تاریخ

جموں کشمیر: ’قرارداد الحاق پاکستان‘ ایک حقیقت یا افسانہ؟

دانش ارشاد

19 جولائی کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت اور پاکستان نواز جماعتیں ’یوم الحاق پاکستان‘ کے طور مناتی ہیں۔ اس دن اس خطے میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مسلم کانفرنس اور سردار ابراہیم کے حامی خود کو اس قرار داد کا محرک قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو فخر سے جتلاتے ہیں کہ وہ بائی چوائس پاکستانی ہیں، اورانہوں نے پاکستان بننے سے قبل پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ سابق صدورسردار ابراہیم، سردار عبدالقیوم اور ان کے چاہنے والوں کا دعویٰ رہا ہے کہ 19 جولا ئی 1947 کو مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے سردار ابراہیم کے سری نگر میں واقع گھر میں الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی اور 24 اکتوبر 1947 کی حکومت کی بنیاد اسی قرارداد کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے۔

تاہم اس قرارداد کی حقیقت اور اس کے بارے بیان کی گئی تفصیلات انتہائی دلچسپ ہیں۔ 19 جولائی کی قرارداد کا تفصیلی ذکر سردار ابراہیم کی کتاب ’کشمیر ساگا‘ میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ سردار عبدالقیوم کی کتاب ’مقدمہ کشمیر‘اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے سابق جج یوسف صراف کی کتاب میں معمولی سا ذکر ملتا ہے۔ مسلم کانفرنس کے بانی چوہدری غلام عباس کی کتاب ’کشمکش‘میں اس قرارداد کا ذکر نہیں ملتا،نہ ہی ان کی زندگی میں اس قرارداد کا کہیں ذکر کیا گیا۔

اس قرار داد کے پس منظر سے متعلق سردار ابراہیم اپنی کتاب میں دعوی کرتے ہیں کہ ”جولائی 1947 تک جب مہاراجہ جموں کشمیر الحاق کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکا،تو مسلم کانفرنس نے واضح طور پر الحاق پاکستان کے حق میں مظاہرے کئے۔ 19 جولائی 1947ء کو اس نے باقاعدہ طور پر مندرجہ ذیل قرار داد کے ذریعہ الحاق پاکستان کا فیصلہ کیا۔“

سردار ابراہیم نے اپنی کتاب میں قرارداد کا مکمل متن بھی لکھا ہے جس کے چند اقتباسات قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔وہ لکھتے ہیں کہ”قرار میں ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مہاراجہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اندرونی خود مختاری کا اعلان کرے اور خود آئینی سربراہ رہ کر آئین ساز اسمبلی کا انعقاد کرے۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ محکمہ دفاع، خارجہ اور مواصلات کا پاکستان سے الحاق کیا جائے۔ اگر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی کوشش کی گئی تو ریاست کے مسلمان اس کی مخالفت کریں گے۔ یہ اجلاس مصنف سردار ابراہیم کے گھر کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سری نگر میں مسلم کانفرنس کو اجلاس کے لیے کوئی جگہ میسر نہ تھی۔ اس کی وجہ وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس مضبوط تھی اور وہ مسلم کانفرنس کی مخالف تھی۔ یہاں تک کہ مسلم کانفرنس کو بوٹ ہاؤس میں بھی جگہ نہ مل سکی۔ اس لیے مصنف کو اپنا گھر اس اجلاس کے لیے خالی کرنا پڑا۔“

سردار ابراہیم نے اجلاس کا ذکر کیا لیکن اس میں شریک ہونے والوں کے نام نہیں لکھے۔ جو ایک بڑے ابہام کا باعث ہے۔ ان کے مطابق اس قرارداد کی نقول مہاراجہ اور مسلم لیگ کے صدر کو ارسال کی گئی تھیں،مگر مہاراجہ اور مسلم لیگ کے صدر کے جواب کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔

سردار ابرہیم یہ بھی لکھتے ہیں کہ ”نیشنل کانفرنس کی وجہ سے سری نگر میں کوئی ایسی جگہ میسر نہیں تھی، جہاں مسلم کانفرنس جنرل کونسل کا اجلاس کرتی۔اس لیے محلہ آبی گزرگاہ،جو نہر کے حصہ میں واقع تھا، میں میرے گھر میں کیا گیا۔ ہمیں کوئی اور بوٹ ہاوس بھی حاصل نہ تھا۔“

اس قرارداد سے اتفاق یا ااختلاف اپنی جگہ لیکن کچھ ایسے واقعات اور حوالے موجود ہیں جن سے واضح ہو گا کہ اس قرار داد کا کوئی وجود ہی نہ تھا،یا پھر یہ سردار ابراہیم کی ذاتی خواہش تھی۔

24 اکتوبر کی حکومت کا جو اعلامیہ ان کی کتاب میں موجود ہے،اس میں 19 جولائی کی قرار دار کا کوئی تذکرہ نہیں۔ 4 اکتوبر 1947 کو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں جب ریاست جموں کشمیر کی ایک انقلابی حکومت (جسے فرضی حکومت بھی کہا جاتا ہے) کی خبر شائع ہوئی تو اس میں بھی اس قرارداد کا کوئی ذکر موجود نہ تھا۔

سردار ابراہیم اپنی اسی کتاب ’کشمیر ساگا‘میں اکتوبر 1947 کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں،جو اس قرارداد کے وجود یا کم از کم اس کی حیثیت پر سنجیدہ سوال اٹھاتا ہے۔ ’کشمیر ساگا‘کے صفحہ 210 پر سردار ابراہیم لکھتے ہیں کہ”27 اکتوبر 1947ء کو انڈیا نے مہاراجہ کی طرف سے ایک مشروط معاہدہ الحاق قبول کر لیا تھا۔ مہاراجہ سری نگر سے بے عزتی کی حالت میں بھاگ گیا تھا۔ جعلی معاہدہ جو بھارت نے قبول کیا تھا اور اسے قانونی اور آئینی حیثیت دے دی تھی کہ وہ اپنے فوجی دستے کشمیر میں بھیجے، لیکن پاکستان کے پاس کشمیر میں فوج بھیجنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔ اس صورتحال میں، میں بھاگتا ہوا کراچی پہنچا اور یہ تجویز دی کہ حکومت پاکستان، حکومت آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق قبول کر لے۔ تو پاکستان اچھے قانونی جواز کے ساتھ اپنی افواج کو جموں اور سری نگر کے لیے بھیج سکے گا۔“

وہ لکھتے ہیں کہ”اس سکیم کو قائد اعظم نے نومبر 1947ء کے پہلے ہفتے میں منظور کر لیا تھا، لیکن میری تجویز وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے مسترد کر دی تھی۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ ایک موقع تھا جو ضائع کر دیا گیا۔ اگر پاکستان ہمت کرتا اور سنجیدگی سے سوچتا تو معاملات ہمارے حق میں ہو جاتے۔ اس تجویز کو قبول نہ کرنا میرے خیال میں بڑی غلطی تھی۔ جو پاکستان نے کی۔“

اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ اگر 19 جولائی کوئی قرارداد منظور ہوئی تھی،جسے بقول سردار ابراہیم مسلم کا نفرنس کی حمایت حاصل تھی، تو پھر کیا وجہ تھی کہ سردار ابراہیم ہی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت کے اعلامیہ میں اسے شامل نہیں کیا گیا۔ کیا اس کی حیثیت اور اہمیت صرف 4 ماہ میں ختم ہو گئی تھی؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مسلم کانفرنس 19 جولائی کو الحاق کر چکی تھی تو سردار ابراہیم اکتوبر میں الحاق کی تجویز لے کر کراچی کیوں گئے۔ نئے سرے سے الحاق پاکستان کی پیش کش کی بجائے 19 جولائی کی قرارداد کا حوالہ کیوں نہ دیا گیا؟

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ جب بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور یکم جنوری 1948 کے سمن کے نتیجے میں پاکستان نے 15 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ میں مفصل جواب جمع کروایا اور سر ظفر اللہ نے طویل تقریر کی، جس میں مسلم کانفرنس کے کردار، مہاراجہ کے خلاف جدوجہد اور تحریک آزادی کا ذکر موجود ہے، لیکن اس تحریری جواب اور سر ظفر اللہ کی تقریر میں 19 جولائی کی قرارداد کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔حالانکہ بھارت کے پاس اس کیس کی بنیاد مہاراجہ کی انڈیا سے الحاق کی دستاویز تھی۔ اگر پاکستان اس قرار داد کا حوالہ دیتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ مسلم کانفرنس ریاسی عوام کی نمائندہ جماعت ہے اور اس کی یہ الحاق پاکستان کی قرارداد موجود ہے، تو کیس وہیں ختم ہو جانا تھا ہے۔

اس کے بعد بھی آج تک اقوام متحدہ میں کشمیر کے کیس میں پاکستان نے اس قرارداد کا حوالہ نہیں دیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کا یہ موقف رہا کہ ”ریاست جموں کشمیر کی بڑی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، 6 نومبر کو مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں“۔۔

لیکن اس سب میں الحاق پاکستان کی 19 جولائی کی قرارداد کا ذکر موجود نہیں۔ آخر پاکستان اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتا ہے؟

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جموں کشمیر کے معاملے میں جو خط و کتابت ہوئی،اس میں مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ الحاق کا ذکر تو ملتا ہے لیکن مسلم کانفرنس کی الحاق پاکستان کی اس قرارداد کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔اس کا حوالہ پاکستان نے کہیں ایک مرتبہ بھی نہ دیا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ 1967 تک،جب چوہدری غلام عباس کی وفات ہوئی،اس قرارداد کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کی کتاب ’کشمکش‘میں اس قرارداد کا ذکر ہے۔

درج بالا بحث سردار ابراہیم کی کتاب کے اقتباسات پر مبنی تھی۔ اب کچھ مزید حوالے بھی دیکھتے ہیں۔

پروفیسر اسحاق قریشی جولائی 1947 میں مسلم کانفرنس کے قائم مقام سیکرٹری جنرل تھے۔انہوں نے مارچ 1994 کو ماہنامہ دی ہیرالڈ (جو روزنامہ ڈان کا ماہنامہ میگزین تھا) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ”جو لوگ ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے تیسرے آپشن (خودمختاری) کی مخالفت کرتے ہیں۔ان کے پاس ریاست کے حوالے سے کوئی وژن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 11 جولائی 1947 کو قائداعظم (محمد علی جناح)نے مجھے اور مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چوہدری حمید اللہ کو دہلی بلایا تھا۔ اس وقت وہ پاکستان کے گورنر جنرل نامزد ہو چکے تھے لیکن ابھی حلف نہیں ہوا تھا۔“

انکا کہنا تھا کہ ”ملاقات میں قائد نے کہا کہ ان کی کسی ذریعے سے مہاراجہ جموں کشمیر کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے ذریعے کا نام نہیں بتایا لیکن کسی حوالے سے ہمیں اندازہ ہوا کہ بات چیت کا ذریعہ نواب آف گوپال تھے۔ انہوں نے کہا کہ مہاراجہ ریاست کو خود مختار رکھنا چاہتے ہیں اور میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ ریاست جموں کشمیر خود مختار رہے۔ قائد نے ہمیں جیل میں موجود قیادت تک بھی یہی پیغام پہنچانے کا کہا۔“

انکا مزید کہنا تھا کہ ”ان کے خود مختار کشمیر کے خیالات پر ہمیں حیرت ہوئی۔اس کے باوجود اس ملاقات کے بعد میں نے اور چوہدری حمید اللہ نے پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ قائد کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں اور ہم نے کوئی ابہام باقی نہ رکھا لیکن اس پریس کانفرنس کو پاکستان ٹائمز نے رپورٹ کیا۔“

ان کا کہنا تھا کہ ”جو یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھرپور اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی تو ایسا کوئی اجلاس ہوا ہی نہیں،کیونکہ اس وقت تمام رہنما جیل میں تھے اور صرف ہم ہی باہر سرگرم تھے۔ ہم نے سردار ابراہیم کے گھر ایک نجی ملاقات کی تھی اور اپنے ساتھیوں کو قائد کے منصوبوں کے بارے میں بتایا تھا، لیکن یہ کسی بھی طرح سے جنرل کونسل کا اجلاس نہیں تھا۔ جنرل کونسل کے 200 ارکان میں سے صرف ایک درجن یا اس کے قریب لوگ اس ملاقات میں موجود تھے۔ ملاقات میں اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ آیا قائد کے منصوبے کو تسلیم کیا جائے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے مطالبے کو آگے بڑھایا جائے۔“

ان کا کہنا تھا کہ”مسلم کانفرنس کی قیادت نے اگلے دو مہینے قائد کے حکم کے مطابق پر امن گزارے اور مہاراجہ کے خلاف احتجاج نہ ہونے دیے۔ باوجود اس کے کہ اس وقت تک جموں کشمیر میں تمام سرکاری عمارتوں پر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور 19 ستمبر 1947 کو مسلمانوں کو مہاراجہ کے خلاف مظاہرے کرنے سے روکنے کے لیے میں خود سری نگر میں موجود تھا،کیونکہ چوہدری غلام عباس نے ہم سے کہا تھا کہ قائد کے حکم کے بعد وہ مہاراجہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔جو پہلے ہی مہارانی کے گرو کے دباؤ میں تھا۔“

ان حوالوں سے قرارداد کی قانونی حیثیت تو واضح ہو جاتی ہے۔ساتھ ہی قرارداد کے وجود پر بھی سنجیدہ سوال اٹھتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہدری غلام عباس کی موت کے بعد اس قرارداد کو منظم انداز میں پھیلایا گیا کیوں کہ اس سے قبل تو اس پر بات تک نہ ہوئی تھی۔

Danish Irshad
+ posts

دانش ارشاد کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر سے ہے۔ وہ لمبے عرصے سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ مسئلہ کشمیرسے متعلق گہری نظر رکھتے ہیں۔