پاکستان


ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد کا ’ماحولیاتی انصاف مارچ‘

گزشتہ جمعہ کو شکارپور میں ہری جدوش کمیٹی اور پاکستان کسان کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ کسانوں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے تاریخی ماحولیاتی انصاف مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا کے امیر ممالک کے وعدوں پر عمل درآمد بھی شامل تھا۔

جلد باز قوم: اتنی جلدی کہ ٹرین کے نیچے آنے پر بھی تیار ہیں

اس معاشرے میں ثقافتی گراؤنٹ کی انتہا یہ ہے کہ لوگ تیزی سے گزرنے کیلئے ٹرین کے نیچے آنے کیلئے تیار ہیں، لیکن مہم جوئی کی حد تک اس تیز رفتاری کی حد یہ ہے کہ شاید چند سو میٹر بعد ان میں سے کئی ایک نے کافی زیادہ وقت کیلئے رکنا ہے۔ گھر پہنچ کر بھی انہوں نے شاید کچھ بھی نہیں کرنا ہو گا۔ پاکستانی معاشرہ وقت پر کوئی بھی ایونٹ منعقد نہ کرپانے والے معاشروں میں سے ایک ہے۔ ہر تقریب کا مہمان ہمیشہ دیر سے پہنچتا ہے، ہر تقریب تاخیر سے شروع ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے نچلی سطح تک کا ہر اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو پاتا، یہاں تک کہ شادی کی تقریب میں دولہا بھی ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتا ہے۔ تاہم سڑک پر تیزی اس طور نظر آتی ہے کہ شاید اس قوم سے زیادہ مصروف دنیا کی کوئی اور قوم نہیں ہے۔

کالا باغ لابی نہیں بتائے گی کہ لیبیا میں 2 ڈیم ٹوٹنے سے 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے

جس عرصہ میں لیبیا میں ٹوٹنے والے یہ ڈیم تعمیر ہوئے تھے، اسی عرصہ میں جموں کشمیر کے اندر منگلا ڈیم بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ اس بھاری بھرکم ڈیم کی 2003ء میں اپ ریزنگ بھی کی گئی اور اس ڈیم میں جب پانی مقررہ حد تک بھر جاتا ہے تو میرپور شہر زلزلوں کی زد میں آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈیم کے ٹوٹنے کے خطرات بھی موجود ہیں۔ اگر چند سال پہلے کی طرح کوئی ایک زلزلہ بھی آگیا تو منگلا ڈیم نہ صرف میرپور میں بلکہ پنجاب کا اکثریتی علاقوں کے باسیوں کیلئے دیرنا کے باسیوں سے کئی گنا بڑا قہر بنتے دیر نہیں لگائے گا۔

اشرافیہ سالانہ 17 ارب ڈالر کی سبسڈی کیسے ہتھیاتی ہے؟

اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پٹرول اور بجلی پانی پر ٹیکس تو سب پر برابر لگتا ہے۔ امیربھی تو یہ سارے ٹیکس دیتے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ملک ریاض یا جہانگیر ترین، زرداری یا شریف، جنرل اور جاگیردار کی جس قدر اربوں کے لحاظ سے آمدن ہوتی ہے اُس سے انہیں فرق نہیں پڑتا کہ روٹی بیس روپے کی ہے یا بارہ سو کی۔ پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ والا البتہ تیس روپے کی روٹی خریدتے ہوئے دیوالیہ ہو جاتا ہے۔

جرم جہالت کے سزاوار ہیں ہم: ان پڑھ نسلیں اور غربتوں کے دائرے!

ہمارے تعلیمی بحران کے مسائل کا حل دوررس سماجی تبدیلی کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کی غیر تعلیم یافتہ نسل کے بہتر مستقبل کے لیے نئے غیر روایتی منصوبوں کی فوری ضرورت ہے۔ اگر ان لاکھوں نوجوانوں کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو ان کے سامنے صرف دو راستے ہیں: غربت کے نہ ختم ہونے والے دائر وں کا تسلسل یا جہادی گروہوں میں شمولیت کے امکانات۔ آج کا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان نسلوں کو غربت اور جہالت کے دائروں سے باہر نکال سکتے ہیں؟

دو ہزار سے زائد پاکستانی سالانہ خود کشی کرتے ہیں

ہمیں گھیرا ڈالے تمام بری خبروں میں ایک روشنی کی کرن گزشتہ سال کیا جانے والا نوآبادیاتی دور کے ایک قانون کا خاتمہ ہے،جو خودکشی کو جرم قرار دیتا تھا۔ یہ قانون 1800ء کی دہائی کا تھا اور بالآخر 2022ء کے آخر میں ذہنی صحت کی تنظیموں اور عوام کی طرف سے برسوں کی لابنگ اور وکالت کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ اس قانون کے خاتمے نے متعدد مثبت تبدیلیوں کا راستہ صاف کر دیاہے۔ خودکشی کے پھیلاؤ کے بارے میں اب درست تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں یہ ناممکن تھا، کیونکہ مریض اور لواحقین مقدمہ چلائے جانے کے خوف سے اس کی اطلاع نہیں دیتے تھے۔ جیسا کہ اب خودکشی کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کی جا سکتی ہے، اس لیے ہم پریشانی میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے لیے بہتر رسائی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

پاکستان: بجلی کی مد میں بھیانک لوٹ مار کی تاریخ

تمام آئی پی پیز کو فوری طور پر قومی تحویل میں لیا جائے۔ حکمرانوں نے اپنے لئے پالیسیاں بنا کر، جو گزشتہ 27 سالوں کے دوران اس ملک کے شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے، اس کا تخمینہ لگا کر ان آئی پی پیز کے مالکان کی دولت کو ضبط کر کے وہ رقم واپس حاصل کی جائے۔ صرف ان دو اقدامات کے ذریعے سے بجلی کی پیداواری لاگت کئی سو گنا کم ہو جائے گی۔
اسی ضبط شدہ دولت کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر کیا جائے تو 34 فیصد لائن لاسز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں سستے ترین ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی ہی ملکی ضرورت سے زیادہ ہو سکتی ہے، جس کی بنیاد پر شہریوں کو ٹیکس شامل کر کے بھی 2 سے 5 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج: مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

ہر شہر، قصبے، گلی، محلے اور دیہات میں شہریوں کو عوامی کمیٹیاں قائم کرتے ہوئے خود کو منظم کرنا ہوگا۔ پرتشدد واقعات، جلاؤ گھیراؤ اور ہر طرح کی مہم جوئی کو ترک کرتے ہوئے عوام کی وسیع تر پرتوں کو منظم کرنے اور پر امن احتجاج میں شامل کرنے کا سلسلہ آگے بڑھانا ہوگا۔ 300یونٹ مفت بجلی کے حصول، بجلی کے بلوں سے ہر طرح کے ٹیکسوں کے خاتمے،نجی پاور پلانٹس کو حکومتی تحویل میں لئے جانے اور فکس ٹیرف کو مقرر کئے جانے سمیت اشیائے خوردونوش اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور دیگر مطالبات کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنا کر آگے بڑھا جائے۔ حکمرانوں کی اس لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کرنے اور جدوجہد منظم کرتے ہوئے اس خطے میں حقیقی تبدیلی بنیادی رکھنے کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

جموں کشمیر: تحریک پاکستان میں پھیلنے سے کیا فرق پڑے گا؟

یہ درست ہے کہ جموں کشمیر اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں اس تحریک کے مطالبات کی نوعیت میں فرق ہے۔ تاہم دونوں اطراف احتجاج کی کامیابی ایک دوسرے کی حمایت اور یکجہتی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جموں کشمیر کے شہری خطے میں پیدا ہونے والی 3190.22میگاواٹ بجلی سے مقامی ضرورت کی 354میگاواٹ بجلی کی مفت فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے سرینگر اور گلگت بلتستان کی طرز پر گندم پر سبسڈی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

منظور پشتین کو تجویزوں سے زیادہ یکجہتی اور ہمدردی کی ضرورت

رواں ماہ 18 اگست کو پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ابھرنے والی عوامی حقوق کی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے ایک بارپھر اسلام آباد میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا۔ 7 سال سے پرامن طور پر احتجاجی جلسے کرتے ہوئے چند بنیادی عوامی مطالبات ریاست کے سامنے رکھنے والی اس تحریک کی قیادت نے اس بار قدرے جارحانہ الفاظ کا استعمال کیا۔ تاہم گولیوں، لینڈ مائنز اور بم دھماکوں کا نشانہ بنائے جانے والوں کے الفاظ بھی ریاست کیلئے ناقابل برداشت ہیں۔