فیض احمد فیض
پھر پھریرے بن کے میرے تن بدن کی دھجیاں
شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں
پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذم کی قمچیاں
میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں
پھر نکل آئے ہوسناکوں کے رقصاں طائفے
دردمند عشق پر ٹھٹھے لگانے کے لیے
پھر دہل کرنے لگے تشہیر اخلاص و وفا
کشتہئ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے
ہم کہ ہیں کب سے در امید کے دریوزہ گر
یہ گھڑی گزری تو پھر دست طلب پھیلائیں گے
کوچہ و بازار سے پھر چن کے ریزہ ریزہ خواب
ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے