دنیا

سیز فائر حماس کی فتح ہے نہ ٹرمپ کے دباؤ کا نتیجہ

جلبیر الاشقر

گذشتہ اتوار کو غزہ میں شروع ہونے والی جنگ بندی بارے دو بڑی واضح کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں۔ پہلا افسانہ یہ ہے کہ یہ جنگ بندی ٹرمپ نے کرائی جس نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میری تقریب ِحلف برداری سے پہلے جنگ بندی ہو جانی چاہئے۔

یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے دھمکی لگائی تھی: اگر مطلوبہ تاریخ تک جنگ بندی نہ ہوئی تو وہ”جہنم“بنا دیں گے(گویا غزہ کے شہری 471 دنوں سے جن حالات میں رہ رہے تھے،وہ جہنم سے کم تھے)۔بلا شبہ، ٹرمپ کی ٹیم نے ہر ممکن دباو ڈالا جس کے نتیجے میں جنگی وقفہ (truce) ہوا (اتوار کو جو ہوا، اُسے جنگی وقفہ کہنا ہی زیادہ مناسب ہو گا)۔ افسانہ اس سارے بیانئے میں یہ گھڑا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی بازو مروڑی اور اِس کے نتیجے میں،بعض حلقے،ٹرمپ کو ایک ایسا قہر مان بنا کر پیش کر رہے ہیں جو اہلِ فلسطین کو انصاف پر مبنی امن دلائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ افسانہ بالکل ایک لغو بات ہے۔اپنے پیش رو،جو بائیڈن سے قبل،ٹرمپ نے اسرائیل کی سب سے زیادہ خدمت کی۔ جو بائیڈن نے ٹرمپ ہی کے کام کو سر انجام پہنچایا۔ ٹرمپ وائٹ ہاوس میں مسیحی اور یہودی صیہونیوں کی معیت میں واپس پہنچا ہے۔ان صیہونیوں میں سے بعض تو نیتن یا ہو سے بھی زیادہ رائٹ ونگ ہیں۔ یہ افسانہ تراشنے والے گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پر فار رائٹ سیاست کی قیادت کرنے والا ٹرمپ جو گھٹنوں تک رجعتی سیاست میں دھنسا ہوا ہے، اچانک سے صیہونیت کا مخالف اور فلسطین کا دوست بن گیا ہے۔

یہ حقیقت سب کو معلوم ہے۔۔۔بالخصوص جوبائیڈن کو،جس نے نیتن یاہو کو گذشتہ سال جولائی میں جب واشنگٹن میں ویلکم کیا تو سرِ عام اُس کی اِس بات پر سرزنش کی تھی۔۔۔نیتن یاہو نے دوحہ اور قاہرہ کی مدد سے تیار کئے گئے امریکی انتظامیہ کے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ نیتن یا ہو جو بائیڈن،بعد ازاں کملا ہیرس جو صدارتی امیدوار بنی، ایک ایسی کامیابی سے محروم رکھا جائے جسے ڈیموکریٹک امیدوار صدارتی مہم میں ایک کامیابی کے طور پر پیش کر سکیں۔

واشنگٹن کے بعد نیتن یا ہو نے فلوریڈا میں ٹرمپ کے مینشن پر اُس سے ملاقات کی۔یہ واضح تھا کہ نیتن یا ہو نے ٹرمپ سے وعدہ کیا تھا: اگر ٹرمپ الیکشن جیت گیا تو نیتن یاہو جنگی وقفہ کر دے گا۔ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد،نیتن یا ہو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ معاہدہ کرنے کے ”یقینی طور پردلچسپی“ رکھتا ہے اور”ہم اس پر کام کر رہے ہیں“۔

درحقیقت نیتن یا ہو نے ٹرمپ کے دباو۔۔۔مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کا نمائندہ سٹیو وِٹ کاف پرلے درجے کا صیہونی ہے،اس نے بلا شبہ اس بات کو یقینی بنایا کہ دباو کا کوئی نتیجہ نکلے۔۔۔کو بہانہ بنا کر اپنے فار رائٹ صیہونی حامیوں کوقائل کیا کہ وہ اس معاہدے کو تسلیم کر لیں۔ اندریں حالات،میڈیا اُس دباو کی بابت خاموش تھا،یا تقریباََ خاموش تھا،جو مصر اور قطر کے ذریعے حماس پر، ٹرمپ کے نمائندے کے کہنے پر، ڈالا جا رہا تھا۔ہاں البتہ افسانہ اس طرح سے تراشا اور پھیلایا گیا کہ اس کا فائدہ نیتن یا ہو کو ہوا۔
نیتن یاہو نے البتہ [سابق وزیرخزانہ :مترجم] سموترچ اور [سابق وزیر سلامتی:مترجم] بین گویر کو یقین دلایا کہ یہ معاہدہ اپنے پہلے مرحلے سے آگے نہیں بڑھے گا۔سموترچ نے تو اس وعدے پر یقین کر لیا۔بین گویر نے البتہٰ وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ کنیسٹ [اسرائیلی پارلیمان] میں نیتن یاہو کی حمایت جاری رکھے گا اور جوں ہی جنگ دوبارہ شروع ہو گی،وہ حکومت میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔

غزہ کی پٹی میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اسرائیلی عوام کے دباو کی وجہ سے اسرائیلی افواج کی قیادت بھی معاہدے کے لئے لابنگ کر رہی تھی۔جب نیتن یا ہو نے معاہدے پر دستخط کے سلسلے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا تو سابق وزیر دفاع یاو گیلانت نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ان سب کو معلوم ہے کہ یہ معاہدہ محض جنگی وقفہ ہے جس کے نتیجے میں اسرائیلی یر غمالی رہا کروائے جائیں۔گے اس کے بعد اسرائیلی افواج اپنی جنگ پھر سے شروع کر دیں گی۔

یہ ثابت کرنے کے لئے کہ غزہ کی پٹی میں لوگ اب بھی اس کے کنٹرول میں ہیں، حماس نے جس طرح اپنے مسلح افراد کو جوش و خروش سے تعینات کیا، اُس سے اسرائیلی افواج اور معاشرے کو شہ ملے گی کہ وہ جنگ اور قبضہ جاری رکھیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ جنگی وقفہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا ء کی جانب جائے گا، در اصل خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے۔

دوسری کہانی کا تعلق،کسی حد تک پہلے افسانے سے ہے۔ دوسرا افسانہ یہ تراشا گیا ہے کہ موجودہ معاہدہ در اصل حماس کی بہت بڑی جیت ہے۔گذشتہ ہفتے کے روز حماس نے ایک اخباری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا:”معرکہ طوفان الاقصٰی [7 اکتوبر والا حملہ: مترجم]نے ہمیں آزادی، قبضے کے خاتمے، اور [فلسطینی مہاجرین کی] واپسی کے قریب پہنچا دیا ہے، انشااللہ“۔

جس غیر منطقی جادوئی سوچ کا مظاہر ہ 7 اکتوبر 2023 کو دیکھنے میں آیا، اس کی تازہ مثال یہ بیان ہے۔اہلِ فلسطین جس طویل المئے کا شکار ہیں، اس کے بد ترین اور خوفناک ترین باب کا حرفِ آغاز سات اکتوبر کا حملہ تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں حماس نے ”مزاحمت کے محور“ میں شامل اپنے اتحادی بھی کھو دئے:لبنان میں حزب اللہ پر فیصلہ کن ضرب لگی ہے،شام میں اسد رژیم کا خاتمہ ہو گیا ہے،ایران خوفزدہ ہو گیا ہے۔

صرف یمن کی حوثی تنظیم انصار اللہ میدان میں بچی ہے۔یمن میں دیگر فرقوں کے ساتھ فرقہ وارانہ جنگ اور سعودی عرب سے تنازعے کا استحصال کرنے کے لئے انصار اللہ میزائل داغنے میں مصروف ہے۔انصار اللہ کی بہترین نمائندگی اس کا ترجمان یحیٰی سریع کرتا ہے۔احمد سعید (جمال عبدلاناصر دور کا مصری براڈ کاسٹر) اور محمد سعید الصحاف (صدام حسین کا ترجمان)کے بعد یحیٰی سریع عرب بڑھک بازی کا شاندار نمونہ ہے۔بڑھک بازی اور تمسخر بازی میں تو اس نے احمد سعید اور سعید الصحاف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

مندرجہ ذیل باتوں کے پیش نظر:

کہ اہل غزہ کا ایک بہت بڑا قتل عام ہوا ہے (ہلاک ہونے والوں کی تعداد، ان میں وہ بھی شامل ہیں جو اسرائیلی جارحیت کے باعث پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے ہلاک ہوئے،دو لاکھ سے زیادہ ہے،ان میں وہ شامل نہیں جو عمر بھر کے لئے جسمانی یا نفسیاتی طور پراپاہج ہو گئے ہیں،ایسے زخمیوں کی تعداد ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے)؛
کہ بیس سال کے بعد اسرائیلی افواج نے ایک مرتبہ پھر غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا ہے،یوں غزہ پر سیلف ایڈمنسٹریشن کا فلسطینی حق بھی چھن گیا ہے؛
کہ جس بڑے پیمانے پر غزہ کی تباہی ہوئی ہے اس کی مثال دوسری عالمی جنگ کے بعد کہیں نہیں ملتی؛
کہ غزہ کا ماحول اور زندہ رہنے کے لئے دیگر عوامل جس طرح سے تباہ ہوئے ہیں؛
کہ چند سو فلسطینی اسرائیلی جیلوں سے جب رہا ہو رہے تھے تو ہزاروں کو (دوبارہ) گرفتار کیا جا رہا تھا؛
کہ مغربی کنارے میں صیہونی حکومت اور اسرائیلی سیٹلرز کے فسطائی حملے بڑھتے جا رہے ہیں اور مغربی کنارے پر مزید قبضہ جما لیا گیا ہے؛

اس سب کے پیش نظر یہ کہناکہ اس تباہی ”نے ہمیں آزادی، قبضے کے خاتمے، اوواپسی کے قریب پہنچا دیا ہے“حماقت سے بھی پرے کی کوئی چیز ہے۔اس بیان سے تو شرم اور تمیز سے عاری ہونے کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔

ممکن ہے ٹرمپ ”صدی کے سب سے بڑے معاہدے“ کی بات کرے۔یہ معاہدہ ٹرمپ کے صیہونی داماد نے ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت کے دوران تیار کیا تھا۔اس معاہدے کو رملہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی نے خود بھی رد کر دیا تھا کہ یہ معاہدہ فلسطینی حقوق کی شدید نفی ہے۔متحدہ عرب امارات کی مدد سے ایک ملتا جلتا معاہدہ غزہ بارے بھی تیار کیا جا رہا ہے،جسے اس ’معاہدے‘ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔متحدہ عرب امارات فوجی دستے غزہ کی پٹی میں بھیج سکتا ہے تا کہ وہاں محمد دحلان کی،بطور دراوغہ،پوزیشن مضبوط کی جا سکے]محمد دحلان پی ایل او کی سیکیورٹی سروسز کے ایک حصے کا چیف تھا۔2007 میں غزہ میں حماس کو دبانے کے لئے جو ناکام مہم چلی،محمد دحلان اس کی قیادت کر رہا تھا۔اسے امریکی صدر جارج بش کی انتظامیہ کی حمایت حاصل تھی۔بعد ازاں، اس نے متحدہ عرب امارات میں جلا وطنی اختیار کر لی)۔

اس سارے کھیل میں ٹرمپ کا نصب العین ہے کہ فلسطین کے سوال کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے تا کہ صیہونی ریاست اور باقی عرب ریاستوں،بالخصوص سعودی عرب،کے مابین جامع طور پر تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے اور اس طرح ”صدی کے سب سے بڑے معاہدے“ کے ذریعے ذاتی اور خاندانی مفادات کو آگے بڑھایا جا سکے۔یہ مفادات تیل سے مالا مال عرب ممالک کے ساتھ فنانس اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے سے جڑے ہیں۔

(یہ مضمون عربی اخبار ’القدس العربی‘ میں شائع ہوا۔ اس کا انگریزی ترجمہ Gilbert Achcar blog پر موجود ہے۔ انگریزی سے ترجمہ: فاروق سلہریا)

Gilbert Achcar
Website | + posts

جلبیر اشقر اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن کے پروفیسر ہیں۔ وہ مذہب کے سیاسی کردار اور بنیاد پرستی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔