خبریں/تبصرے

بلوچستان: سمی، صبیحہ، شاہ جی سمیت درجنوں گرفتاریوں کیخلاف مکمل ہڑتال، شاہراہیں بند

لاہور(جدوجہد رپورٹ) بلوچ راجی مُچی (بلوچ قومی اجتماع) کے منتظمین کی کال پر رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف بلوچستان بھر میں ہڑتال کی گئی اور تمام قومی شاہراہیں منگل کے روز بھی بند رہیں۔ گوادر اور مستونگ سمیت دھرنوں کا سلسلہ بھی ابھی تک جاری ہے اور ہڑتال کو مزید وسعت دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک پھیلادیا جائے گا۔

قبل ازیں پیر کی شب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بتایا کہ کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر صبیحہ ، سمی دین اور شاہ جی کو ریاستی تشدد کے بعد لاپتہ کر دیا گیا ہے، جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت دیگر کی گرفتاری کیلئے گوادر کے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جار ہے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ بی ایس او کے ڈپٹی آرگنائزر محمد بلوچ سمیت کمیٹی کے کارکنان اور بلوچ طلبہ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں لاپتہ کئے جا چکے ہیں۔

بلوچ راجی مچی میں شرکت کیلئے بلوچستان بھر سے نکلنے والے قافلوں کو روکے جانے، فائرنگ اور تشدد کے واقعات کے خلاف کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی گئی اور بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیا گیا۔

کوئٹہ سے بلوچ راجی مُچی میں شرکت کیلئے نکلنے والا قافلہ مستونگ کے مقام پر روک دیا گیا تھا، جہاں آج پانچویں روز بھی احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
مختلف مقامات پر فائرنگ اور تشدد کے نتیجے میں 3 ہلاکتوں اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ تین روز کے دوران ان کے ایک ہزار سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ 4 دن سے گوادر میں انٹرنیٹ بند ہے جب کہ ایف سی، پولیس اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہل کار عام لوگوں پر تشدد کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کا کہنا تھا کہ دھرنے پر دو بار کریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔ ایف سی اور پولیس نے مذاکرات کے بجائے پُرامن دھرنے کے شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس سے قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ راجی مُچی کے عنوان سے اتوار کو گوادر میں جلسے پر کریک ڈاؤن اور شرکا پر فائرنگ کے نتیجے میں اپنے دو کارکنوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی تھی۔

منتظمین کے مطابق جلسے کے شرکا کے خلاف حکومتی کارروائیوں اور بلوچستان کی مختلف قومی شاہراہوں پر رکاوٹوں کی وجہ سے کئی قافلے گوادر جلسے میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔

گوادر میں منگل کو بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل رہی ہے جب کہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دھرنے کے شرکا پر دوسرے روز بھی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود گوادر میں لوگوں کا جم غفیر ہے اور بلوچ عوام جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں اور دیگر مسائل پر اس ریفرنڈم کا حصہ بنے ہیں۔

مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے پر ‘وی او اے’ کو بتایا کہ فورسز کی جانب سے دھرنا مظاہرین پر آج (پیر کے روز)بھی فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ،جب کہ متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کے مطابق گزشتہ شب پولیس نے گوادر میں نیشنل پارٹی سینٹرل کمیٹی کے رکن اشرف حسین کے گھر پر چھاپہ مار کر نہ صرف انہیں گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے گھر میں موجود دھرنے کے شرکاء کی تقریباً 12 گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کیے گئے اور ان کے شیشے توڑے گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی گوادر میں کشیدگی اور سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کی ویڈیوز گردش میں ہیں۔ لیکن ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جاری کردہ بیان کے مطابق بلوچ راجی مچی پدی زِر گوادر میں دھرنے کی صورت میں جاری ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ راجی مچی دھرنے کے اس وقت دو مطالبات ہیں۔ ایک جہاں جہاں ہمارے قافلوں کو زبردستی روکا گیا ہے راستے کھول کر انہیں گوادر آنے دیا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے ہمارے تمام گرفتار افراد کو 48 گھنٹے کے اندر رہا کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں دھرنا غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔

ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ لوگوں کو مارچ کے لیے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں ہے، جنہوں نے سڑکوں پر لگی رکاوٹیں ہٹانے اور احتجاج میں شامل ہونے کی کوششیں کیں اور اسی دوران مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں ہوئیں۔

فوج کے میڈیا ونگ کے مطابق ہجوم نے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ ہلاک ہو گئے۔ بیان کے مطابق حملے میں ایک افسر اور 15 دیگر فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔

مظاہرے کے منتظمین نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص گوادر میں احتجاجی مظاہرے کے دوران ہلاک ہوا جبکہ دو دیگر افراد دوسرے احتجاجی مقام پر اب تک مارے گئے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے گوادر میں 20 سے زائد افراد کی گرفتاری تصدیق کی ہے، تاہم اس نے ہلاکتوں یا زخمیوں کی اطلاع پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts