پاکستان

’بلوچ بہار‘ کی خواتین

 اکبر نوتزئی

27 جنوری 2024 کو کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا، جس میں مرد اور خواتین شامل تھے اور اکثریت نوجوان طالبعلموں کی تھی۔ حال ہی میں اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف منعقدہ ایک ماہ کے دھرنے سے واپس آنے والی ماہ رنگ نے کہا کہ یہ ’’تحریک نوکنڈی سے لے کر پاروم اور کوہ سلیمان سے مکران تک بلوچ عوام کی آواز تھی۔‘‘

بلوچستان میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے کئے گئے حالیہ دہشت گردانہ حملے میں تقریباً40افراد کی جان چلی گئی۔ اس طرح کے حملے سنگین تشدد کی وجہ سے میڈیا کی توجہ کا مرکز تو بنتے ہیں، لیکن وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تحریکوں کی ان کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، جنہوں نے پرامن اور آئینی طریقے سے بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیگانگی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

بڑی تعداد میں حاضرین پر مشتمل جنوری میں کوئٹہ میں ہونے والے اجتماعات اب بلوچ یکجہتی کمیٹی کیلئے معمول بن گئے ہیں۔ تاہم جو چیز اس تحریک کو منفرد بناتی ہے اور اسے کسی دوسرے گروپ سے منفرد بناتی ہے وہ خواتین کی شرکت ہے اور خاص طور پر بلوچ خواتین اس تحریک کا چہرہ ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی اتنی بڑی طاقت کیسے بن گئی؟ اس تحریک کی سربراہ خواتین کون ہیں؟ اور یہ کیسے ہے کہ ایک قدامت پسند اور اب بھی بڑے پیمانے پر پدر سری معاشرے میں مردان خواتین کی بات سننے کیلئے بڑی تعداد میں جمع ہو رہے ہیں؟

بلوچستان میں عدم اطمینان کی بنیادیں

بلوچستان میں طویل عرصے سے جاری سیاسی خلا کے نتیجے میں خوف کی فضا میں اضافہ ہوا ہے، جہاں ریاست اور بلوچ قوم پرست دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ بہت سے مین اسٹریم بلوچ قوم پرست ،جو پرامن طریقے سے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں ،ان کی رائے ہے کہ ان کی آواز کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں صوبے میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے متعدد نجی ملیشیاابھری ہیں، جنہیں مقامی طور پر ڈیتھ اسکواڈز کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ۔ایم) اور نیشنل پارٹی (این پی) کایہ دعویٰ ہے کہ وہ ریاست کے فریم ورک کے اندر رہ کر بلوچوں کے حقوق کیلئے لڑ رہے ہیں۔ تاہم انہیں بلوچ قوم پرستوں کی جانب انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود بلوچوں کیلئے ناکافی اقدامات کرنے کی وجہ سے تنقیدکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان حالات میں مایوس بلوچ قوم پرست اپنی شکایات کو غیر روایتی پلیٹ فارمز سے اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس امید پر کہ یہ کوشش طویل مدتی تبدیلی کا باعث بنے گی۔

مئی 2020 میں مبینہ طور پر مقامی ڈیتھ اسکواڈ سے وابستہ تین افراد تربت کے علاقے دانوک میں ایک گھر میں گھس گئے، جس کے نتیجے میں چار سالہ برمش بلوچ کی والدہ ہلاک ہو گئیں۔ اس واقعے نے ان جاری مظاہروں کو جنم دیا اوربلوچ یکجہتی کمیٹی کی کارکن سمیع دین بلوچ کے الفاظ میں تب ہی بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی وجود میں آئی تھی۔

تاہم نومبر2023میں بالاچ بلوچ کی ہلاکت نے ضلع کیج میں ایک وسیع تحریک کو جنم دیا۔ ان کی ہلاکت مبینہ طور پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی) کے ساتھ ایک ‘انکاؤنٹر’ میں ہوئی تھی۔ بالاچ کے اہل خانہ اور سول سوسائٹی کارکنوں نے الزام عائد کیا کہ بالاچ کو سی ٹی ڈی نے ایک ماہ قبل گرفتار کیا تھا اور انہیں مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جس نے انہیں 10دن کیلئے پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔ مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ماہ رنگ کی قیادت میں اسلام آباد دھرنے پر منتج ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ماہ رنگ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے قوم کی توجہ حاصل کی۔

کوئٹہ میں ایک بڑے پاور شو کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے رواں سال جولائی میں ‘بلوچ راجی مچی’(بلوچ قومی اجتماع) کے بینر تلے گوادر میں ایک اجتماع منعقد کیا، جس میں بلوچستان بھر سے سینکڑوں مظاہرین اور دیگر بلوچ اکثریتی علاقوں سے مظاہرین نے شرکت کی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ریاست نے پرامن مظاہرین کو گوادر جانے سے روکنے کے لیے ان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان بھر میں کئی مقامات پر بڑے اجتماع منعقد کیے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر محمد عارف کے مطابق‘بلوچستان کے لوگوں کی بے اطمینانی کو ہوا دینے والے تین عوامل ہیں، جن کی وجہ سے وہ احتجاج کرتے ہیں۔ اول تو بلوچستان کو مرکز نے شروع سے ہی نظر انداز کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان میں کرپشن،بالخصوص سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی ،ہے جو صوبے کی ترقی اور پیشرفت میں رکاوٹ ہے۔ تیسرا، خطے میں چینی مداخلت کے نتیجے میں یہ خطہ بین الاقوامی سیاست کے کھیل کا میدان بن گیا ہے۔’

پروفیسر عارف کا کہنا ہے کہ ‘لوگوں کا عدم اطمینان کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔بلوچستان میں مرکز میں زیادہ سیاسی شرکت نہیں ہے، جہاں ہماری نمائندگی صرف 6 فیصد ہے۔ حکومت صرف 10سے15 فیصد آبادی کو ملازمتیں فراہم کر سکتی ہے، جبکہ باقی کا انحصار نجی شعبہ پر ہے، جو بلوچستان میں سرے سے موجود نہیں ہے۔ ’

بلوچ خواتین کے بلوچستان کے قبائلی اور پدرانہ معاشرے میں سیاسی اور سماجی تبدیلی کا چہرہ بننے کے سوال پر پروفیسر عارف کا کہنا ہے کہ‘ یہ سماجی تبدیلی کی پیداوار ہے۔مثال کے طور پر جاپان بھی1870میں ایک قبائلی معاشرہ تھا، لیکن وہ ہم سے بہت پہلے سماجی تبدیلی کی دہلیزپر پہنچ گئے۔تبدیلی درحقیقت ایک سست عمل ہے اور بلوچستان کے تلخ سیاسی ماحول میں خاص طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے خواتین کا عروج راتوں رات نہیں ہوا ہے۔’

ماہ رنگ کا عروج

وہ بلوچستان کے ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئی، بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خون میں پہلے دن سے ہی سیاست چل رہی ہے۔ تاہم وہ اچانک اس وقت سرخیوں میں آئیں، جب انہوں نے اپنے والد غفار لانگو کے دسمبر2009میں کراچی کے ایک ہسپتال کے باہر سے لاپتہ ہونے کے بعد احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی۔

اس وقت وہ ابھی پرائمری اسکول کی طالبہ تھیں اور 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ ماہ رنگ بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کے طور پر اپنی سکول کی کتابوں کو جلا کر والد کی گھر واپسی کا مطالبہ کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اکثر لاپتہ ہونے والے بلوچ افراد کی ہی طرح ان کے والد کی بھی 2011میں مسخ شدہ لاش ملی۔

بلوچی، اردو اور انگریزی کے امتزاج میں بات کرتے ہوئے ماہ رنگ نے بتایا کہ ‘میرے والد میرے سیاسی استاد تھے۔ میں ان کی وجہ سے ہی اس وقت سیاست میں آئی، جب میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھی۔ ’

ماہ رنگ کی کہانی بہت سے دوسرے بلوچ گھرانوں کی طرح ایک بہت بڑا المیہ اور صدمہ ہے۔ 2000 میں بلوچستان میں پانچویں شورش شروع ہونے کے بعد سے تشدد نے اس خطے کو بغیر کسی وقفے کے نقصان پہنچایا ہے۔تاہم اس غیر مستحکم صوبے میں ماہ رنگ کی زندگی کا المیہ وہی ہے، جسے بلوچستان میں رہنے اور پلنے والے تمام لوگوں نے ہی محسوس کیا اور سمجھا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ماہ رنگ اپنے مظاہروں اور اجتماعات کی طرف دسیوں ہزار بلوچ مردوں اور عورتوں کو کھینچ رہی ہیں، کیونکہ وہ ان میں ایک ایسی طاقت دیکھتے ہیں جو ان کی دہائیوں کی شکایات کو آواز دے رہی ہے۔ چاہے وہ چاہیں یا نہ چاہیں، اب وہ ‘بلوچ بہار’ کا چہرہ بن چکی ہیں۔

ماہ رنگ کا کہنا ہے کہ ‘ہمارا حتمی مقصد بلوچستان میں بلوچ نسل کشی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور معاشی جبر کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ ہماری تنظیم بلوچوں کو درپیش مسائل کے انبار پر آواز بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم ان موضوعات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی بلوچ کمیونٹی کو بھی متحرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آب و ہوا، صحت، تعلیم اور اپنے حقوق کے تحفظ سے متعلق مسائل صرف چند ایسے مسائل ہیں ،جن کو حل کرنے کے لیے ریاست کو اقدامات کرنے چاہئیں۔’

2019 میں دیگر رپورٹرز اور صحافیوں کی طرح میں بھی یونیورسٹی آف بلوچستان کے جنسی ہراسانی کے اسکینڈل کو دیکھ رہا تھا۔ اس کہانی پر کام کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ میڈیکل کی ایک نوجوان طالبہ سریاب روڈ پر یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے مظاہرین سے بات کر رہی ہے، جن میں زیادہ تر مرد تھے۔

‘وہ کون ہے؟’ میں نے اپنے ایک پروفیسر دوست سے پوچھا۔ ‘وہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ ہے۔ بلوچ قوم پرست کامریڈ غفار لانگو کی بیٹی، جو کہ بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی قریبی بتائی جاتی ہے’، اس نے جواب دیا۔

واضح طور پر ماہ رنگ نے گہراتاثر چھوڑا اور اس کے بعد انہوں نے بڑے پیمانے پر حمایت بھی حاصل کی۔ اپنے سفر کی عکاسی کرتے ہوئے ماہ رنگ کہتی ہیں کہ ‘میں نے جلسوں ، احتجاجوں بشمول بلوچستان میں خواتین کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ میں 2017 میں اپنے والد اور پھر اپنے بھائی کے اغوا کے بعد، اور پھریونیورسٹی آف بلوچستان میں ویڈیو اسکینڈل کیس کے دوران میڈیا کی نظر میں آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب میں نے اپنے لوگوں کے لیے صحیح طریقے سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ تب سے میں بہت متحرک ہوں، کیونکہ میں جو کچھ کرتی ہوں وہ کرنا اور اپنے لوگوں کے خدشات کو ایک پلیٹ فارم دینا میری طرف سے ایک شعوری فیصلہ تھا۔’

یونیورسٹی آف بلوچستان ویڈیو اسکینڈل کے بعد سے ماہ رنگ کوئٹہ میں سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں، خاص طور پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم کے ذریعے، جسے ماما قدیر بلوچ نے قائم کیا تھا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما بننے کے بعد وہ اب بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کیلئے انصاف کے مطالبے کی تحریک میں سب سے آگے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کوئٹہ میں اور خاص کر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے شاید ہی کوئی ایسا احتجاج ہوا ہوجس میں مہرنگ نے شرکت نہ کی ہو۔

ماہ رنگ کے اساتذہ، دوستوں اور ساتھیوں سے بات کرنے کے بعد یہ واضح ہے کہ وہ سب ان کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ ان کی ایک ٹیچر نے بتایا کہ بلوچستان بھر میں بہت زیادہ ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت کے باوجود ان(ماہ رنگ) میں تکبر کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب وہ ماضی کے مقابلے میں اپنی تقریریں کرتے وقت زیادہ سمجھدار نظر آتی ہیں۔

تاہم ہر کوئی اتنا خوش بھی نہیں ہے۔ ماہ رنگ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی صحیح طریقے سے پرورش نہیں کی گئی ہے، جس کے لیے ضروری سیاسی عمل اور تربیت کی ضرورت ہے ،تاکہ وہ خود کو ایک حقیقی رہنما کے طور پر قائم کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جذباتی اپیلوں کا سہارا لیتی ہیں کیونکہ بلوچستان کی پیچیدہ سیاسی صورتحال کے بارے میں پوچھے جانے پر ان کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہوتا۔

دوسروں نے توماہ رنگ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی پر الزام لگایا ہے کہ مبینہ طور پر بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ‘بیرونی قوتوں’کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ماہ رنگ نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ ‘ہم اس قسم کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے ،جو انسانی حقوق کے مسائل پر کام کر رہی ہے، اور بلوچستان کے لوگ اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم کسی کے پراکسی نہیں ہیں، نہ ہی ہم کسی کے پراکسی رہے ہیں۔ بلوچ عوام ہمارا سہارا ہیں۔ ریاست پہلے دن سے پرامن سیاسی تحریکوں کو کچلنے کے لیے غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات کا استعمال کرتی آئی ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ریاست کو تشدد کا استعمال کرنے کی بجائے دانشمندی اور سیاسی طریقے سے بلوچستان کے مسائل سے نمٹنا چاہیے۔ تشدد صرف مسائل کو طول دیتا ہے اور بڑے نقصان کا باعث بنتا ہے۔’
تاہم ماہ رنگ ان بہت سی خواتین میں سے ایک ہیں، جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

صحافی بننے کی خواہش مند ’سمی‘

تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی سمی دین بلوچ ابھی نوعمر تھیں، جب 2009 میں ان کے والد ڈاکٹر دین محمد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی۔ آج 15 سال بعد بھی وہ لاپتہ ہیں۔ تب سے سمی نے اپنا زیادہ تر وقت کوئٹہ اور کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپوں میں گزارا ہے، اس امید کے ساتھ کہ ان کی جدوجہد کسی دیرپا تبدیلی کا باعث بنے گی۔

اس چھوٹی عمر میں بھی سمی نے پریس کلبوں کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کے کیمپوں میں صحافیوں سے ملنا شروع کر دیا۔ اکثر ان کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن مہلاب بلوچ بھی ہوتیں۔

ماہ رنگ کے والد کی طرح سمی کے والد اور چچا کا بھی سیاسی پس منظر تھا، اور سمی کا دعویٰ ہے کہ سیاسی سرگرمی کی وجہ سے ہی دین محمد غائب ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘میں ایک ایسے سیاسی ماحول میں پیدا ہوئی تھی، جس نے میری اور میرے خاندان کے دیگر افراد کی ابتدائی پرورش کی، لیکن بدقسمتی سے اس سے بڑھ کر میرے والد کی گمشدگی کے ارد گرد کے حالات نے میری سیاسی پرورش میں زیادہ کردار ادا کیا۔ 

ماہ رنگ کے بعد سمی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کا چہرہ سمجھا جاتا ہے اور اب انہوں نے اپنے ماسٹرز پروگرام کے حصے کے طور پر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(آئی بی اے)کے سنٹر فار ایکسیلنس ان جرنلزم(سی ای جے) میں داخلہ حاصل کر لیا ہے۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے صحافت کا میدان اختیار کرنے کا فیصلہ کیوں کیا، تو انکا کہنا تھا کہ ’2013کی بات ہے میں ایک خاتون صحافی مہوش احمد(جو ڈان اور ہیرالڈ کیلئے لکھتی تھیں) سے کراچی میں لاپتہ افراد کے کیمپ میں ملی۔ وہ بلوچ لاپتہ افراد کے بارے میں بہت زیادہ لکھتی تھیں۔ میں اس کی طرف متوجہ تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ‘کئی طریقوں سے کوئٹہ اور کراچی میں صحافیوں سے ملنا اور بات کرنا، اپنے والد کی رہائی کے لیے شور مچانا، دیگر لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملنا اور ان کے پیاروں کی کہانیاں سننا میرا معمول بن گیا تھا۔ میں نے 2013 میں فیصلہ کیا تھا کہ میں ایک دن صحافی بنوں گی اور اپنی ذاتی کہانی کے ساتھ بلوچ لاپتہ افراد کی کہانیاں بھی لکھوں گی۔’رواں سال سمی کو ڈبلن، آئرلینڈ میں باوقار فرنٹ لائن ڈیفینڈرز ایوارڈ 2024 سے نوازا گیا۔

سمی نے اپنے والد کی تلاش میں اپنا بچپن کھو دیا۔انہوں نے بتایا کیا کہ جو کچھ ایک نوجوان لڑکی کے طور پر اپنے والد کی گھر واپسی کا مطالبہ کرنے شروع ہوا تھا وہ اب تمام بلوچ لاپتہ افراد کی رہائی کی جدوجہد میں تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے بہت پہلے دوسرے بلوچ لاپتہ افراد کی تصویریں اکٹھی کرنا شروع کیں اور میں ایسا کرتی رہتی ہوں، کیونکہ میری جدوجہد اب صرف میرے والد کیلئے نہیں بلکہ اب ان سب کے لیے ہے۔‘

اپنے والد کے لاپتہ ہونے کے بعد سمی کو لوگوں سے، خاص طور پر عورتوں کی طرف سے، اس حقیقت کے بارے میں طعنے سننے کو ملتے تھے کہ وہ اکثر شہر سے باہر جایا کرتی تھیں، مردوں کے ساتھ میل جول کرتی تھیں، اور یہ کہ وہ اپنی پڑھائی میں کوتاہی کرتی تھیں، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے لیے فخر کا باعث یہ ہے کہ میری جدوجہد کے بارے میں لوگوں کااور خاص طور پر خواتین کا تاثر بدل گیا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ وہ اب ہماری کوششوں میں ہمارے ساتھ متحد ہیں، وہ احتجاج میں شامل ہو کر اپنے لوگوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔’

سمی کہتی ہیں کہ انہیں فخر ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اجتماعات میں بلوچ مردوں کی بھرپور حمایت اور شرکت ہوتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ‘بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں مرد شامل ہوتے ہیں۔ ہم سے پہلے بھی یہاں قابل ذکر خواتین کارکن موجود تھیں، جیسا کہ کریمہ بلوچ اور شکر بی بی بلوچ قابل ذکر ہیں۔

گل زادی

گزشتہ سال اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے دھرنے میں ایک نوعمر لڑکی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ گل زادی بلوچ نامی لڑکی کو اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے حکام کی جانب سے ایک بس میں زبردستی کوئٹہ واپس لایا جا رہا تھا۔

جب خواتین نے اپنی بس کی کھڑکی سے اپنی گزارشات کو فلمانے کی کوشش کی تو گل زادی نے بے اعتنائی، اختصار اور قائل کرنے کے انداز میں کہا کہ ’ہمیں پاکستان سے کچھ نہیں چاہیے، کچھ بھی نہیں۔ ہمیں صرف اپنے پیاروں کی واپسی کی ضرورت ہے جنہیں زبردستی لاپتہ کر دیا گیا ہے۔‘

صحافی اور مصنف محمد حنیف نے درج ذیل بیان کے ساتھ گل زادی کی ویڈیو کو ری ٹویٹ کیا: ’احتجاج کے طور پرمیں اس ریاست کی طرف سے دیا گیا ستارہ امتیاز واپس کرتا ہوں، جو بلوچ شہریوں کو اغوا کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ میری نسل کے صحافیوں نے سمی بلوچ اور ماہ رنگ بلوچ کو احتجاجی کیمپوں میں بڑے ہوتے دیکھا ہے۔ ایک نئی نسل کو بنیادی وقار سے محروم ہوتے دیکھ کر شرم آتی ہے۔‘

بلوچستان کے ضلع بولان کے قصبے مچھ سے تعلق رکھنے والی گل زادی اپنے بھائی ودود ستاکزئی کے اغوا کے بعد کوئٹہ منتقل ہوگئیں۔ میرے کچھ پوچھے بغیر ہیں انہوں نے بات کرتے ہوئے ان حالات کا تذکرہ کیا، جن کی وجہ سے ان کا بھائی لاپتہ ہوا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ‘12 اگست 2021 کو میرا بھائی مچھ میں لاپتہ ہو گیا۔کچھ مہینوں کے انتظار کے بعد اور بہت سے مالی مسائل کے باوجود میں نے ان کی رہائی کے لیے کوئٹہ میں احتجاج شروع کر دیا۔ ان کی رہائی کی جدوجہد کے دوران میری کئی بلوچ خاندانوں سے ملاقات ہوئی جن کے پیارے بھی لاپتہ تھے۔ میں نے دیکھا کہ میری کہانی ان کی کہانیوں میں گونجتی ہے۔ اس لیے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے لاپتہ بلوچوں کے لیے احتجاج کرتی ہوں، حالانکہ میرے بھائی کو 8 فروری 2022 کو رہا کر دیا گیا تھا۔

ان کے بقول بلوچستان کو ایک سکیورٹی زون میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں سے مردوں کو بغیر کسی وجہ کے اٹھا لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان جیسی خواتین اور لڑکیوں کو سامنے آ کر انصاف مانگنا پڑتا ہے۔

مچھ میں اپنے اسکول کے دنوں میں گل زادی تقریری اور مباحثے کے مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں اسی بنیاد نے ہی نے انہیں بلوچ مظاہرین کے سامنے بولنے اور سامعین کو حصارمیں لینے کا اعتماد دیا، لیکن ان کی جدوجہد صرف بولنے تک محدود نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں براہوی زبان میں شاعری بھی لکھتی ہوں۔ میری یہ تحریریں زیادہ تر مزاحمتی شاعری، لاپتہ افراد کے گرد اور سرداری (قبائلی ) نظام کے خلاف گھومتی ہیں۔

لاپتہ افراد کے مسئلے سے آگے

ماہ رنگ، سمی، اور گل زادی کی طرح بہت سی دوسری بلوچ خواتین کی رائے ہے کہ وہ احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئیں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ چونکہ ان کے خاندان کے مرد لاپتہ ہو چکے تھے ،اس لیے ان کی رہائی کے لیے لڑنے کی ذمہ داری خواتین کو اٹھانی پڑی۔

ماہ رنگ اور سمی تسلیم کرتی ہیں کہ سیاست کے بارے میں جس ابتدائی گفتگوسے وہ اپنے گھرانوں میں واقف ہوئیں، اس نے انہیں کم عمری میں ہی سیاسی اور سماجی مسائل پر مضبوط موقف اختیار کرنے کے لیے ضروری ذہانت فراہم کی۔ آج ہزاروں بلوچ مرد اور خواتین بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ان رہنماؤں کو اپنے اجتماعی مقصد کے نمائندوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ماہ رنگ کی حالیہ تقاریر پر غور کرنے کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ‘عوام’ کے بارے میں وسیع تر الفاظ میں بات کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ میرے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران وہ‘بلوچ عوام’کا جملہ استعمال کرتی ہیں، جبکہ ان بے شمار مسائل کے بارے میں بات کرتی ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔ ماہ رنگ دیکھتی ہیں کہ بلوچ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کی حمایت کرتی ہے کیونکہ اس کا ایک واضح مقصد ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ‘بلوچ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی پر بھروسہ کرتے ہیں، کیونکہ اس کے پاس ایک پروگرام ہے۔ اس پروگرام کی بنیاد پر بلوچوں کو درپیش حقیقی مسائل کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔’

تاہم ماہ رنگ اور دیگر جانتے ہیں کہ ان کا مقصد خطے کے بہت سے مسائل کو حل کرنا ہے ،جو لاپتہ افراد سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ ماہ رنگ کے مطابق‘لاپتہ افراد کے مقدمات کے علاوہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس بارے میں بھی بات کرتی ہے کہ کس طرح بلوچوں کو اپنے وسائل تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ہم نے ریکوڈک معاہدے کے خلاف بھی بات کی ہے، جو بلوچ عوام کی مرضی کے خلاف منظور کیا گیا ہے، اور اس طرح کے دیگر منصوبوں جیسے سیندک پراجیکٹ پر بھی بات کی ہے۔’

اس بات سے انکار نہیں کہ ان خواتین نے جو کام کیا ہے، اور جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ بہت سے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے اور شاید آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرے گا۔ اس کہانی پر کام کرتے ہوئے مجھے ایک رشتہ دار ملا جس نے اپنی دوسری بیٹی کا نام سمی رکھا ہے ،جبکہ میرے ایک اور رشتہ دار نے حال ہی میں اپنی بیٹی کا نام ماہ رنگ رکھا ہے۔ اگرچہ ان افراد کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ان کی طرف سے یہ اشارہ اس وسیع پیمانے پر اپیل کا ثبوت ہے جسے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

ایک دن ناشتہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ میری بلوچ گھریلو ملازمہ فیس بک پرماہ رنگ کی تقریریں دیکھ رہی تھی۔میں نے اس سے پوچھا، ‘کیا وہ تمہاری لیڈر ہے؟’ ویڈیو پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اس نے جواب دیا: ‘اگر ماہ رنگ ہماری لیڈر نہیں ہے تو پھر کون ہے؟’

(بشکریہ: ‘ڈان’، ترجمہ : حارث قدیر)

Roznama Jeddojehad
+ posts