مارکسی تعلیم

کیا تحریک انصاف پاپولسٹ جماعت ہے؟ ایک مارکسی تجزیہ

فاروق سلہریا

چند روز قبل،نجم سیٹھی’سما‘چینل پر اپنے پروگرام ’سیٹھی سے سوال‘ میں یہ تجزیہ کر رہے تھے کہ عمران خان ایک پاپولسٹ رہنما ہیں اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک پاپولسٹ جماعت ہے۔ معروف صحافی زاہد حسین اور کالم نگار ندیم فاروق پراچہ ’ڈان‘ اخبار میں اپنے اپنے کالم میں عمران خان کو پاپولسٹ قرار دے چکے ہیں۔ عالمی میڈیا میں بھی عمران خان کو پاپولسٹ قرار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بنجمن پارکن اور فرحان بخاری عمران خان کو پاپولسٹ رہنما قرار دیتے ہیں۔

اکیڈیمک تحریروں میں بھی عمران خان کو پاپولسٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ترک اکیڈیمک احسن یلماز اور ان کے پاکستانی ہم رکابوں نے ایک سے زائد تحقیقی مقالوں میں عمران خان کو پاپولسٹ قرار دیا۔ بعض پاکستانی سکالرز نے بھی عمران خان کو اسی طرح پاپو لسٹ قرار دیا (دیکھئے: فضہ بتول، 2023؛ عاصمہ فیض،2022)۔ آمنہ یقین اور عائشہ صدیقہ بھی عمران خان کو پاپولسٹ قرار دے چکی ہیں۔

احسن یلماز اور کائنات شکیل (2021) رقم طراز ہیں:”2010 کے شروع تک، عمران خان کی پاپولزم مختلف نوع کے نظریات کا ملغوبہ تھی۔ ان نظریات میں اسلام ازم، مغرب دشمنی، اشرافیہ دشمنی،عوامی اصلاحات کا وعدہ اور عوام کو طاقت منتقل کرنے کا وعدہ شامل تھا۔نظریات کے اس ملغوبے کے ساتھ وہ تبدیلی کا وعدہ کر رہے تھے“۔

اس مضمون میں دو دلائل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اول، پاپولزم کو جس طرح لبرل اور مین اسٹریم بیانئے میں ایک تھیوری بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ تھیوری ہی غلط ہے۔ دوم، پاپولزم کا مارکسی نظریہ پیش کرتے ہوئے ثابت کیا جائے گا کہ تحریک انصاف کوئی پاپولسٹ جماعت نہیں ہے۔

پاپولزم بارے مین اسٹریم لبرل نظریہ

پہلی بات تو یہ کہ پاپولزم کے مین اسٹریم اور لبرل نظرئے کو اس درجہ پھیلا دیا گیا ہے کہ ہر طرح کی سیاست، سیاستدان اور سیاسی تحریک کو پاپولسٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ معروف مارکس وادی امریکی جریدے ’منتھلی ریویو‘ کے مدیر جان بیلمی فوسٹر کے مطابق،ہر اس تحریک کو پاپولسٹ قرار دے دیا جاتا ہے جس میں ”عوام“ کو ”اشرافیہ“ کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بائیں بازو اور دائیں بازو کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاپولسٹ ہے اور برنی سانڈز بھی۔برطانیہ کے جیرمی کوربن کو بھی پاپولسٹ قرار دیا گیا اور فرانس کی لی پین کو بھی پاپولسٹ کہا جاتا ہے۔فوسٹر کے بقول یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جسے ہر ایسے سیاستدان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کی سیاست کو براثابت کرنا مقصود ہو۔

گذشتہ صدی میں،ستر اور اسی کی دہائی میں لاطینی امریکہ اور افرو ایشین ممالک کی بے شمار تحریکوں اور رہنماوں کو پاپولسٹ قرار دیا گیا۔ تب بھی اسی طرح کی کنفیوژن موجود تھی۔ پیرون اور کاسترو سے لے کر، ماو اور نکروما تک۔۔۔کتنے ہی رہنما تھے جن کو پاپولسٹ قرار دیا گیا۔ پاپولزم کی تاریخی جڑیں امریکہ اور روس میں تلاش کی جاتی ہیں جہاں لگ بھگ ایک صدی قبل پاپولسٹ تحریکوں اورجماعتوں نے جنم لیا۔

یورپ میں فاشزم کا ابھار ہوا تو بعض لبرل حضرات ان فسطائی تحریکوں کو بھی پاپولسٹ قرار دینے لگے۔ اس مختصر سے جائزے کے نتیجے میں ہی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب اس قدر متنوع سیاسی تحریکوں کو پاپولسٹ قرار دیا جائے گا تو پاپولزم کی تعریف مقرر کرنا کس قدر مشکل ہو گا۔

اس مشکل سے نپٹنے کے لئے، حالیہ عرصے میں،سکالرز نے رائٹ ونگ پاپولزم اور لیفٹ ونگ پاپولزم کی اصطلاح اور تقسیم متعارف کرائی ہے۔ اس تقسیم کے نتیجے میں ابہام کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، فضہ بتول (2023) بھٹو کو بھی پاپولسٹ قرار دے دیتی ہیں اور عمران خان کو بھی۔

بھٹو نے صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے کر سرمایہ دار طبقے کی نیندیں اڑا دیں اور زرعی اصلاحات (نیم دلی سے ہی سہی) متعارف کرا ئیں۔ بھٹو کی سماجی بنیاد محنت کش تھے۔ اس کے مقابلے پر عمران خان شرمناک حد تک نئیو لبرل ہیں،جن کی سماجی بنیاد درمیانہ طبقہ ہے۔

فوسٹر کے بقول پاپولزم کو لیفٹ ونگ اور رائٹ ونگ قرار دے کر لبرل بیانئے میں ایک لیفٹ ونگ اور رائٹ ونگ سیاست کے مابین اہم ترین فرق کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ رائٹ ونگ،چاہے وہ سر مایہ داری کے خلاف نعرے بازی کرنے والی فسطائیت ہی کیوں نہ ہو، اپنی ’بغاوت‘ (تبدیلی)کو سر مایہ داری نظام کے اندر ہی بر پا کرنا چاہتے ہیں۔وہ سر مایہ داری کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ اس کے بر عکس،لیفٹ ونگ بغاوت کا مقصد سر مایہ داری کا خاتمہ ہے۔

فوسٹر کا ماننا ہے کہ جب فار رائٹ کی حالیہ تحریکیں یورپ میں ابھریں،پھر امریکہ میں ٹرمپ کا ابھارہوا تو اِن تحریکوں کے حوالے سے پاپولزم کی اصطلاح عام ہونے لگی۔ فسطائیت کے زمرے میں آنے والی ان تحریکوں (نئیو فاشزم، پوسٹ فاشزم وغیرہ) کے لئے فاشزم کی اصطلاح استعمال کرنے کی بجائے پاپولزم کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اس کی وجہ،فوسٹر کے مطابق، یہ ہے کہ فاشزم پر کوئی بھی سنجیدہ بحث سر مایہ داری پر بحث کئے بنا ادھوری رہے گی۔ لبرل حضرات سر مایہ داری پر بحث نہیں کرنا چاہتے۔ اس لئے پاپولزم کی اصطلاح متعارف کرا دی گئی ہے۔ جو بھی لبرل نظام سے بغاوت کرے،اسے پاپولسٹ قرار دے دو۔

گو فوسٹر کی بحث مغربی دنیا بارے ہے،تیسری دنیا میں عام طور پر مغرب کی بلا تنقید نقالی کی جاتی ہے۔اس کی وجوہات پر میں نے کہیں اور بحث کی ہے (دیکھئے: میڈیا امپیریلزم ان انڈیا اینڈ پاکستان،باب نمبر چار)۔سو بغیر سوچے سمجھے عمران خان سے لے کر مودی تک، اردوگان سے لے کر بولسونارو تک۔۔۔سب کے سب پاپولسٹ قرار دے دئے گئے ہیں۔

مندرجہ بالا بحث کا مقصد یہ نہیں کہ پاپولزم کو بطور ایک تصور یا کانسیپٹ (concept) ترک ہی کر دیا جائے۔ راقم کا خیال ہے کہ پاپولزم کا لبرل تصور،خاص کر جس طرح ان دنوں استعمال کیا جا رہا ہے،انتہائی ناقص ہے۔ اس کے برعکس پاپولزم کے مارکسی تصور کی مدد سے پاپولسٹ سیاسی رجحانات کو زیادہ بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔ پاپولزم کی مارکسی تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف بارے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی پاپولسٹ جماعت نہیں ہے۔ یہ جائزہ مضمون کے اگلے حصے میں پیش کیا جائے گا۔

پاپولزم کا مارکسی تصور

پاپولزم پر نظریہ انحصار (dependency school) سے تعلق رکھنے والے مارکسی،بالخصوص لاطینی امریکہ میں مقیم،نظریہ دانوں اور سکالرز نے بحث کی۔ ان سکالرز کا خیال تھا کہ پاپولزم ایک مخصوص معاشی سائیکل کے دوران ایک خاص عہد کی پیداوار ہے۔ وہ عہد کیا ہے؟

ان کا خیال تھا یہ عہد ہے تیسری دنیا میں صنعت کاری کی ریاستی کوشش کا۔ایک ایسی کوشش تھی جسے انگریزی میں import substitution industrialisation کا نام دیا گیا۔اکیڈیمک ادب میں ا س کا مخفف ISI (آئی ایس آئی) بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے قیام کی ابتدائی دہائیوں میں،یہ کوشش پاکستان میں بھی کی گئی۔یہ اس قسم کی صنعت کاری کی کوشش تھی جس میں مقامی بورژوازی کو ریاستی سر پرستی فراہم کی گئی کہ وہ صنعت لگائے اور ریاست نے در آمدات پر ہر ممکنہ پابندی لگا دی۔ مقصد یہ تھا کہ ملکی منڈی مقامی سر مایہ دار کو فراہم کر دی جائے۔اسے غیر ملکی بر آمدات سے مقابلہ نہ کرنا پڑے اور قومی صنعت ترقی کرے۔

برازیل سے تعلق رکھنے والے مارکس وادی سکالر مائیکل لوئی (Michael Lowy) کا کہنا ہے کہ اس تعریف اور تصور کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ پاپولزم کا مظہر اسی کی دہائی میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جب صنعت کاری کے لئے آئی ایس آئی پالیسیاں ترک کر دی گئی ہیں۔ دوم، نظریہ انحصار نے پاپولزم کے مظہر کو معاشی سطح تک محدود کر دیا،اس کے دیگر عناصر پر غور نہیں کیا۔

ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے معروف اکیڈیمک ارنستولک لاو(Ernesto Laclau)اور ان کی اہلیہ شانتل موفے (Chantel Mouffe)نے بھی پاپولزم پر،ان کے اپنے دعوے کے مطابق، مارکسی انداز مین بحث کی۔ یہ دونوں پوسٹ مارکسسٹ ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔معلوم نہیں،ان کی مارکسزم کو کس حد تک مارکسزم کہا جا سکتا ہے (یہ بحث پھر کسی وقت سہی)۔ بہرحال، ان دونوں نے پاپولزم کی بحث سے معیشیت سے نکال ہی دیا۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماو اور ہٹلر کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاپولزم کو نہ تو معیشیت تک محدود کیا جائے۔نہ ہی اسے معشیت سے کاٹ دیا جائے۔ مارکسی طریقہ کار بھی یہی ہے: کسی مظہر کو کلی انداز میں جانچنا۔

مائیکل لوئی کے مطابق پاپولزم ایک ایسا سیاسی مظہر ہے جسے ہم ملٹی کلاس تحریک کہہ سکتے ہیں۔اس تحریک کی قیادت بورژوازی کے پاس ہوتی ہے۔ اس کا نظریہ قوم پرستی ہوتا ہے۔ یہ سیاسی تحریک تنظیمی لحاظ سے مختلف شکلوں میں نمودار ہوتی ہے (پارٹی، ٹریڈ یونین، مختلف نوع کی ایسوسی ایشن،وغیرہ وغیرہ)۔اس کی قیادت ایک بورژوا یا پیٹی بورژوا caudillo کے ہاتھ میں ہوتی ہے (caudillo ہپانوی زبان میں ایسے فوجی یا سیاسی رہنما کو بولتے ہیں جس کے ہاتھ مین سیاسی طاقت ہو)۔پاپولزم اقتدار میں آنے کے بعد بونا پارٹسٹ رویہ اختیار کرتی ہے (یعنی خود طبقات سے ماورا ہونے کی کوشش میں،متحارب طبقات میں صلح کروانے کو کوشش)۔ رہنما کا کردار اس تحریک میں اہم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اس تحریک کی تعمیر میں نمایا ں ہوتا ہے بلکہ اس تحریک کی مسلسل مقبولیت اور اسے متحد رکھنے میں بھی اس کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پاپولزم کی سماجی بنیاد شہری درمیانے طبقے اور محنت کش طبقے میں ہوتی ہے۔نظریاتی طور پر پاپولزم قوم پرست ہوتی ہے، بیک وقت سامراج دشمن بھی،کیمونسٹ دشمن بھی۔

لاطینی امریکہ سے ہی تعلق رکھنے والے کارلوس ولاس(Carlos Vilas) کے مطابق، پاپولزم ارتکاز سرمائے کی ایک حکمت عملی ہے۔۔۔جس میں فی فرد کے حساب سے خرچ میں اضافے اور دولت کی کسی حد تک تقسیم کی بات کی جاتی ہے۔ ولاس کے مطابق،یہ ایک مخصوص عہد میں بورژوازی کے ایک مخصوص حصے کی حکمت عملی ہے۔

اس مارکسی تصور کی روشنی میں دیکھا جائے caudillo والے عنصر کے علاوہ پاپولزم اور تحریک انصاف میں کوئی بھی مماثلت دکھائی نہ دے گی۔ معاشی میدان میں تحریک انصاف دولت کی تقسیم کی بجائے، خیرات پر یقین رکھنے والی شدید نئیو لبرل جماعت ہے۔ یہ کسی تنظیم کا نام نہیں بلکہ ایک ہجوم ہے جو عمران خان کے گرد جمع ہے۔ سامراج دشمنی کی بجائے تحریک انصاف آئی ایم ایف،ورلڈ بنک اور دیگر سامراجی اداروں کی غلامی میں فرمابرداری سے چلنا چاہتی ہے۔ نظریاتی لحاظ سے یہ ایک رجعتی جماعت ہے جو بات بات پر مذہب کا سہارا لیتی ہے۔ قوم پرستی کی بجائے مغرب دشمنی پر زیادہ زور ہے۔ اسے کیمونزم سے کوئی خاص دشمنی اس لئے نہیں کہ ملک میں اس وقت کوئی بڑی کیمونسٹ تحریک موجود نہیں لیکن تحریک انصاف کھل کر ہر قسم کے سوشلسٹ اقدامات کی مخالفت کرتی ہے۔نہ ہی یہ ملٹی کلاس پارٹی ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد،کسی قسم کا بونا پارٹ ازم دکھائی نہیں دیا۔

تحریک انصاف کو ہم ایک پاپولر اتھاریٹیرین (popular authoritarian)جماعت قرار دے سکتے ہیں۔ پاپولر اتھاریٹیرین ازم کیا ہے؟ یہ تصور راقم پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وضاحت ان صفحات پر آنے والے دنوں میں کی جائے گی۔

حوالہ جات

Batool, F. (2023). Populism in Pakistan: The Exclusionary-Inclusionary Divide in the Politics of Zulfiqar Ali Bhutto and Imran Khan. South Asia: Journal of South Asian Studies, 46(2), 265–282. https://doi.org/10.1080/00856401.2023.2181535

Faiz, A. (2022). We Are on the Same Page: The Curious Case of Imran Khan’s Populism in Pakistan. In: Dieckhoff, A., Jaffrelot, C., Massicard, E. (eds) Contemporary Populists in Power. The Sciences Po Series in International Relations and Political Economy. Palgrave Macmillan, Cham. https://doi.org/10.1007/978-3-030-84079-2_4.

Foster, J B (2017)‘This is not populism.’Monthly Review. Accessed on 03.08.2024: Monthly Review | This Is Not Populism.

Hussain, Z (2022)‘Populism vs the establishment’. Dawn. Sept 21. Accessed on 03.08.2024: Populism vs the establishment – Newspaper – DAWN.COM.

Laclau, E (1977) Politics and Ideology in Marxist Theory. London: New Left Book.Laclau, E and Mouffe, C (2014) Hegemony and Socialist Strategy, 2nd edition. London: Verso.

Lowy, M (1987)‘Populism, neoliberalism and class independence’. In Notebook for Study and Research (book series) Populism in Latin America. Amsterdam: International Institute for Research and Education (IIRE).

Mouffe, Chantal, 2019, For a Left Populism (Verso).

Paracha, Nadeem F (2020)‘Is Imran Khan a populist?’. Dawn. June 14. Accessed on 03.08.2024: SMOKERS’CORNER: IS IMRAN KHAN A POPULIST? – Newspaper – DAWN.COM.Parkin, B and Bokhari, F (2023)‘The populist vs the general: Imran Khan takes on Pakistan’s military.’Financial Times. May 18. Accessed on 03.08.2024: The populist vs the general: Imran Khan takes on Pakistan’s military (ft.com).

Paracha, Nadeem F (2020)‘Is Imran Khan a populist?’. Dawn. June 14. Accessed on 03.08.2024: SMOKERS’CORNER: IS IMRAN KHAN A POPULIST? – Newspaper – DAWN.COM.Parkin, B and Bokhari, F (2023)‘The populist vs the general: Imran Khan takes on Pakistan’s military.’Financial Times. May 18. Accessed on 03.08.2024: The populist vs the general: Imran Khan takes on Pakistan’s military (ft.com).

Vilas, C (1987)‘Populism as a strategy for accumulation: Latin America’. In Notebook for Study and Research (book series) Populism in Latin America. Amsterdam: International Institute for Research and Education (IIRE).

Yaqin, A., Zaidi, S. A., Siddiqa, A., and Sajjad Akhtar, A. (2024).“Critical Forum: Populism, Hybrid Democracy, and Youth Cultures”. Critical Pakistan Studies. https://doi.org/10.1017/cps.2024.1.Yilmaz, Ihsan & Shakil, Kainat. (2021).“Imran Khan: From Cricket Batsman to Populist Captain Tabdeli of Pakistan.”ECPS Leader Profiles. European Center for Populism Studies (ECPS). February 10, 2021. https://doi.org/10.55271/lp0006

Yilmaz, Ihsan & Saleem, Raja M. Ali. (2021).“A Quest for Identity: The Case of Religious Populism in Pakistan.” Populism & Politics. European Center for Populism Studies (ECPS). https://doi.org/10.55271/pp0007

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔