثر“آرٹ کو جنم دیا ہے جو نہ صرف مصائب کی روح تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے بلکہ بدقسمتی سے فلسطینیوں کے خونچکاں تجربات کی بھی تحقیر کرتاہے۔

اس معاملے میں، اے آئی سے تیار کردہ تصویر کا وائرل ہونا اور عالمی سطح پر اتنے زیادہ افراد کے ذریعے شیئر کیا جانا پریشان کن ہے کیونکہ یہ عالمی برادری کے ضمیر کو ہمیشہ کے لیے غفلت کی نیند سلاتا نظر آتا ہے، انہیں ”جنگ زدہ“، بلکہ ”نسل کشی کا شکار“ خطے کی دردناک حقیقتوں سے دور رکھتا ہے۔

یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کسی بھی گرافک مواد کو فلیگ(flag)کرنے کے لیے خودکار طریقے سے کام کرتے ہیں۔اسے خوش قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ پابلو پیکاسو کی جنگ مخالف شہری آفاق پینٹنگ ”گورینیکا“ انہی سوشل میڈیاپلیٹ فارمز پر دستیاب ہی نہیں مسلسل دیکھی بھی جا رہی ہے۔

گورینیکا (1937) از پابلو پیکاسو

تاریخی طور پر یہ تمام آرٹ کے نادر نمونے انسانیت پر مسلط ہونے والے سانحات کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ سانحات انسان نے ہی انسان کے لئے تخلیق کئے۔

کوریائی قتل عام (1951) از پابلو پیکاسو

جنگ (1964) از مارک شاگال

 

پرگر اسٹریٹ (1920) از اوٹو ڈکس

یہ پینٹنگز کبھی انسانی ضمیر کو پریشان، منتشر اور بے چین کرنے میں ناکام نہیں ہوئیں۔ اسی طرح، مارک شاگال کی ”وار“، پابلو پیکاسو کی”دی ماس گریو“ اور”مساکیر ان کوریا“، اوٹو ڈکس کی ”پرگر اسٹریٹ“ اور بہت سے دیگر آرٹ ورکس وہ فن پارے ہیں جو دیکھنے والوں کی یاداشت میں اپنے انمٹ نقش بنا چکے ہیں۔

دریں اثنا، اے آئی کے زیر اثر ”استھیٹک“ کے ساتھ آرٹ اور آرٹسٹس کا کردار، کاروباری لحاظ سے تو کامیاب سہی، لیکن انسانیت کی ناکامی ہے۔ مثال کے طور پر، ایوارڈ یافتہ اے آئی آرٹسٹ، سارہ شکیل نے فلسطینی یکجہتی میں انسٹاگرام پر کچھ تصاویر شیئر کیں جن کی امیجری انتہائی خوبصورت اور آفاقی تھی۔

سارہ شکیل کی طرف سے مردہ فلسطینی بچوں کی اے آئی تصویر

سارہ شکیل کی اے آئی تصویر فلسطینیوں کو دوبارہ جنت میں اٹھتے ہوئے دکھا رہی ہے

یہ فن پارے دلدوز پیغامات سے بھرپور تھے: اگرچہ فلسطینی اس دنیا میں خوبصورت زندگی نہیں جی سکے لیکن مرنے کے بعد ایک شاندار زندگی ان کے منتظر ہے۔

یہ پیغام مذہبی امید سے بھرپور ہے لیکن کیا یہ مصائب کے ساتھ انصاف کر رہا ہے؟ اور کیا اس بربریت کو نمایاں کر رہا ہے جس بے رحمی سے فلسطینیوں کو مٹایا جا رہا ہے؟

ان تصاویر کا موازنہ کرتے ہوئے، یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اے آئی سے تیار کردہ”استھیٹک“ نے انسانی ذمہ داری پر شیئرز کی تعداد کو ترجیع دی ہے۔ احتجاج کی روح بدقسمتی سے اس جدید اے آئی سے تیار کردہ آرٹ کے جسم سے پرواز کر چکی ہے۔ مزاحمت اس آرٹ کی قبر پر ماتم کرتی نظر آتی ہے۔

آرٹ کا مقصد سچائی کو بیان کرنا اور غیر فلٹر شدہ حقیقت کو دوسروں تک پہنچانا ہے مگر یہ اے آئی آرٹ جو احتجاج کے بیانئے کوتباہ کرنے پر حد سے زیادہ مرکوز ہے، جو نسل کشی کی خوفناک حقیقت پر بھی مہمیز سا پردہ ڈال رہا ہے،اس کا حل یہ ہے کہ اے آئی جمالیات سے پرہیز برتا جائے۔

یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ آرٹ کا مطلب اس کی مختلف،حتیٰ کہ متضاد،تشریحات سے بالاتر ہے۔۔۔ لیکن visual experience کی اہمیت کو نظر انداز کرنا بھی ناممکن ہے۔ اس کے سیاسی (ویسے کوئی غیر سیاسی آرٹ نہیں ہوتا) بیانئے کو انسانی لاشعور میں پیوست کرنے کی صلاحیت کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ ڈیجیٹل دور میں یہ جمالیات سماجی و سیاسی مضمرات رکھتی ہے کیونکہ یہ نہ صرف اس وقت مصیبت زدہ فلسطینیوں کے بلکہ آج تک کی تمام غیر منصفانہ ہلاکتوں کے جیتے جاگتے تجربات کو بے اثر کرنے کا رجحان رکھتی ہے۔

مزید برآں، یہ استھیٹک تصاویر زیادہ تر اس لئے پسند کی جاتی ہیں کیونکہ وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی سنسرشپ کے الزامات سے آسانی سے بچ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ اور بھی خطرناک مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ خود تصاویر سنسرشپ کا مجسمہ ہوتی ہیں۔

اے آئی سے تیار کردہ آرٹ کی منافقت بھی ناقابل تردید ہے کیونکہ یہ کسی کو بھی ایسی چیز تیار کرنے سے روکتی ہے جو ایک مخصوص معیار پر پورا نہیں اترتی جس کا مطلب ایک ضمنی کاروباری مقصد ہوتا ہے۔

نسل کشی کے دوران آرٹ کو استھیٹک بنا کر، اس کو تجارتی بنا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی انتہا ہے اور جب عالمی برادری فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑی ہونے کی کوشش کرتی ہے، تو انہیں چاہیے کہ اپنے متعلقہ احتجاج کے ہر چھوٹے سے چھوٹے علامت کو احتیاط سے شامل کریں۔

Maryam Shakeel
+ posts

مریم شکیل کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ مریم شکیل نے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور سے لبرل آرٹس میں بی ایس کیا ہے۔ وہ ترقی پسند بیانئے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنی تحریروں میں سماجی مسائل کے تخلیقی حل پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔