”سویرا ہونے والا تھا اور ستارے تیزی سے جھلملا رہے تھے۔ ان کے جھرمٹ میں کتاب اپنی روشنی بکھیر رہی تھی۔ میں نے کتاب کا ورق پلٹا تو صفحے کو چھونے کا لمس ایک مخصوص بو، خوشبودار احساس اجاگر کرتے ہوئے یہ سوال چھوڑ گیا کہ کتاب کیا ہے؟ یہ سوال کس قدر تیکھا تھا۔ میں حافظے کی بھول بھلیوں میں ابھی اس کا جواب ٹٹول ہی رہا تھا کہ کانوں میں آواز کا سنہری قطرہ ٹپکا اور اس سے پیدا ہونے والے گونج کہنے لگی کہ کتاب تو ایک بیتے ہوئے لمحے کا نام ہے۔ یہ وقت کا جلترنگ ہے۔ ایک سریلا ساز ہے۔ گہری رات میں مہکتا ہوا روشن چاند ہے۔ یہ خوابوں کا قافلہ اور گزرے وقت کی گزارش ہے۔ بھید وں کی راگنی اور گردشِ رنگِ چمن کو دیکھنے کا درپن ہے۔ کتاب، قدرت کا انمول رتن ہے۔“
