حارث قدیر
ایک بلوچ سکالر کا کہنا ہے کہ ’’مسلح کارروائیوں میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے حوالے سے ان متضاد دعوؤں میں میرے خیال میں سچ کہیں درمیان میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں پنجابی اور عام لوگ مارے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی تردید کرنا ایک بددیانتی ہوگی۔ تاہم پھر سارے مرنے والے لوگوں کو عام لوگ قرار دے کر اس کو بطور ایک بیانیہ فروغ دینا بھی شاید ایک درست بات نہیں ہے۔ جن کو یہ مسلح تنظیمیں اپنا دشمن تصور کرتی ہیں، وہ بھی ان کو دشمن تصور کرتے ہیں اور ایسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ دونوں طرف متضاد دعوے ہیں، لیکن دونوں طرف عام لوگ بھی مارے گئے ہیں۔۔۔۔بجائے اس کے کہ ہم اس معاملے میں پھنسے رہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاملے سے بچ سکتے ہیں، اگر ہاں تو پھر کیسے؟ میرے خیال میں بچا جا سکتا ہے۔ ایک پر امن، جمہوری، ترقی پسند اور عوام دوست ریاست کا قیام کیا بہت مشکل ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، دنیا میں لوگوں نے ایسا کیا ہوا ہے۔‘‘
سکیورٹی وجوہات کی بناء پر نام اور شناخت مخفی رکھتے ہوئے گزشتہ روز ‘جدوجہد’ نے ایک بلوچ سکالر کا ایک مختصر انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
بلوچ لبریشن آرمی کی حالیہ کارروائیوں کے بعد ریاست کا رد عمل کیا ہے، کوئی بڑا سکیورٹی آپریشن ممکن ہے؟
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے مختلف کونوں میں لمبے عرصے سے ریاستی عملداری چیلنج ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں طویل عرصہ سے ریاست اپنی قانونی حیثیت کھو چکی ہے۔ ایسے گروپ موجود ہیں جو اس قسم کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور عوام میں ان کی پذیرائی بھی کسی حد تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لمبے عرصے سے اس قسم کی کاروائیاں کرتے آئے ہیں۔ جہاں تک ریاست کے اس صورتحال میں کردار اور پالیسی کی بات ہے تو اس کو تھوڑا پیچھے سے دیکھنا پڑے گا۔ ابھی حالیہ کارروائیوں کو دیکھتے ہیں، جو 26اگست کو یا اس سے پہلے یہاں ہو رہی ہیں۔ یوں یہ نظر آئے گا کہ سکیورٹی آپریشن تو چل رہے ہیں۔ یہ ایک ملٹرائزڈ اور سکیوریٹائزڈ خطہ بن چکا ہے۔ اس کی ایک سیاسی حقیقت ہے اور ایک جغرافیائی حقیقت بھی ہے۔
آپ بلوچ خطے میں سفر کریں تو آپ کو ریاست کی شکل اس کے سکیورٹی آپریٹس کی صورت میں ہی نظر آئے گی۔ مختلف وردی یا بغیر وردی مسلح افراد یہاں ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جب بھی انہیں کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو، جسے وہ اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں تو پھر اس پر پوری توانائی خرچ کرتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل لڑائی ہے، جو وہاں پر موجود ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حال ہی میں جو موبلائزیشن کی ہے اس کے راستے میں ریاست نے روڑے اٹکائے ہیں۔ گوادر جلسہ کو ریاست نے کچلنے کا منصوبہ بنایا اور اس کیلئے ہر جائز و ناجائز حد عبور کی گئی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سکیورٹی آپریشن تو چل ہی رہے ہیں، بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں اب کتنی شدت آئے گی۔ یہ شدت اب نظر بھی آرہی ہے۔ سی ٹی ڈی کے سربراہ کے بیانات دیکھ لیں، وزیر اعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے بیانات اور عوامی اظہار بھی جارحانہ ہے۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ کچھ جگہوں پر انہوں نے ملٹری آپریشن شروع کئے ہوئے ہیں۔ کچھ روز پہلے کی خبر تھی کہ کیچ اور گوادر کے ضلعوں میں کچھ پہاڑی علاقوں میں آپریشن کئے گئے ہیں۔
بلوچستان میں جو سیاسی، جمہوری اور پرامن لوگ ہیں، جن میں طلبہ، وکلاء، سول سوسائٹی، اساتذہ، ماہی گیر وں اور خواتین کی انجمنیں شامل ہیں، اب اس واقعے کی آڑ میں ان جمہوری اور پر امن سیاسی گروپوں کو بھی زیربار کیا جا رہا ہے۔ اسے وہ دہشت گردی کا نام دیتے ہیں، یا مسلح کارروائی کرنے والوں کیساتھ ان لوگوں کو بھی شامل قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ہی چیز ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایک ذمہ دار نے کہا کہ سی ٹی ڈی والے فون کر کے ان کے لوگوں کو دفتروں بلا رہے ہیں اور انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ اس واقعے کو بہانہ بنا کر تمام لوگوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ اس سب کے نتائج اچھے تو نہیں نکلیں گے، لیکن یہ ہو رہا ہے۔
یہی سب کچھ آپ کو ڈیجیٹل سپیس میں بھی نظر آئے گا۔ بڑی تعداد میں ایسے اکاؤنٹس موجود ہیں، جو لوگوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ ایک بیانیہ فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک بڑی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ بلوچستان سے کسی بھی قسم کی سیاسی یا عوامی قوت کو کریمنلائز کیا جائے اور اس کو مسلسل دباؤ میں رکھا جائے۔ یہ ایک طرح سے تاریخ کا تسلسل ہے لیکن اب انہیں لگ رہا ہے کہ رد عمل میں شدت آئی ہے تو اسی طرح سے وہ اپنا سکوپ لیول بھی بڑھا رہے ہیں۔ سکیورٹی اداروں اور ان سے منسلک اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کی کوششوں سے سب کو ہی دہشت گردی کا لقب دے کر کچلنے کا پروگرام نظر آرہا ہے۔
بلوچستان میں مسلح مزاحمت کی تاریخ پر روشنی ڈالیں اور بی ایل اے کی نظریاتی بنیادیں کیا ہیں ؟
مسلح تنظیموں کی اندرونی حرکیات کے بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ شیڈوز میں اور انڈر گراؤنڈ آپریٹ کرتے ہیں۔ تاہم آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) کا بنیادی ایجنڈا بلوچ نیشنل ازم ہے، ان کا نعرہ بھی نیشنل لبریشن ہے۔ اسی پروگرام کے گرد ہی وہ ریکروٹمنٹ کرتے ہیں اور کارروائیوں کا جواز بھی کلونیل ازم کو ہی قرار دیتے ہیں۔ ان کی تمام موبلائزیشن نیشنل لبریشن کی بنیاد پر ہی ہے۔ اس کے اپنے بھی دو بڑے گروپ ہیں۔ 2000یا اس سے پہلے جب یہ تنظیم بنی تھی تو تب ایک وحدت کے طور پر آپریٹ کررہی تھی، لیکن اب یہ معاملہ نہیں ہے۔ مختلف تقسیمیں ہیں، ان کی کچھ بنیادیں آپریشنل بھی ہیں اور کچھ سیاسی کشمکش بھی ہے۔ تاہم نظریاتی اساس اگر دیکھی جائے تو ان کے خیال میں وہ نیشنل لبریشن کا پروگرام آگے بڑھا رہے ہیں اور اس کا راستہ عسکریت ہے، کیونکہ پاکستان کے طاقت کے ڈھانچوں کا جواب ایک مسلح تنظیم ہی دے سکتی ہے۔ ان کی توجیہ یہی ہے کہ سیاست کے دوسرے راستے بند ہو چکے ہیں۔ یہ وہ نظریاتی فاؤنڈیشن ہے، جس پر یہ اپنی تنظیم چلاتے ہیں۔ ایک زمانے میں انکا مشہور نعرہ ‘بلوچ وطن پر بلوچ راج’ ہوتا تھا، اسی طرح کے دیگر نعرے بھی ان کے مقبول نعروں میں شامل ہیں۔ یہ ان کی اساس کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ لوگ بائیں بازو کے نظریات سے بھی متاثر رہے ہیں۔ 70اور80کی دہائی میں بہت سے لوگ افریقہ ، ویتنام، کشمیر، فلسطین کی قومی آزادی کی تحریکوں سے متاثر تھے ۔ تاہم اب ان کے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ میں کمی آئی ہے۔ بین الاقوامی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے بھی نظریاتی اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔
کیا بی ایل اے وہ حالیہ آپریشن کی طرز پر مستقبل میں کوئی بڑے آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
میرے خیال میں بی ایل اے مستقبل میں بھی بڑے آپریشن کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک بات ریاست نہیں سمجھ رہی کہ ریاستی جبر، تشدد اور وائلنس نے ایک ایسی نسل تیار کی ہوئی ہے، جواسی تشدد میں پروان چڑھی ہے اور اس سے تنگ ہے۔ اس لئے میرے خیال میں ان کے پاس ہیومن ریسورس کی کمی نہیں ہے۔ بلوچستان میں جتنی بھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان میں بی ایل اے مشہور ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ایسے کمپلیکس آپریشن کئے ہیں اور بار بار دہرایا ہے کہ جنگ میں شدت لانی پڑے گی۔ انہوں نے ایک منصوبہ بند تشدد کو منظم کرنے کا نیا طریقہ متعارف کروایا ہے، جس نے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں متاثر کیا ہے۔ اس سب کے اچھے یا برے ہونے کی وضاحت نہیں کی جا سکتی، دونوں اطراف شاہد ہزاروں دلیلیں ہونگی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ ریاستی پالیسیوں سے تنگ ہیں وہ اس طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ ان کی آپریشن کی صلاحیتیں، حملہ کرنے کی صلاحیتیں، امریکہ کے نکلنے کے بعد خطے میں آنے والے جدید ہتھیار، ہیومن ریسورس ، ایک خواہش یا جذبے کا موجود ہونااور ایک پروگرام کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان میں صلاحیت ہے۔
میرے خیال میں خاص طور پر براہ راست ریاستی جبر کا شکار لوگوں میں ان کی قبولیت بھی ہے۔ یہاں ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے۔ بے تحاشہ لوگ ہیں، جن کے گھروں سے لوگ غائب ہیں، جو روز مرہ ریاستی جبر کا تجربہ کرتے ہیں۔ بیروزگاری، غربت اور پسماندگی بھی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ مختصراً یہی ہے کہ وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں اور اس صلاحیت کو قائم رکھنے میں ریاستی جبر کا بہت بڑا کردار ہے۔
مسلح کارروائیوں میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے واقعات پر ریاست اور بی ایل اے کے متضاد دعوے ہوتے ہیں۔ حالیہ کارروائیوں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مزدوروں کے قتل میں کس حد تک صداقت ہے اور ایسا کیوں کر کیا جاتا ہے؟
مسلح کارروائیوں میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے حوالے سے ان متضاد دعوؤں میں میرے خیال میں سچ کہیں درمیان میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں پنجابی اور عام لوگ مارے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی تردید کرنا ایک بددیانتی ہوگی۔ تاہم پھر سارے مرنے والے لوگوں کو عام لوگ قرار دے کر اس کو بطور ایک بیانیہ فروغ دینا بھی شاید ایک درست بات نہیں ہے۔ جن کو یہ مسلح تنظیمیں اپنا دشمن تصور کرتی ہیں، وہ بھی ان کو دشمن تصور کرتے ہیں اور ایسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ دونوں طرف متضاد دعوے ہیں، لیکن دونوں طرف عام لوگ بھی مارے گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کسی بھی عام انسان کا قتل درست نہیں ہے۔ ان میں سرائیکی لوگوں کی بڑی تعداد ہے، جو حالیہ واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قتل کئے گئے ہیں۔ میرے خیال میں ادھر بھی ہم کسی ایک فریق کے بیان کو مکمل رد یا تسلیم نہیں کر سکتے۔ جب اس طرح کے پرتشدد ایکشن ہوتے ہیں، جن میں لوگ مارے جاتے ہیں تو ان کو اس واقعے کے ہی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ معلومات بھی لینے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عام لوگ نہیں مارے گئے، یہ غلط ہے، عام لوگ مارے گئے ہیں۔ بلوچستان میں رہنے والوں کو یہ معلوم ہے کہ عام لوگ مارے جاتے ہیں اور یہ دونوں طرف سے مارے جاتے ہیں۔ عام بلوچ بھی مارے جاتے ہیں، عام پشتون بھی، سندھی بھی مارے گئے ہیں۔ یہ ایک تنازع کی فضا ہے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مارے جانے والے سارے مزدور ہی ہیں تو شاید یہ بھی پورا سچ نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ ایک بہت ہی المناک بات ہے، جس کا کوئی جواب یا توجیہ نہیں ہو سکتی، لیکن اسی طرح جنگ اور قبضے کی بھی کوئی توجیہ نہیں ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم اس معاملے میں پھنسے رہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس معاملے سے بچ سکتے ہیں، اگر ہاں تو پھر کیسے؟ میرے خیال میں بچا جا سکتا ہے۔ ایک پر امن، جمہوری، ترقی پسند اور عوام دوست ریاست کا قیام کیا بہت مشکل ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، دنیا میں لوگوں نے ایسا کیا ہوا ہے۔
ایک مسلح تنظیم کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک گوریلا گروپ جو کسی وقت اپنے ٹھکانوں سے نکل کر شہری علاقوں میں یا ہائی وے پر آتا ہے، جہاں اسے کوئی کارروائی کرنی ہوتی ہے تو اس کی زد میں لوگ آجاتے ہیں۔ پھر بلوچستان میں مجموعی طور پر شک کی ایک بڑی فضا موجود ہے، اس کی زد میں بھی عام لوگ آجاتے ہیں۔ باربر یا اس طرح کے دیگر پیشہ ور لوگوں کو جاسوس قرار دے دیا جاتا ہے، یا کوئی بھی ایسا شخص جو علاقے میں پہلے نہ دیکھا گیا ہو، یا اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہو تو ایسے لوگ ہائی رسک پر رہتے ہیں۔ اسی طرح ایسے لوگ سافٹ ٹارگٹ بھی ہوتے ہیں۔ ان کارروائیوں کی نیچر کا بھی ایشو ہے، کئی مرتبہ بدلے وغیرہ کا بھی معاملہ ہو سکتا ہے۔ اس بنیاد پر بھی یہ سب ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی بے شمار توجیہات ہیں۔ تاہم جیسے میں نے پہلے کہا کہ بحیثیت ترقی پسند ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اسے روک کیسے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں تنازعے کی صورتحال کو بند کرنے کیلئے ریاست کو دباؤ میں لایا جانا چاہیے تاکہ وہ یہ سب بند کرے۔
مسلح کارروائیوں سے گزشتہ چند ماہ سے چلنے والی پرامن عوامی تحریک پر کس طرح کے اثرات پڑیں گے؟
اس کا کوئی سیدھا جواب تو نہیں ہے۔ دو تین پہلو نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ پرامن تحریک کی مقبولیت پاکستان کے دیگر حلقوں، بالخصوص شہری حلقوں اور پنجاب میں بھی تھی اور جو پذیرائی وہاں مل رہی تھی، اس پر منفی اثر پڑا ہے۔ ملک بھر میں جبری گمشدگیوں سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے عوامی تحریک کو مقبولیت حاصل ہو رہی تھی۔ پاکستان کی مجموعی معاشی، سیاسی صورتحال کافی گھمبیر ہو چکی ہے۔ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ بلوچستان، خیبر پختونخوا، وزیرستان اور کراچی تک محدود تھا لیکن اب یہ شہری علاقوں میں بھی ہے۔ اس کی شدت شاید وہاں اتنی نہیں ہے، لیکن بہر حال ایک خوف کی فضا تو موجود ہے، جسے عوامی تحریک نے چیلنج کیا۔ یہ تحریک ریاست کو یہ باور کروانے پر بھی مجبور کر رہی تھی کہ جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کریں اور جبر کا ماحول ختم کریں۔ تاہم 26اگست کی کارروائی میں عام لوگوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے اس پر ایک اثر پڑاہے۔ یہ درست ہے کہ اس کو تھوڑا پروپیگنڈہ کیلئے بھی استعمال کیا گیا لیکن اس کی اپنی حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرا یہ کہ ایک طرف عوامی تحریک کے ساتھ نوجوان جڑ رہے ہیں۔ اگر ریاست اس پر کریک ڈاؤن کرتی ہے ، تو بلوچستان میں ہمیشہ یہی رہا ہے اور بلوچستان میں مسلح تنظیموں کے قیام کے پیچھے بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ملک میں جمہوریت کا فقدان ہے۔ پرامن سیاسی موبلائزیشن، پارلیمانی سیاست اور طلبہ سیاست پر پابندیاں، قدغنیں، سازشیں ،لوٹ کھسوٹ اورمقامی لوگوں کے حق حاکمیت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی ہی مسلح مزاحمت کی وجہ بنی ہے۔ پہلے دن سے ہی لوگوں کو یہ سب کرنے کا شوق نہیں تھا۔ اس لئے جب یہ کریک ڈاؤن کرینگے، جو کر بھی رہے ہیں، تو خدشہ یہ بھی ہے کہ جو نوجوان جمہوری تحریک کے ذریعے اپنی آواز اٹھا رہے تھے وہ اس سے بد دل ہونگے۔ وہ جب پر امن جدوجہد میں آگے کا راستہ نہیں دیکھیں گے ، انہیں سطح کے اوپر اپنی جگہ نظر نہیں آئے گی تو وہ مسلح تنظیموں کی طرف راغب ہونگے۔
تیسرا یہ کہ اس کو جواز بنا کر ریاست عوامی تحریک کو بھی کریمنلائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ دہشت گردی کے سہولت کار ہیں۔ اسی طرح پھر ڈیجیٹل دہشت گرد اور اس طرح کی نئی اصطلاحات بھی استعمال ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں یہ سب بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے گا تاکہ عوامی تحریک پر دباؤ لایا جائے۔ ایسے ہی عوامی تحریک کے رہنما بھی اگر بصیرت سے کام لیں تو وہ ریاستی جبر کو مزید عوامی موبلائزیشن کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔
بلوچستان میں کتنی مسلح تنظیمیں سرگرم ہیں اور ان کی نظریاتی وابستگیوں اور قوتوں کی صورتحال کیا ہے؟
بلوچستان میں بلوچ قوم پرستی کے گرد مسلح تنظیمیں کافی ہیں اور پھر ان کے دھڑے بھی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) ہے، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) ہے۔ بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے)،جوبگٹی علاقوں میں سرگرم ہے۔ یونائیٹڈ بلوچ آرمی (بی یو اے)، جومرکز اور نارتھ ایسٹ میں آپریٹ کرتی ہے۔ کبھی کبھی ان کا الائنس بھی بن جاتا ہے اور کچھ کارروائیاں یہ الائنس کے تحت بھی کرتے ہیں۔ براس، جس کے لفظی معنی بھائی کے ہیں، کے نام سے بھی ایک الائنس بنایا گیا ہے۔ وہ الگ تنظیم تو نہیں ہے، لیکن کبھی ان کے آپریشنل الائنس ہو جاتے ہیں، تو یہ اس نام سے بھی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور پروپیگیٹ کرتے ہیں۔ عددی قوتوں کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن میرے خیال میں کل ملا کر چار یا پانچ ہزار لوگ ہونگے۔ سرگرم گوریلاز تین سے پانچ ہزار کے درمیان ہونگے۔ تاہم یہ محض ایک اندازہ ہے۔ میرے خیال میں گوریلا جنگوں میں عددی قوت سے زیادہ کسی عسکری قوت کا سیاسی اثر اور اس کی سٹریٹیجک نیچر اہم ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں مسلح تنظیموں کی قوت اور ہیومن ریسورس میں اضافہ ہوا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ذمہ دار وہ حالات ہیں، جن کے تحت بلوچستان کو چلایا جا رہا ہے۔
نظریاتی وابستگیوں کے بارے میں اگربات کی جائے تو میرے خیال میں سبھی تنظیموں کی بنیادی اساس بلوچ نیشنل ازم ہی ہے۔ نیشنل لبریشن ان کا بنیادی مقصد یا سیاسی گول ہے، جو بیان کیا جاتا ہے۔ بی ایل ایف تھوڑا سا میری نظر میں لیفٹ کا رجحان بھی رکھتی ہے، یا کم از کم ان کے بیانات وغیرہ میں کبھی کبھی اس چیز کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں کی بات کرتے ہیں اور پرانے اور قبائل ڈھانچوں کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔ کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں، جن کا جھکاؤ اور بنیاد ٹرائبل لائنز اور قبائلی مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں، جیسے بی آر اے ہے اور ایک آدھ اور چھوٹی تنظیم ہے۔
مسلح مزاحمت کیلئے مالی وسائل کیسے جمع کئے جاتے ہیں؟ سرحدی سمگلنگ میں مسلح تنظیموں کا بھی کوئی ہاتھ ہے یا پھر یہ ریاست اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کے ذریعے ہوتی ہے؟
مسلح تنظیموں کے اندرونی معاملات تک رسائی کافی مشکل اور تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے لیے علیحدہ ریسرچ کی ضرور ت ہے، جو میری نہیں ہے۔ تاہم عمومی طور پر کچھ حوالے دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ جو کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانیں (مائنز) ہیں وہاں سے شاید کچھ رینٹ، ٹیکس یا بھتہ جو بھی آپ کہہ لیں، بہر حال ایک رقم شاید ماضی میں ان تنظیموں کو جاتی رہی ہے۔ شروع میں تو عوامی چندہ بھی کسی نہ کسی صورت ملتا تھا۔ مستقبل کا تو پتہ نہیں کہ کیا شکل اختیار کرے گا، تاہم ابھی تک یہ زیادہ عوامی حمایت پر ہی انحصار کرتی آئی ہیں۔ کہیں کسی نے کھانا کھلا دیا، کسی نے جوتے فراہم کئے، یا کوئی قیمتی چیز فراہم کردی۔ روایتی طور پر تو یہی ذرائع رہے ہیں، لیکن اب ان کی تنظیمی صلاحیت بھی بڑھی ہے اور لوگوں کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ اب میرے خیال میں مالی وسائل کی ضرورت بھی بڑھے گی ۔
جہاں تک سرحدی سمگلنگ کی بات ہے،تو زیادہ تر اس سب میں ریاست کا کردار ہی مرکزی رہا ہے۔ ان کی اتھارٹی کو چیلنجز ہیں، لیکن بڑا کردار ریاست کا ہی ہے۔ سمگلنگ کے نیٹ ورک اور جس طرح یہ منظم ہے، کہیں کسی کونے میں شاید کسی مسلح تنظیم کے پاس اتنی صلاحیت ہو کہ وہ کچھ مالی وسائل وہاں سے حاصل کر رہی ہو، لیکن مجموعی طور پر یہ ساری سمگلنگ ریاستی عملداری کے تحت ہی ہو رہی ہے۔ اسے ٹوکن سسٹم کہتے ہیں، جہاں ٹریڈرز یا سمگلرز کو پرمٹ دیے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ چھوٹے تاجر یا مزدور ہی زیادہ ہیں۔ ایرانی سرحد کے ساتھ تیل کا کاروبار ہے ، یا اشیائے خورونوش کا کاروبار ہے۔ افغانستان کے ساتھ متصل سرحد کے ساتھ بھی کاسمیٹکس، کپڑا، الیکٹرانکس وغیرہ کی سمگلنگ ہوتی ہے، وہاں بھی عملدراری ریاست کی ہی زیادہ ہے۔
بلوچستان میں انتخابات کے ذریعے سامنے آنے والی قیادتوں کی عوام میں پذیرائی کس حد تک ہے اور صوبائی حکومت کوئی مسئلہ حل کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے؟
بلوچستان میں حالیہ انتخابات بھی بہت زیادہ متنازع ہیں۔ کئی ایسی نشستیں ہیں، جہاں پر یہ الزام ہے کہ باقاعدہ بولیاں لگی ہیں۔ ڈیپ اسٹیٹ بھی وہاں ملوث تھی اور مقامی نمائندوں نے بھی باقاعدہ خریدوفروخت کی ہے۔ یہ بات آپ کو بلوچستان کے سیاستدانوں کے ذریعے بھی سننے کو ملے گی کہ باقاعدہ خریدو فروخت کے معاملات چلتے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ20سال سے انتخابات مشکل، چیلنجنگ اور متنازع ہی رہے ہیں۔ مسلح تنظیموں کی طرف سے بائیکاٹ مہم بھی چلائی جاتی ہے۔ اس بار بھی کافی شدید ہنگامہ رہا ۔ کچھ جگہوں پر عوامی دباؤ کی وجہ سے دھاندلی کرنا ممکن نہیں تھا۔ بہت سی ایسی نشستیں ہیں، جن کے نتائج کے بارے میں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسے آئے ہیں۔ایسے لوگ کامیاب قرار دیئے گئے ہیں، جنہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ انتخابات کی صحت پر کافی سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔ ایسے حالات پھر ان مسائل کو مزید پیچیدہ کرتے ہیں، جو بلوچستان میں پہلے سے موجود ہیں۔
اسی طرح انوارالحق کاکڑ، سرفراز بگٹی، جمال رئیسانی، علی مدد جتک جیسے کردار یا اس طرح کے لوگ جن کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، وہ بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ ایک پوری سیاسی قیادت کی مخصوص کیٹیگری ہے، جسے لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ ان کے پاس نہ اہلیت ہے اور نہ ہی مینڈیٹ ہے۔ جب مینڈیٹ نہیں ہوگا تو پھر وہ وفاق میں، وفاقی اداروں یا محکموں میں اپنے لوگوں کا مقدمہ کیسے لڑیں گے۔ یہ ظاہر ہے انہی کے پے رول پر ہیں، انہی کے لائے ہوئے لوگ ہیں اور ان ہی کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں گے۔ ان میں نہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ وہ اس مقام پر ہیں، جہاں سے وہ عوامی روابط بڑھا سکیں اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر سکیں۔ ان جیسے لوگوں کا مسائل حل کرنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک مخصوص پیراسائیٹک نیچر کا طبقہ ہے، جو اپنی دولت میں اضافہ کرنے اور مقامی سکور سیٹلنگ کرنے کی کوشش میں ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا راگ الاپنا، طلبہ پر کریک ڈاؤن کرنا، سیاسی تحریکوں پر کریک ڈاؤن کرنا اور اس طرح کے دیگر اقدامات کر کے یہ ایسے مسائل پیدا کریں گے کہ ان کی اہمیت بنی رہے۔
بلوچ نوجوانوں کو قومی اور طبقاتی محرومیوں سے نجات کیلئے کن خطوط پر آگے بڑھنا ہوگا؟ کیا مسلح مزاحمت کے ذریعے آزادی اور بہتر سماج کے قیام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے؟
میرے خیال میں اس خطے میں قومی سوال چاہے بلوچستان میں ہو، جموں کشمیر میں ہو، پشتون قومی سوال ہو، افغانستان میں خودمختاری کا سوال ہو، سرائیکی، سندھی یا مہاجر سوال ہو،وہ سنگین صورت میں موجود ہے۔ اسی طرح مرکزی پاکستان میں جو پسے ہوئے طبقات ہیں، پنجاب میں بھی بڑی گہری طبقاتی تفریق موجود ہے۔ ایک مقامی اشرافیہ ہے جو ہر طرح کے جبر میں ملوث ہے۔ مذہبی اقلیتوں پر جبر ہے، مذہب کی آڑ لے کر لوگوں پر جبر ہو رہا ہے، ذات پات کے نام پر لوگوں کو دبانا اور اپنے سیاسی مخالفین کو بذریعہ جبر کچلنا عام ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں، جو پاکستانی ریاست اور سماج میں ہر طرف پھیلی ہیں، بس ان کی شدت میں فرق ہے۔ بلوچستان اور دیگر نواحی علاقوں میں یہ شدید ہے، مرکز میں تھوڑا کم ہے۔
تاہم آپ کو متبادل کافی نظر آئیں گے۔ اگر نوجوان آپس میں جڑیں گے تو میرے خیال میں لوگ آپس میں جڑ کر ان محرومیوں سے نجات پا سکتے ہیں۔ یہی مجھے ایک واحد راستہ نظر آتا ہے، جس سے آگے جایا جا سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے اور اس کے کافی امکانات موجود ہیں۔
ایک بہتر معاشرے کیلئے میرے خیال میں لوگوں کا آپس میں جڑنا، جمہوری رائے کا تبادلہ کرنا اور اس عمل سے ایک دوسرے کے بارے میں سیکھنا ضروری ہے۔ میرے خیال میں ایک دوسرے کے بارے میں کچھ مغالطے بھی ہیں۔ ان مغالطوں کو دور کرنا اور ایک دوسرے کی سماجی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور رابطے بڑھانا وہ چیزیں ہیں، جن کے ذریعے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور نجات کی صورت بھی نکل سکتی ہے۔ ظاہر ہے اس کیلئے ایک جمہوری فضا کا ہونا ضروری ہے، جو اس وقت نہیں ہے۔
بلوچ مسلح مزاحمت اور بی ایل اے کی کارروائیوں کے حوالے سے دیگر صوبوں میں کام کرنے والے بائیں بازو کے کارکنوں کا موقف کیا ہو نا چاہیے؟
بائیں بازو کے دوستوں کو بلوچستان سمیت دیگر محکوم قوموں گلگت بلتستان اور جموں کشمیر تک کے معاملات میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔ یہی کام میرے خیال میں بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو بھی کرنا چاہیے۔ جڑأت پیدا کریں، قریب آئیں اور ایک دوسرے کو سمجھیں۔ سندھ اور پنجاب میں بھی ایسے حلقے ہیں جو ترقی پسند ہیں اور قومی سوال اور طبقاتی جبر کے بارے میں کافی حد تک درست موقف رکھتے ہیں۔ اسی طرح اور بہت سے مسائل ہیں، ماحولیات کا مسئلہ ہے، عورت کا سوال ہے، روزگار کا سوال ہے، آئی ایم ایف کے قرضوں کا مسئلہ ہے، یہ ساری چیزیں بحث کی متقاضی ہیں ۔
ابھی بھی ہم نے بائیں بازو کے لوگوں کے دو طرح کے موقف دیکھے ہیں۔ ایک حلقہ جس سے ہمیں زیادہ امیدیں تھیں کہ وہ بہتر بات کریں گے، لیکن ان کی طرف سے کچھ باتیں کافی مایوس کن تھیں۔ جیسے اس معاملے کو جیو پالیٹکس کے ساتھ جوڑنا اور تمام بلوچ مسئلے کو جیوپولیٹیکل سازش کے ساتھ جوڑنا۔ یہ بہت عجیب و غریب بات تھی اور نہ سمجھ میں آنے والی بات بھی ہے۔اسی طرح یہ قرار دینا کہ وہاں دہشت گردی ہے اور اس کو کچلنا چاہیے۔ عام لوگوں کے قتل عام کی مذمت کرنا درست ہے، ہم بھی کرتے ہیں۔ بلوچستان میں بہت لوگ ملیں گے جو خطرات کے باوجود اس کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔اس ماحول میں تمام بلوچ مسئلے کو کسی جیو پولی ٹیکل سازش کے ساتھ منسلک کرنا اور باقاعدہ جارحیت کی فضا بنانا اور اس کی حمایت کرنا ، میرے خیال میں بلوچستان میں ہونے والے جبر کو عوامی سطح پر قانونی حیثیت دینے کے برابر ہے اور یہ کسی صورت درست نہیں ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگ بھی کافی ہیں، جنہوں نے حقیقت پسندانہ پوزیشن لی اور مسئلے کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھا۔ میرے خیال میں بائیں بازو کے فلسفے کا بنیادی سبق بھی یہی ہے کہ آپ کسی بھی معاملے کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھیں۔ اس کو سمجھنے اور دیکھنے کی کوشش کریں۔ اس وقت اگر کوئی موقف اختیار کیا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ریاست جبر، تشدد اور گمشدہ کرنے کا سلسلہ ختم کرے، جارحیت کا خاتمہ ہو اور پاکستان کو ایک حقیقی کنفیڈریشن کے طور پر چلایا جائے۔ ایک جمہوری ملک کے طور پر اسے چلایا جائے اور یہ کم سے کم راستہ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی صورت نظر نہیں آتی، جس سے یہ معاملہ پرامن طریقے سے آگے بڑھ سکے۔