پاکستان

بلوچستان: قومی آزادی کی تحریک یا بیرونی سازش

آتش خان

بلوچستان میں 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس کی بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ہائی جیکنگ کے واقعے نے بلوچستان کے مسئلے کو ایک مرتبہ پھر ملکی اور عالمی میڈیا میں موضوع بحث بنایا ہوا ہے۔اس سے پہلے لاپتہ افراد کی بازیابی جیسے جمہوری مطالبے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں چلنے والی پرامن سیاسی تحریک نے پاکستان کے محنت کشوں اور مظلوم قوموں سمیت ساری کے دنیا کے محنت کشوں کی توجہ اور بڑی حد تک حمایت حاصل کی تھی۔بلوچ خواتین کی قیادت میں زندہ رہنے جیسے انسانی حق کے لیے چلنے والی تحریک کے جمہوری مطالبات کو ریاست نے تسلیم کرنے کی بجائے جس طرح تشدد اور جبر کی بنیاد پر بے رحمی سے کچلنے کی کوشش کی،اس نے بلوچ مسلح جدوجہد کی جانب نوجوانوں کے رجحان میں اضافہ کیا ہے۔

ماضی کی مسلح اور سیاسی تحریکوں سے موجودہ تحریکیں اس اعتبار سے مختلف ہیں ان کی قیادت بلوچ سرداروں کی بجائے عام بلوچ نوجوان اور خواتین کر رہی ہیں۔اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے یہ تحریک کسی مخصوص قبیلے کی بجائے بلوچستان کی قومی تحریک ہے۔بلوچستان میں جبر اور خوف کی انتہا ء نے نوجوانوں،خواتین،بچوں اور بزرگوں کو موت کے خوف سے آزاد کر دیا ہے۔بلوچستان پڑے لکھے نوجوان پہاڑوں کا رخ کر رہے ہیں،جن میں ان نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے جنہوں نے پنجاب سمیت سے دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ریاستی جبر کے خلاف نفرت کی انتہاء یہ ہے کہ خواتین اور نوجوان رضاکارانہ طور پر خودکش حملے کر رہے ہیں۔

دوسری طرف گزشتہ 77 سال کے جبر،استحصال اور محرمیوں کو نظر انداز کر کے فوجی اور سیاسی اشرافیہ حسب روایت اس مسلح تحریک کو ایسی دہشتگردی قرار دے رہی ہے،جس میں محض بیرونی قوتوں کی سازش شامل ہے۔ریاستی بیانیے کے مطابق بلوچستان میں کوئی قومی تحریک وجود نہیں رکھتی۔جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے، وہ دشمن ممالک کا پروپگنڈہ اور سازش ہے۔کچھ نام نہاد ترقی پسند اور جمہوریت پسند بھی بلوچ عوام کے حق خود ارادیت کو بیرونی مداخلت کی آڑ میں مسترد کرتے ہیں۔اگر بلوچ عوام واقعی پاکستانی ریاست میں رضاکارانہ طور پر رہ رہے ہیں تو بلوچ عوام کے حق خودارادیت جیسے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے ریفرنڈم کروایا جائے۔اس کے علاوہ دیگر جمہوری مطالبات کو تسلیم کیا جائے جو لاکھوں بلوچ خواتین اور بچے پرامن احتجاج کے ذریعے ریاست سے کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے وسائل پر وہاں کے محنت کشوں کا حق تسلیم کیا جائے۔تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ماروائے عدالت قتل اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث تمام ریاستی اہلکاروں کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جائے۔وہاں کے محنت کشوں کو غربت، بیروزگاری، جہالت، لاعلاجی اور پسماندگی سے نجات دلائی جائے تو دشمن کا منہ خود ہی بند ہو جائے گا۔

تشدد کی مخالفت کی آڑ میں نہاد انسانی حقوق کی علمبر دار سول سوسائٹی بھی ریاست کے بیانیے کا شعوری یا لاشعوری طور پر پرچار کر رہی ہے۔ریاست اس واقع کو پاکستانی اور پنجابی قوم پرستی کو ابھارنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔سیاسی اور فوجی قیادت کے دھمکی امیز بیانات اشارہ ہیں کہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر فوجی جبر میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ ایک اور فوجی آپریشن کا اعلان کیا جا سکتا ہے یا مشرف دور سے جاری فوجی آپریشن کی شدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔فوجی آپریشن،جس میں بڑے پیمانے پر نہتے عوام کو جبر اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اس پر یہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔پاکستان کے محنت کشوں اور انقلابیوں کو بلوچستان میں فوج کشی اور چین سمیت تمام سامراجی ممالک کی لوٹ مار اور امریکی اور عرب ممالک کی مداخلت کی مخالفت کرنی چاہیے۔

اس واقعے کے بعد ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے درمیان آزادی اور انقلاب کی حکمت عملی پر بحث بھی جاری ہے۔مسلح جدوجہد اور پرامن سیاسی جدوجہد کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دی جا رہی ہیں۔ قومی آزادی کی جدوجہد ہو یا انقلاب کے ذریعے سماجی تبدیلی کی جدوجہد،ان کا کوئی ایک مخصوص طریقہ نہیں ہے۔دنیا میں چلنے والی آزادی اور انقلاب کی تحریکوں کے مختلف تجربات ہمارے پاس ہیں۔ دنیا کے دو بڑے انقلابات، بالشویک انقلاب اور چین کا انقلاب،مختلف طریقوں سے رونما ہوئے۔اسی طرح قومی آزادی کی تحریکوں کے تجربات ہیں۔جدوجہد کی حکمت عملی کا تعین پہلے سے طے شدہ اصولوں اور ضوابط کے مطابق نہیں کیا جا سکتا،بلکہ مختلف ملکوں اور علاقوں میں تغیر پذیر معروضی حالات کے مطابق حکمت عملی کا تعین کیا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر کوئی بھی انقلاب مکمل پرامن نہیں تھا،کیوں کہ قابض ریاستیں اور استحصالی طبقات کبھی بھی پرامن اور رضاکارانہ طور پر اپنی حاکمیت سے دستبردار نہیں ہوتے۔بائیں بازوں کے رحجانات میں مسلح ہونے کے وقت پر اختلافات ہیں۔طبقاتی سماج میں مکمل امن اس وقت ہوتا ہے،جب حکمران طبقہ جبر، مراعات، نظریات اور روایات کی بنیاد پر محنت کشوں کو مخصوص وقت کے لیے کنٹرول کرتا ہے۔عدم تحریک کے دوران بھی سماج کی سطح کے نیچے طبقاتی تضادات اور تصادم موجود ہوتے ہیں۔یہی تضادات اور تصادم جب شدت اختیار کرتے ہیں تو تحریکیوں اور انقلابات کو جنم دیتے ہے۔ محنت کشوں کی تحریکیں اس وقف تک پرامن رہتی ہیں،جب تک وہ جنگ کی تیاری کرتی اور صف بندی کرتی ہیں۔مہاتماگاندھی کی طرح عدم تشدد کو حتمی اصول کے طور پر قبول کرنا غلامی اور استحصال کو ہمیشہ کے لیے قبول کرنے کے مترادف ہے۔حکمران طبقے کے حملے محکوموں کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔اسی طرح محکوم قومیں بھی امن کو جنگ کی تیاری کے وقت کے طور پر قبول کر سکتی ہیں۔بقول کارل مارکس آپ تنقید کے ہتھیار سے ہتھیار کی تنقید کو شکست نہیں دے سکتے ہیں۔ مادی قوت کو مادی قوت ہی شکست دے سکتی ہے۔اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی عوام سے امن کی اپیل اس وقت تک نہیں کی جا سکتی ہے،جب تک اسرائیلی جنگ بندی اور اپنے قبضے کا خاتمہ نہیں کرتا ہے۔اسی طرح یوکرین کے محنت کشوں کو روس کی مسط کردہ جنگ میں دفع کا حق ہے۔

دہائیوں سے بلوچستان میں جنگی کیفیت ہے۔ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو اب تک جبری گمشدہ کیا گیا ہے،مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں،اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔براہ راست ریاستی جبر کے علاوہ ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والی بلوچستان کی مافیائی حکمران اشرافیہ کا جبر بھی موجود ہے۔اس حکمران اشرافیہ کی معاشی بنیاد ریاستی اہلکاروں کے ساتھ مل کر بارڈر سمگلنگ اور جنگی معیشت ہے جو افغان ڈالر جہاد کے بعد اس خطے میں استوار ہوئی ہے۔ان مقامی سرداروں کی نجی جیلیں اور مسلح جتھے ہیں۔ریاست کی جانب سے ان مقامی غنڈوں کو بلوچ عوام کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔یہاں ہمیں قابض ریاست کے علاوہ بلوچستان کی مقامی حکمران اشرفیہ کا رجعتی کردار نظر آتا ہے۔اس ریاستی بربریت نے بلوچستان میں مسلح اور سیاسی تحریکوں کو جنم دیا ہے۔

ریاستی دہشت گردی کے علاوہ معاشی دہشت گردی بلوچستان کو تاراج کر رہی ہے۔عالمی سامراجی اجارہ داریاں کھربوں روپے کے قدرتی وسائل کو لوٹ رہی ہیں،مقامی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔بلوچستان میں معدنیات اور بندرگاہوں کے کاروبار میں پاکستانی حکمران طبقے کے ساتھ مختلف سامراجی طاقتیں شامل ہیں۔چین سمیت دیگر سامراجی طاقتوں کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے بلوچ عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔سرمایہ داروں کی منافعوں کی ہوس لاکھوں انسانوں کی نسل کشی سے گریز نہیں کرتی۔دنیا کے دیگر خطوں کی طرح سرمایہ دارنہ نظام میں بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت اور معدنی وسائل کی وجہ سے وہاں کے باسی پسماندگی اور غربت کے ساتھ انتشار اور خونریزی کا شکار ہیں۔

بلوچستان میں متحارب سامراجی ممالک کی مداخلت موجود ہے۔یہ طاقتیں اپنے مفاد کے لیے مذہبی فرقہ وارانہ تنظیموں سمیت قومی آزادی کی مسلح تحریکوں کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔دوسری طرف مسلح قومی تحریکوں کی بھی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ مسلح جدوجہد کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں۔سویت یونین کی موجودگی میں دنیا میں ترقی پسند قومی مسلح تحریکیں موجود تھی۔ان میں سے اکثر تحریکیں قومی آزادی سے آگے بڑھ کر سرمایہ دارنہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کا موجب بنی۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد قومی تحریکوں میں تنگ نظر قوم پرستی کا رحجان غالب رہا ہے جن کو مختلف سامراجی قوتوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔

بلوچستان کی مسلح تحریکیں تاریخی طور پر بائیں بازو کے نظریات کے زیر اثر رہی ہیں۔ امریکی سامراج کے مفادات کے لیے مذہبی قوم پرستی کے نظریات کی بنیاد پر وجود میں آنے والی پاکستانی ریاست کا روز اول سے ہی اس خطے میں بسنے والی قوموں سے گہرا تضاد تھا،جس کا اظہار بنگلہ دیش کی علیحدگی اور بلوچستان میں مسلح بغاوتوں سمیت مختلف نوعیت کی قومی تحریکوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ان میں سب سے بڑی تحریک بلوچستان میں قومی آزادی کی مسلح جدوجہد تھی۔

بلوچستان میں مسلح جدوجہد کی ابتدا ء بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔اس کے بعد 1960 کی دہائی میں جب نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تو چھوٹی مسلح تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کے نظریہ دان شیر محمد عرف شیروف مری تھے جو مارکسی نظریات رکھتے تھے۔بلوچستان میں منظم مسلح جدوجہد کا آغاز1970 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان کی پہلی منتخب اسمبلی اور حکومت کو معطل کر دیا۔اس وقت بلوچستان میں بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت تھی جس کو معطل کر کے اس کے قائدین کو گرفتار کر لیا گیاتھا۔اس مسلح تحریک کو پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایرانی شہنشاہیت کی مدد سے ایک بڑے فوجی آپریشن کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔اس تحریک میں ہزاروں بلوچ گوریلا اور فوجی مارے گئے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے گئے جس کے بعد مسلح تحریک کا خاتمہ ہوا۔

بلوچستان میں جاری حالیہ تحریک کا آغاز 2000ء کے بعد ہوا۔اس تحریک نے شدت اس وقت اختیار کی جب مشرف نے اکبر بگٹی کو قتل کروایا۔ان دو دہائیوں میں ریاست کی جانب سے جبر کی نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ریاستی جبر میں شدت کے ساتھ عسکری اور سیاسی تحریک بھی شدت اختیار کرتی رہی ہے۔گزشتہ چند سالوں میں نہ صرف بلوچستان کی سیاسی تحریک نے بڑے پیمانے پر عوام اور بالخصوص خواتین کو متحرک کیا ہے،بلکہ بلوچ مسلح تحریک کی گوریلا کاروائیوں کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

عسکری کاروائیوں میں شدت کے باوجود بلوچ مسلح تحریک کے نظریاتی زوال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ماضی کی بلوچ قومی آزادی کی تحریک پاکستانی ریاست کے سامراجی قبضے کے خلاف ہی نہیں سامراجی نظام کے خاتمے کے لیے سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔اس بنیاد پر بلوچستان سے باہر بھی اس تحریک کی بڑے پیمانے پر حمایت موجود تھی۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد دیگر قومی تحریکوں کی طرح بلوچ عوام کی تحریک پر بھی رجعتی اثرات مرتب ہوئے۔اس نظریاتی زوال پذیری کا اظہار دیگر قوموں کے نہتے مزدوروں پر حملوں اور قتل کے علاوہ پنجاب اور دیگر قوموں کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے محنت کشوں کے خلاف نسلی تعصب کے ذریعے ہورہا ہے۔اس قسم کے اقدامات اور تنگ نظر قوم پرستی خود بلوچ قومی تحریک کے لیے زہر قاتل ہے،جو ایک طرف ریاستی جبر کو جواز مہیا کرتی ہے اوردوسری طرف دیگر قوموں میں حمایت کو ختم کرتی ہے۔بلوچ قومی تحریک کے فطری اتحادی پاکستان سمیت ساری دنیا کے استحصال زدہ محکوم طبقات ہیں،نہ کہ سامراجی طاقتیں جو براہ راست بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کی ذمہ دار ہیں۔امریکہ سمیت دیگر سامراجی ممالک کو بھی بلوچستان کے ساحل اور قدرتی وسائل سے دلچسپی ہے،نہ کے بلوچ محنت کشوں کے مسائل میں۔سامراجی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی نمائندہ ریاستوں کو محنت کشوں کے اتحاد کے ذریعے ہی حتمی شکست دے کر قومی جبر سمیت ہر قسم کے جبر کا خاتمہ ممکن ہے۔

Aatish Khan
+ posts