Month: 2025 مارچ


ہمیں فیس بک پر فالو کریں

’روزنامہ جدوجہد‘ پاکستان کا واحد ابلاغیاتی ادارہ ہے جو بلا ناغہ ترقی پسند، محنت کش اور سوشلسٹ نقطہ نظر کے ساتھ ایسی خبریں، تجزئے اور اطلاعات فراہم کرتا ہے جو مین اسٹریم سرمایہ دارمیڈیا سے یا تو غائب ہوتی ہیں یا اس انداز سے پیش کی جاتی ہیں کہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے۔

انقلاب روس میں خواتین کا کردار اور 8 مارچ کے تقاضے

ہر سال 8مارچ کو محنت کش خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ انسانی سماج کی ترقی میں عورت کے کردار کو ہمیشہ پست کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم دنیا بھر کے بڑے انقلابات سمیت عورت کی نجات اور حقوق کی جدوجہد میں خواتین کی جدوجہد کی ایک درخشاں تاریخ ہے۔ یہ سماج کی وہ پرت ہے جس نے ہر سطح پر سامنے آنے اور خود کو منوانے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے۔ گھر سے شہر، شہر سے دیس اور دیس در دیس یہ کوشش اور مشقت چلتی رہی،یہاں تک کہ اس نے عالمی سطح پر گردانے جانے تک کی منزل کو بھی سر کر لیا۔

عورت کی آزادی ایک آزاد انسانی سماج کی متقاضی!

سرمایہ داری کے بحران نے معاشی گراوٹ، سیاسی چپقلشوں، قحط، جنگوں اور ماحولیاتی تباہی کو زیادہ بڑے پیمانے پر بڑھایا ہے۔ جبر و تشدد، ناانصافی اور استحصال کو مزید تیز تر کردیا ہے۔ دوسری طرف تیسری دنیا میں خاندانوں کو درپیش معاشی مسائل نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ جہاں عورتیں پہلے ہی دوہرے استحصال کا شکار تھیں، وہیں ان معاشی مسائل کی زدمیں آکر تہرے استحصال کا شکار ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ گھر سے نکل کر کام کی جگہ تک ایک عورت کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ذہنی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جانا سر فہرست ہے۔

سرمایہ داری، صنفی استحصال اور عورت کی اقتصادی حیثیت

سرمایہ دارانہ انقلاب جب اپنے جوبن پر تھا، تو اس نے محنت کش طبقے کو کچھ حاصلات دینے میں کامیابی حاصل کی۔تاہم جیسے ہی یہ نظام اپنے اندرونی تضادات میں الجھنے لگا، بحرانات نے جنم لیا اور وہی حاصلات، جو کبھی مزدور طبقے کی جیت سمجھی جاتی تھیں، یکے بعد دیگرے واپس چھینی جانے لگیں۔ آج سرمایہ داری اپنی متروکیت کے آخری مراحل میں ہے، اور اس کے زوال کی نشانیاں واضح ہو چکی ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ اگر سماج کے ایک حصے پر دولت اور تعیش کا ارتکاز بڑھ رہا ہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دوسرے حصے پر محرومی اور ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گلگت بلتستان: چلاس میں مظاہرین نے مذاکرات میں تاخیر پر واپڈ دفاتر کو تالے لگا لیے

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے شہر چلاس میں جاری احتجاج بدھ کو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب مشتعل مظاہرین واپڈا اور دیامر بھاشا ڈیم پر کام کرنے والی نجی کمپنیوں کے دفاترمیں گھس گئے اور حکام کو دھمکیاں دیں کہ وہ اپنی سرگرمیاں معطل کر دیں اور عمارتوں کو تالے لگانے سے پہلے خالی کر دیں۔

علی وزیر کی رہائی ایک بار پھر رک گئی، نئے مقدمے میں گرفتاری ظاہر کر لی گئی

بدھ کے روز انسداد دہشت گردی عدالت سکھر نے ایک آخری ایف آئی آر میں بھی ضمانت منظور کر لی تھی۔ تاہم بنک کا وقت ختم ہوجانے کی وجہ سے ضمانتی مچلکے جمع نہیں ہو سکے تھے۔جمعرات کے روز ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے بعد جب ریلیز آرڈر سکھر جیل عملے کو دیا گیا تو اس وقت وکلاء کو بتایا گیا کہ علی وزیر کو نوشہرہ فیروز میں درج انسداد دہشت گردی کے ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کی رہائی ممکن نہیں ہے۔

آصف جاوید کو انصاف دلوانے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان

لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں احتجاجاً خود کو آگ لگانے والے مزدور رہنما آصف جاوید کی فیملی کو انصاف دلوانے کے لیے گزشتہ روز لاہور پریس کلب میں آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن،حقوق خلق پارٹی اور مزدور کسان پارٹی نے آصف مرحوم کی فیملی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

علی وزیر کی ایک اور مقدمے میں ضمانت منظور، آج رہائی کا امکان

سابق ممبر قومی اسمبلی اور رہنما پی ٹی ایم علی وزیر کی انسداد دہشت گردی عدالت سکھر نے ایک آخری ایف آئی آر میں بھی ضمانت منظور کر لی ہے۔ بدھ کے روز عدالت نے علی وزیر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم بنک کا وقت ختم ہوجانے کی وجہ سے ضمانتی مچلکے جمع نہیں ہو سکے۔ آج ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے بعد ان کی رہائی کا امکان ہے۔

صرف ایک روز میں 41 بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا: ماہ رنگ بلوچ

دو روز قبل ماہ رنگ بلوچ نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح تمام انسانی حقوق کو روند رہا ہے۔ جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے، ٹارگٹ کلنگ اور بلوچ نسل کشی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ آج بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ان مظالم میں پاکستان کے تمام ادارے برابر کے شریک ہیں اور آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 7دہائیوں سے بلوچستان میں ایک ہولوکاسٹ جاری ہے، جس پر عالمی برادری بھی چشم پوشی کر رہی ہے۔

آصف جاوید کے قاتلوں کے خلاف فوری مقدمہ درج کیا جائے: فاروق طارق

حقوق خلق پارٹی کے صدر فاروق طارق نے کہا ہے کہ آصف جاوید کی موت پاکستان کے عدالتی نظام پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نیسلے پاکستان نے آصف جاوید کو بغیر کسی انکوائری اور نوٹس کے نوکری سے نکال دیا تھا۔ وہ چھ بچوں کے والد تھے، انصاف کے حصول کے لیے انہیں اپنا گھر اور گاڑی بیچنی پڑی، مگر پھر بھی انہیں انصاف نہ مل سکا۔