لاہور (جدوجہد رپورٹ) بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ہفتوں سے جاری دھرنے میں ملک مخالف تقریر کے الزام میں گرفتار کیے گئے 80 سالہ بزرگ سیاست دان یوسف مستی خان کو گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔انہیں جمعرات کو گوادر پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
یوسف مستی خان کی گرفتاری کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کیا جا رہا تھا۔ مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں، بائیں بازوکی تنظیموں اور عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں نے انہیں فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
بائیں بازو کی عوامی ورکرز پارٹی کے صدریوسف مستی خان کا تعلق بلوچستان بلوچستان کے علاقے جیونی سے ہے۔ 80سالہ یوسف مستی خان کینسر کے مریض ہیں۔
پولیس نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے 8دسمبر کو گوادر میں ’حق دو بلوچستان تحریک کے دھرنے میں ریاست مخالف تقریر کے دوران کہا کہ پاکستان نے بزور طاقت بلوچستان پر قبضہ کیا۔ حکومت نے بلوچوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔
پولیس نے یوسف مستی خان پر مسلح افواج اور خفیہ اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقریرکا بھی الزام عائد کیا۔
یوسف مستی خان اور تحریک کے سربراہ ہدایت الرحمان کے خلاف درج مقدمات میں ملک کے خلاف لوگوں کو جنگ پر اکسانے اور ملک کے خلاف بغاوت کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
یوسف مستی خان کی گرفتاری کے بعد دھرنے کے قائدین نے تھانے کے گھیراؤ کا اعلان کیا تھا لیکن پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور ہدایت الرحمان کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔ شہر بھر سے خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد دھرنے میں پہنچ گئی تھی اور رات گئے تک شہر میں صورتحال کشیدہ رہی ہے۔
دوسری طرف دھرنے کے شرکاء نے آج جمعہ کو احتجاجی جلوس کی کال دے رکھی ہے، جس میں دیگر اضلاع سے بھی لوگ پہنچ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گوادر میں یہ دھرنا لگ بھگ ایک ماہ سے جاری ہے۔ مظاہرین گوادر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، غیر قانونی مچھلی شکار کی روک تھام، لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔