عشا خضر وٹو
جمالیات (Aesthetics) ایک ایسا علم ہے جو خوبصورتی، فن، اور انسانی تجربے کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ یونانی لفظ ’aisthetikos‘ سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ’حسی ادراک سے متعلق‘۔
جمالیات کے بنیادی سوالات درج ذیل ہیں:
فن کی اصل کیا ہے؟
کون سے عناصر خوبصورتی کو تشکیل دیتے ہیں؟
خوبصورتی اور سچائی کے درمیان کیا رشتہ ہے؟
اور ہم فن کو کیسے محسوس کرتے یا اس کا تجربہ کرتے ہیں؟
یہ شعبہ انسانی جذبات، تخلیقی اظہار، اور حقیقت کو سمجھنے کے منفرد طریقوں کو دریافت کرتا ہے، جو زندگی اور کائنات کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو وسعت دیتے ہیں۔
مارکسی جمالیات کا موضوع فن اور خوبصورتی کے تصور کو معاشرتی اور معاشی حقائق کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جمالیات کے روایتی نظریات سے ہٹ کر اس بات پر زور دیتا ہے کہ فن محض خوبصورتی یا ذاتی تسکین کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد سماجی ترقی اور انسانیت کی خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔ جمالیات کی بنیاد ان انسانی تجربات پر ہے جو حسّی ادراک سے وابستہ ہیں، اور یہی تجربات معاشرتی شعور اور سماجی ڈھانچے کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہیگل کے نظریات جمالیات کو ’فن کے فلسفے‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، خوبصورتی کا مطلب صرف حسی خوشی نہیں بلکہ خوبصورتی روحانی آزادی اور انسانی شعور کا مظہر ہے۔ ہیگل کا کہنا تھا کہ فن مطلق یعنی کُل حقیقت کا اظہار کرتا ہے۔ ہیگل کا نظریہ یہ بھی وضاحت کرتا ہے کہ خوبصورتی معروضی بھی ہو سکتی ہے، یعنی ایسی حقیقت جو انسان کے تجربے سے آزاد ہو، اور موضوعی بھی، جو انسانی شعور اور جذبات پر مبنی ہو۔ ہیگل کے مطابق، فن انسانی آزادی اور سماجی ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔
آسکر وائلڈ نے بھی فن اور جمالیات پر گہرے خیالات پیش کیے۔ ان کی تحریر’The Soul of Man under Socialism‘ میں وہ فن کو آزاد تخلیقی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آسکر وائلڈ کا ماننا تھا کہ فن کا مقصد سماجی یا اخلاقی اصولوں کی تبلیغ نہیں بلکہ خوبصورتی اور جذبات کو اجاگر کرنا ہے۔ ان کے مشہور جملے ’فن برائے فن‘ (Art for Art’s Sake)کے مطابق، فن کو کسی عملی مقصد کے لیے محدود نہیں کیا جانا چاہیے۔ سرمایہ داری پر تنقید کرتے ہوئے آسکر وائلڈ نے کہا کہ سرمایہ داری نظام فن کو محض ایک تجارتی شے بنا دیتا ہے، جس سے اس کی اصل خوبصورتی اور تخلیقی قدر ختم ہو جاتی ہے۔
آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں آرٹ بھی منافع کی ایک چیز بن چکا ہے۔ آرٹ جو کبھی اظہار کی آزادی، تخلیقی سچائی اور انسانی جذبات کا عکاس تھا، اب محض ایک تجارتی شے بن گیا ہے۔ ہر طرف صرف مادی فائدے کی بھوک ہے، ہر آرٹ پیسے میں تولا جاتا ہے۔ بس پیسہ کمانا ہے، ٹرینڈز کو فالو کرنا ہے، چاہے وہ کتنے ہی کھوکھلے اور غیر مستقل کیوں نہ ہوں۔ یہ وہ رجحانات ہیں جو ہماری اصل شخصیت، ہمارے حقیقی جذبات اور ہمارے انفرادی اظہار سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ آرٹ جو کبھی روح کی گہرائیوں سے جنم لیتا تھا، اب مارکیٹ کی طلب اور منافع کے حساب سے ڈھالا جاتا ہے۔
”نجی ملکیت کے تصور نے فردیت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے اور اسے دھندلا کر دیا ہے، کیونکہ اس نے انسان کو اس کی ملکیت سے جوڑ دیا ہے۔ اس نے فردیت کو مکمل طور پر گمراہ کر دیا ہے۔ اس نے نشوونما کی بجائے فائدے کو مقصد بنا دیا ہے۔ یہاں تک کہ انسان یہ سمجھنے لگا کہ اہم چیز ’what he owns‘ ہے جبکہ وہ یہ بھول گیا کہ اصل اہمیت ’what he is‘ کی ہے۔ انسان کی حقیقی تکمیل اس میں نہیں کہ اس کے پاس کیا ہے، بلکہ اس میں ہے کہ وہ خود کیا ہے۔“
یہی سرمایہ داری کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔یہ انسان کو اس کی ذات سے کاٹ کر، اسے صرف ایک صارف اور پیداوار کا پرزہ بنا دیتا ہے۔جہاں آرٹ کا مقصد سوچ پیدا کرنا، سوال اٹھانا اور انسان کے اندر موجود خوبصورتی کو اجاگر کرنا تھا، وہیں اب یہ ایک مارکیٹ پروڈکٹ بن چکا ہے، جس کی قدر بس اتنی ہے جتنی اس سے حاصل ہونے والے منافع کی۔
آسکر وائلڈ کے خیال میں، ایک سوشلسٹ معاشرہ ہی وہ جگہ ہے جہاں فنکار بغیر معاشی دباؤ کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں بروئے کار لا سکتا ہے، کیونکہ جب انسان کو اپنی بنیادی ضروریات کے لیے سرمائے کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا پڑتا، جب وہ صرف منافع اور مارکیٹ کے مطالبات کے تابع نہیں ہوتا، تب ہی وہ اپنی اصل ذات کو دریافت کر سکتا ہے، اور اپنی تخلیقی قوتوں کو آزادانہ طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
آسکر وائلڈ کا کہنا تھاکہ ”تمہاری شخصیت بے حد خوبصورت ہے۔ اسے نکھارو۔ خود کو اپناؤ۔ یہ مت سوچو کہ تمہاری تکمیل بیرونی اشیاء کے حصول میں ہے۔ تمہاری اصل دولت تمہارے اندر ہے۔ اگر تم اسے پہچان سکو، تو تمہیں امیر بننے کی خواہش نہ رہے۔ عام دولت چوری ہو سکتی ہے، لیکن حقیقی دولت نہیں۔ تمہاری روح کے خزانوں میں بے حد قیمتی چیزیں موجود ہیں، جو تم سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ اس لیے اپنی زندگی کو اس انداز میں ڈھالو کہ بیرونی چیزیں تمہیں نقصان نہ پہنچا سکیں اور کوشش کرو کہ نجی ملکیت(private property) سے بھی نجات حاصل کرو، کیونکہ یہ ذہنی پریشانی، مسلسل محنت اور نہ ختم ہونے والی ناانصافیوں کو جنم دیتی ہے۔ نجی ملکیت ہر موڑ پر فردیت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔“
یہی وہ خیال ہے جو سرمایہ داری اور سوشلزم کے درمیان بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے۔ سرمایہ داری میں انسان کا وجود اس کی ملکیت اور اس کے سرمائے سے ناپا جاتا ہے، جبکہ حقیقی آزادی اور تخلیق تبھی ممکن ہے جب فرد اپنی شناخت کو بیرونی اشیاء سے الگ کر کے دیکھے، جب وہ اپنی اصل ذات کو پہچانے اور اس کا اظہار کرے۔
"Know thyself was written over the portal of the antique world. Over the portal of the new world, ‘Be thyself shall be written.”
مارکس نے جمالیات کو انسانی زندگی اور سماجی حالات کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ فن کو سماجی تبدیلی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ مارکس کے نزدیک، فن انسانی جدوجہد اور طبقاتی شعور کو بیدار کرنے کا ایک طاقتور وسیلہ ہے۔ مارکسی جمالیات کا مقصد فن کو ایسی شکل دینا ہے جو سماجی انصاف اور انسانی ترقی کی حمایت کرے۔ مارکس کا خیال تھا کہ فن سماجی حقیقتوں کا سچا عکس ہونا چاہیے اور اس کا مقصد سماجی مسائل کو حل کرنے میں مدد دینا چاہیے۔
بعد کے مارکسی مفکرین، جیسے والٹر بینجمن اور گؤرگ لوکاش، نے ان خیالات کو مزید آگے بڑھایا۔ بینجمن نے جدید دور میں فن کی اہمیت اور اس کی تکنیکی تولید کے اثرات پر غور کیا، جبکہ لوکاش نے ادب میں طبقاتی شعور اور سماجی حقیقتوں کو نمایاں کیا۔ ان مفکرین کے مطابق، فن محض ذاتی خوشی یا تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی تبدیلی اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے ایک اہم وسیلہ ہے۔
مارکسی جمالیات ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ فن اور خوبصورتی کو ایک ایسے فریم ورک میں دیکھا جائے جو انفرادی تجربے کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور کو بھی سمجھنے میں مدد دے۔ ہیگل اور آسکر وائلڈ کے نظریات مارکسی جمالیات کے اس فریم ورک میں مزید گہرائی پیدا کرتے ہیں، جو فن، خوبصورتی، اور سماجی حقیقتوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظریات ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ فن کا مقصد نہ صرف دیکھنے والے کو متاثر کرنا بلکہ انسانیت کے وسیع تر مفاد میں کام کرنا بھی ہے۔