دیکھئے مدیر ’جدوجہد‘ فاروق سلہریا کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان:’یوکرین جنگ: اصولی سوشلسٹ موقف‘

دیکھئے مدیر ’جدوجہد‘ فاروق سلہریا کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان:’یوکرین جنگ: اصولی سوشلسٹ موقف‘
یوکرین پر روس کے حملے اور اس کے ساتھ جڑے سامراجی تضادات کے حوالے سے بالخصوص جنوب ایشیاء اور بالعموم دنیا بھر میں بائیں بازو کی رائے منقسم رہی ہے۔ روس نواز بائیں بازوکے رہنماؤں نے پہلے پہل روس کو جارح تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا اور یوکرین کی چند ہفتوں میں فتح کی پیش گوئی کر دی۔ بعد ازاں بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ روس نوازبائیں بازو کے موقف میں بھی تبدیلی آتی گئی، لیکن ہر نیا تناظر چند ہی روز میں غلط ثابت ہوتا آیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب نیو لبرل پالیسیاں ریاست کو عوامی خدمات سے ہاتھ کھینچنے کے قابل بناتی ہیں، جب یونین سازی کو جرم بنانے اور مالکان کے خزانے کو بھرنے کے لیے کام کے اوقات میں توسیع کے لیے لیبر کوڈز کو دوبارہ لکھا جارہا ہے، جب فیکٹریوں کی بندش اور پبلک سروس یونٹس کی نجکاری مزدوروں کو غیر رسمی بنانے کے قابل بنا رہی ہے، جب دائیں بازو کی فاشسٹ ریاست ہر روز تشدد کو معمول پر لا رہی ہے اور ممکنہ طور پر ہر روز تشدد کو معمول بنتا جارہا ہے۔ایسے وقت میں تحفظ کے لیے ہر روز اس جنگ کو منظم کرنے کے لیے کھیتوں، کارخانوں، گھروں،ہسپتالوں، اسکولوں اور گلیوں میں کام کرنے والے لوگوں کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر نہیں کہ بلا خانہئ سلاسل میں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی سطح پر غصے کا اظہار کیوں کیا اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ڈیل کرنے سے انکار کیوں کیا؟یہ یاد رکھنے کا وقت ہے کہ یوکرین کے لیے کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کثیر قطبی عالمی نظام کے رئیل اسٹ وکیل جان میئرشائمرسے بہتر کون جانتا ہے، جنہوں نے امریکہ کی قیادت میں مغرب پر روس کو جنگ پر اکسانے کا مسلسل الزام لگایا ہے۔
جب کوئی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سوچتا ہے تو سعادت حسن منٹو کا بھی خیال آتا ہے۔ 1955 میں شائع ہونے والی ان کی ہڈیوں کو ٹھنڈا کرنے والی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘کی یاد آتی ہے، جس میں 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہونے والی خوفناک انسانی حالت اور مصائب کی عکاسی کی گئی تھی۔ منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام کو امر کر دیا۔ اب منٹو کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم کہنے کی حد تک وہ لازم و ملزوم ہیں۔
دیکھئے مدیر ’جدوجہد‘ فاروق سلہریا کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان:’پاکستان کے پوتن وادی انقلابیوں کی سٹپٹاہٹ اور یوکرین‘
حالیہ امریکی انتخابات کے بعد امریکہ میں عنان حکومت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ دوسری مرتبہ حکومت میں آئے ہیں،لیکن دوسرا دور شاید نہیں بلکہ یقینا ٹرمپ کے پہلے دور سے بہت زیادہ مختلف ہونے جا رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان انتخابات میں جس فیصلہ کن انداز میں اس ریپبلکن امیدوار کو برتری ملی ہے اس سے اس کے اعتماد کا پیمانہ پہلے سے کہیں زیادہ اوپر گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسٹر ٹرمپ کے گرد فیصلہ کن پوزیشنوں پر امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ موجود ہیں۔ اس دور کا کمال یہ ہے اور ہو گا کہ یہ لوگ بشمول مسٹر ٹرمپ نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا کو ایک نئے اور انوکھے انداز میں چلانا چاہ رہے ہیں۔ کلاسیکی سرمایہ داری کے بر عکس اس نوزائیدہ سرمایہ دارانہ دھڑے کے خیال میں دنیا کا تمام تر نظم و نسق یا تو کاروباری لین دین ہے یا پھر تاش کا کھیل۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی اور ہراسانی کے معاملات میں اضافہ اس نوآبادیاتی نظام کی ناکامیوں کا واضح اظہار ہے۔ ان واقعات نے خواتین کے خلاف تشدد کو جواز فراہم کرتے نظام کی سفاکیت سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ وہ ادارے جن کا مقصد عوام کو سہولت اور تحفظ فراہم کرنا ہے،انہی کے ہاتھوں اب عام شہریوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں ہیں۔
(امریکی اکیڈیمک)میئر ش یائمرایک رئیل اسٹ ہیں، جنہیں بھارتی بایاں بازو اس لیے بھی پسند کرتا ہے کہ وہ روس کی جنگ کے لیے نیٹو اور امریکہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پیوٹن نے ’امن‘کے لئے کیف میں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری یوکرین’روس کے لیے ایک وجودی خطرہ‘ ہے، اور اسی لیے یوکرین کو بیلا روس یا قازقستان جیسا ہونا چاہیے۔