طنز و مزاح

ماب لنچنگ سے بچنے کے چند گھریلو ٹوٹکے

کنور خلدون شاہد

اگر آپ کا تعلق پاکستان سے ہے تو یقینا َآپ ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد سے بخوبی ہم آشنا ہوں گے۔ یہ ہماری ثقافت کا اہم حصہ ہے اور ہر پاکستانی بذاتِ خود یا بذریعہ عزیز و اقارب کم از کم ایک لنچنگ کی سیاحت کر چکا ہو گا۔ نئی پیڑی تو بلا شبہ ماب لنچنگ کے ناقابل فراموش قصے کہانیاں سنتے ہوئے ہی بڑی ہو رہی ہے۔

لیکن جہاں یہ تماشا ناظرین کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے وہیں اس سے منسلک چند خطرات بھی ہیں۔ پر گھبرانے کی کوئی بات نہیں کیونکہ عموماً ایسی مہم جوئی میں تھوڑا بہت رسک ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ کوہ پیمائی ہو، پیراگلائڈنگ ہو، یا سکوبا غوطہ خوری ہو، ایکسٹریم سپورٹ کا اصل لطف انھی خطرات سے دوبالا ہوتا ہے۔ احتیاط بہرحال لازماً کرنی چاہیے۔

اب چونکہ اس ثقافتی سرگرمی میں پیش رفت نظر آ رہی ہے اور ہر دوسرے دن کسی نہ کسی ضلع میں موت کا تماشا لگا ہوتا ہے تو آپ کی سہولت کے لئے ہم نے چند احتیاطی تدابیر مرتب کی ہیں جس سے آپ اس کھیل میں شریک تو ضرور ہوں گے لیکن تمام خطرات سے بچے رہیں گے۔ ان کو آپ ماب لنچنگ کے مضر اثرات سے بچنے کے گھریلو ٹوٹکے کہہ سکتے ہیں۔

جس طرح فٹبال میں ’آف سائڈ‘ یا کرکٹ میں ’ایل بی ڈبلیو‘ کے قوانین ان کھیلوں کو سرسری طور پر دیکھنے سے سمجھ نہیں آ سکتے اسی طرح ماب لنچنگ سے بھی مکمل طور پر آگاہی کے لئے اس کو ہر زاویے سے دیکھنا ضروری ہے۔ ویسے تو ماب لنچنگ ایک قانون سے ہی جڑی ہے لیکن اس کے اپنے کوئی تحریری قواعد و ضوابط نہیں لہٰذا تمام شرکا اپنی جبلت پر ہی عمل کرتے ہیں۔

بنیادی طور پر ماب لنچنگ میں 2 حریف ہوتے ہیں۔ ایک طرف ماب یا ہجوم جس کی تعداد بیس سے لے کر بیس کروڑ تک ہو سکتی ہے اور دوسری طرف گستاخ جو ایک فرد سے لے کر ایک اقلیتی مذہب یا فرقے پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ پر جو تماشا کھلے عام سجتا ہے اس میں عموماً ایک دو گستاخ ہی ہوتے ہیں۔ اگر آپ محفوظ رہتے ہوئے اس کھیل سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو آپ کا دھیان بس اس بات پر ہونا چاہئے کہ وہ گستاخ آپ نہ ہوں۔

اب چونکہ اس ثقافتی مشق میں کوئی رضاکارانہ طور پر تو ہجوم کا حریف بنتا نہیں لہٰذا مذکورہ بالا حفاظتی اقدام اتنا آسان نہیں لیکن مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کر کے آپ اس کھیل میں اپنا قرعہ نکلنے کے امکانات کم کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ آپ کے پاسپورٹ پر یا شناختی کارڈ کے لئے نادرا کو دیئے گئے ڈیٹا پر مذہب کے خانے میں کیا لکھا ہے۔ اگر اس میں اسلام نہیں لکھا تو پھر کوئی بھی ٹوٹکا آپ کے کسی کام کا نہیں۔ ایسے تمام افراد کے لئے بس ایک ہی ضروری اقدام ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں کیونکہ اس کے بغیر تو وہ کوڑے کے ڈھیر یا پانی کے غلط گلاس سے بھی گھیرے جا سکیں گے۔ ہاں البتہ کوئی پوچھے تو انھیں دھڑلے سے اور بغیر کسی شک و شبہ کی گنجائش دیے کہیں کہ آپ نے مکمل آزادی سے اسلام قبول کیا ہے اور ملک میں مذہب کی جبری تبدیلی کی خبریں بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔

یہاں پر یہ دہرانا ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر کے اہل ہونے کے لئے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کا آفیشل مذہب اسلام ہونا ضروری ہے۔ بے شک آپ اندر سے دہریے ہوں اگر آپ کے پاس متعلقہ دستاویزات ہیں تو آپ ان ٹوٹکوں کو بخوبی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ کے بیشتر الہیاتی عقائد اسلامی مطابقت سے ہوں لیکن آپ کو سرکاری طور پر دائرے سے خارج کر دیا ہو تو آپ ان تدابیر سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے بلکہ وہ آپ کی لنچنگ کی وجہ بن جائیں گے۔

اب یہاں پر آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا آپ کے نام کے سابقہ میں ’مولانا‘ لگتا ہے یا لگ سکتا ہے؟ ہمارے الگورتھم کے مطابق اگر آپ کو ’مولانا‘ کہنے والوں کی تعداد ماب میں موجود افراد کا مربع جڑ ہے یا اس سے زیادہ ہے تو آپ محفوظ ہیں۔ اس مساوات میں متغیر یا ویری ایبل آپ کا مسلک ہے لیکن تمام حساب کتاب میں سنی اسلام سے جڑے ’مولانا‘ ہونے سے آپ کا حفاظتی گراف لامحدودیت یا انفینٹی کا رخ کر لیتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے سے بڑے ہجوم کی آپ کو گستاخ ثابت کرنے کی صلاحیت آپ کے ان سب کو گستاخ ثابت کرنے کی صلاحیت سے کئی گنا کم ہے۔

اسی طرح اب آپ اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ ایک ایسے سیاستدان ہیں جنھوں نے اس کھیل میں موب کی ببانگ دہل حمایت کی ہو یا کم از کم کسی جہادی ٹیم کے نمایاں سپورٹر رہے ہوں تو آپ کے محفوظ رہنے کے امکانات کسی بھی عام انسان سے کافی زیادہ ہیں، لیکن اگر آپ سیاست دان ہوتے ہوئے اس کھیل پر یا قوانین پر ہی تنقید کر بیٹھیں گے تو سب سے پہلے آپ کا نمبر آئے گا۔ باقی یہ کہ مولانا حضرات اور ہائی پروفائل جہادی فین تو نازک ترین صورت حال میں بھی بس معذرت کر کے گستاخ بننے سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔

باقی تمام عام افراد اپنی حفاظت کسی ایسے ثبوت سے کر سکتے ہیں جس سے وہ ہجوم کو یہ یقین دہانی کر سکیں کہ وہ تو خود ماب کا حصہ ہیں یا ہونا چاہئیں۔ ایسے میں اگر آپ اپنے فون میں یا بٹوے میں ایسی کوئی تصویر رکھیں جس میں کسی مسلک کو واجب القتل قرار دیا جا رہا ہو تو اس کی بنا پر ماب کے لئے آپ کو مستحق ماننا نسبتاً آسان ہو جائے گا۔ مزید اسناد آپ ماب سے منسلک نعرے لگا کے حاصل کر سکتے ہیں مثلاً فلانہ کافر یا فلانے کی سزا سر تن سے جدا۔

یہاں ایک بات واضح ہو گئی ہو گی کہ تمام ٹوٹکوں کا رخ ہجوم سے وابستگی کے اظہار کی طرف ہے۔ اس سلسلے میں آپ کسی ماب میں باقاعدہ طور پر شریک ہو کر مطلوبہ تجربہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ پر ہر حال میں یہ جان لیں کہ اس کھیل میں یا تو آپ ماب ہیں یا گستاخ، ان کے علاوہ کوئی تیسرا انتخاب ممکن نہیں۔

Kunwar Khuldune Shahid
+ posts

کنور خلدون شاہد ایک صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ ’دی ڈیپلومیٹ‘ کے پاکستان میں مقیم نمائندہ ہیں، ’دی سپیکٹیٹر‘ کے لیے بطور کالم نگار کام کرتے ہیں اور پاکستانی سیٹائر اخبارات ’دی ڈیپینڈنٹ‘ اور ’خبرستان ٹائمز‘ کے شریک بانی ہیں۔