ڈاکٹر قیصر عباس ’روزنامہ جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی ہیں جبکہ ’فاروق سلہریا ’روزنامہ جدوجہد‘ کے شریک مدیر ہیں۔

ڈاکٹر قیصر عباس ’روزنامہ جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی ہیں جبکہ ’فاروق سلہریا ’روزنامہ جدوجہد‘ کے شریک مدیر ہیں۔
سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ممبر قومی اسمبلی علی وزیر سمیت دیگر سیاسی و سماجی رہنماؤں نے گرفتاریوں اور تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔
پروفیسر حمید خان پروفیسر برادری کے قابلِ احترام صدر ہیں۔ ہم انکے ہر فیصلے کی حمایت کرینگے۔ ہم نئی روایات قائم کرینگے۔ غیر ضروری تنقید اور پیرالل تنظیم نہیں چلائیں گے۔
یہ بنیادی فرق اب پی ڈی ایم کیلئے ایک چیلنج بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ مزید آگے بڑھنا اور ڈٹے رہنا چاہیں گے کہ پیچھے ہٹیں گے۔
دوسری طرف بڑے ہوٹلوں میں، جہاں تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہے، ہڑتال سے کچھ اثر نہیں پڑا نہ ہی کوئٹہ کینٹ میں ایسا کوئی مسئلہ ہے۔
حکومت اور پی ایم سی سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے میڈیکل اسٹوڈنٹس کے مستقبل سے کھیلنا بند کرے۔
بلوچ طلبہ نے سکالرشپس بحالی کے نوٹیفکیشن کے بعد دھرنا ختم کر دیا ہے تاہم ابھی تک گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے سابقہ فاٹا کے طلبہ کی سکالرشپس بحال نہیں ہو سکیں۔
یہ احتجاجی مارچ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے صوبے بنانے کے منصوبہ اور جموں کشمیر کی تقسیم کو مستقل شکل دینے کے خلاف منعقد کیا جا رہا ہے۔
اس فیصلے سے کم از کم ڈیڑھ لاکھ طلبہ کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور میڈیکل کالجوں میں داخلے کے خواہش مند طلبہ اور ان کے والدین میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔