جلبیر اشقر
19اپریل کومیں نے ایران پر صہیونی ریاست کے انتقامی حملے سے متعلق اپنے تبصرے میں اس حملے کی محدود، بلکہ تقریباًعلامتی نوعیت پر بات کی تھی۔
وہ حملہ ناتنزمیں ایران کے یورینیم افزودگی کے ری ایکٹر کے تحفظ کے لیے مختص فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے تک محدود تھا۔ راقم نے اس وقت وضاحت کی تھی کہ نیتن یاہو حکومت نے ’واشنگٹن کی خواہش کے مطابق اور متعلقہ اقتصادی اور فوجی تحفظات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر حملے کی تاریخ کو ملتوی کرنے کا انتخاب کیا۔‘
ساتھ ہی اس حملے میں 6دن قبل ایران کی جانب سے کیے گئے حملے کی مناسب تلافی کے لیے اسرائیلی رد عمل بھی شامل تھا۔
راقم نے مزید لکھا تھا کہ ’مزید برآں، امریکی اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق امریکی صدر بائیڈن نے نیتن یاہو کو رفح پر حملے کے لیے گرین سگنل دیا تھاتاکہ اس کے بدلے میں اسرائیل فی الحال ایران کے خلاف بڑا حملہ کرنے سے باز رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور اس کی لبنانی معاون تنظیم،حزب اللہ، کے خلاف اپنی فوجی کوششوں کو غیر معمولی طور پر متحرک کرنے سے قبل صہیونی ریاست غزہ کے خلاف ساڑھے 6ماہ سے جاری نسل کشی کی جنگ کو مکمل کر لے گی۔‘ (بحوالہ: ’ایران پر ملتوی کیا گیا اسرائیلی حملہ‘۔23اپریل 2024)۔
ایسا ہی ہوا۔ اسرائیل کی قابض افواج نے 6مئی کو رفح پر حملہ کیا، پھر پٹی پر اپنا کنٹرول مکمل کر لیا اور حزب اللہ پربڑے پیمانے پر حملہ کرنے سے پہلے گرمیوں کے موسم کے ختم ہونے کا انتظار کیا گیا۔اس دوران اسرائیل نے 31 جولائی کو تہران کے وسط میں اسماعیل ہنیہ کو قتل کر کے ایران کے خلاف اشتعال انگیزی میں اضافہ کیا۔
ایران اپنی سرزمین پر اپنے ایک اتحادی کے اس قتل کا جواب دینے سے ہچکچاتا رہا،یہاں تک کہ اسرائیل نے بیروت میں حسن نصر اللہ کو ایرانی پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل عباس نیلفر وشان کے ہمراہ قتل کر دیا۔میجر جنرل محمد رضا زاہدی کے بعد یہ پاسداران انقلاب کے دوسرے اعلیٰ افسر تھے، جنہیں اسرائیل نے قتل کیا۔ میجر جنرل محمد رضا زاہدی کو یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے میں ایک آپریشن میں مارا گیاتھا۔ اس واقعے نے تہران کو 13 اپریل کو اسرائیل پر اپنا پہلا جوابی حملہ کرنے پر مجبور کیا۔
ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے اپنے دوسرے جوابی حملے کو بیلسٹک میزائلوں کا زیادہ وسیع استعمال کرتے ہوئے حملوں کو زیادہ موثر بنانے کا فیصلہ کیا۔ بیلسٹک میزائلوں کو صہیونی افواج مکمل طور پر روک نہیں سکتیں، داغے گئے میزائلوں میں سے تقریباً200بیلسٹک میزائل تھے(اپریل میں 55بیلسٹک میزائلوں میں سے 9اسرائیل کے انٹرسیپشن سسٹم کے جال میں سوراخ کر کے اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔(متذکرہ بالا مضمون میں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے)۔
یہ حملہ ایران کے لیے ناگزیر تھا، کیونکہ تہران اپنے عرب شیعہ حامیوں، خاص طور پر لبنانیوں میں اپنی ساکھ کھورہا تھا۔ تاہم اس کی خواہش تھی کہ اس بار بھی اپنے حملے کو ان حدود کے اندر رکھا جائے،جس سے براہ راست امریکی شرکت کے ساتھ بڑے پیمانے پر اسرائیلی حملہ نہ ہو۔ تہران جانتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ امریکی انتخابات سے قبل اس قسم کے حملے میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے، اس ڈر سے کہ یہ نائب صدر کملا ہیرس کی صدارتی مہم پر الٹا اثر ڈال سکتا ہے۔
اس لیے بائیڈن نے نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی حملہ بھی اسی طرح محدود رہے،تاکہ ہیرس کی مہم کو نقصان نہ پہنچے۔ انہوں نے اس ڈر سے ایرانی تیل کی سہولیات کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے کو کہا کہ تہران خلیج سے تیل کی تمام برآمدات میں خلل ڈال کر جواب دے گا۔ اس طرح تیل کی عالمی منڈی میں شدید بحران پیدا ہو جائے گا اور قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو گا، جس کا نائب صدر کی مہم پر تباہ کن اثر ہو سکتا ہے۔
بائیڈن نے نیتن یاہو سے یہ بھی کہا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر براہ راست حملہ نہ کریں، وہ یہ جانتے تھے کہ اکیلا اسرائیل انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جوہری تنصیبات پر ایسا حملہ جو انہیں مکمل تباہ نہ کر سکے، اس کا واحد اثر ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں تیزی لانا ہو سکتا ہے۔
بائیڈن نے نیتن یاہو کو اس پابندی پر عمل کرنے کے بدلے میں کیا وعدہ کیا ہے، اس کا انکشاف ابھی ہونا باقی ہے۔ تاہم امریکی انتظامیہ کا سسٹم چلانے والے 100فوجیوں کے ہمراہ THAADاینٹی بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم اسرائیل بھیجنے کا فیصلہ جاری صہیونی حملے میں امریکہ کی شرکت کو بالواسطہ سے براہ راست میں تبدیل کرنے کے لیے ایک معیاری قدم ہے۔
اسرائیلی افواج کے ساتھ امریکی فوجیوں کی تعیناتی،اور ایف 16، ایف15ای اور اے10کے اضافی سکواڈرن کے ساتھ خطے میں امریکی فضائیہ کی موجودگی کو تقویت دینا اس کے علاوہ ہے۔
اسرائیلی فضائیہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے کے روز کیے گئے حملے کی نوعیت مستقبل قریب کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ حملہ صہیونی ریاست کی طرف سے سرکاری طور پر ایران پر پہلا حملہ تھا،جو دارالحکومت تہران اور ایران کے جوہری تنصیبات کے ارد گرد موجود طیارہ شکن دفاعی نظام کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان دیومالائی فیول مکسروں کو تباہ کرنے پر مرکوز تھا،جنہیں تہران اپنے میزائلوں کے لیے ایندھن بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے(حملے میں چار ایرانی فوجی بھی مارے گئے)۔ یوں اسرائیلی حملے نے واضح طور پر ایران کی دفاعی صلاحیتوں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے مزید میزائلوں اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کی صلاحیت کو کمزور کر کے ایران پر اگلے حملے کی راہ ہموار کی ہے۔
نیتن یاہو اب اپنے اگلے اقدام کا فیصلہ کرنے کے لیے منگل [آج]کو ہونے والے امریکی انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں، تو وہ ان سے مشورہ کریں گے کہ آیا وہ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے بنیادی مقصد کے ساتھ بڑے پیمانے پر امریکہ اوراسرائیل کامشترکہ حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بی 2 اسٹریٹجک بمباروں کی ضرورت ہوگی،جو صرف امریکی فضائیہ کے پاس ہیں، جو جی بی یو57 بنکر بسٹر بم لے جا سکتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا وزن تقریباً 15 ٹن ہے،اور یہ اسرائیل کے پاس بھی نہیں ہیں۔ اگر ہیرس جیت جاتی ہیں، تو نیتن یاہو ممکنہ طور پر بائیڈن کو اپنے ساتھ حملہ کرنے کے لیے گھسیٹنے کی کوشش کریں گے۔
نصف صدی تک امریکی مفادات کے لیے خدمت کرنے کے بعد یہ بائیڈن کا صہیونی ریاست کے لیے آخری اور سب سے بڑا تحفہ ہو سکتا ہے، جس کے لیے نتن یاہو نے گزشتہ جولائی کے آخر میں وائٹ ہاؤس کے اپنے آخری دورے کے دوران عوامی طور پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
(ترجمہ: حارث قدیر)