مسعود قمر
سترکی دہائی میں لائل پور شہر میں ایک اَنو جیب کترا تھا۔ سارا شہر اسے جانتا تھا کہ یہ جیب کترا ہے۔ وہ ویگن میں بیٹھتا تو لوگ اپنی دھوتی کی ڈھب اور قمیض کی جیبوں پہ ہاتھ رکھ لیتے مگراَنو جیب کترے کا کمال تھا کہ وہ پھر بھی اپنا کام کر جاتا تھا۔ بہت کم ہوا کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔ جب کوئی چارا نہ چلتا تو وہ ویگن میں چوہا چھوڑ دیتا اور چوہے چوہے کا شور مچا دیتا‘لوگ چوہا چوہا کرتے ایک دوسرے پہ گر رہے ہوتے اور اَنو جیب کترا کسی کی جیب کتر کر یہ جا وہ جا۔
موجودہ حکومت بھی اَنو جیب کترا ہے۔ لوگوں کو اب پتا چل گیا ہے کہ یہ جیب کتری حکومت ہے۔ لوگ اپنی جیبیں مظبوطی سے پکڑے بھی ہوتے ہیں مگر یہ حکومت کوئی نہ کوئی ہاتھ آیا چوہا عوام میں چھوڑ دیتی ہے۔ پھر ٹی وی پہ بیٹھے حکومت کے اَنوگلے پھاڑ پھاڑ کر چوہا چوہا کا شور مچانا شروع کردیتے ہیں اور لوگ چوہے کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ عوام کی جیب کتری جا چکی ہے۔
یہ جیب چاہے سیاسی ہو، عدالتی ہو، پارلیمانی ہو یا معاشی ہو بہر حال کٹ جاتی ہے۔
آج کل جیب کتری حکومت کے ہاتھ کشمیر آیا ہوا ہے۔ لوگوں کو کشمیر کے نعرے کے پیچھے لگا کر چپکے سے عوام کی جیبیں کتری جا رہی ہیں۔
دنیا میں ایسا پہلی بار ہواہے کہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران جج کو واٹس اپ پہ میسج آیا ہو کہ”آپ کاتبادلہ کر دیا گیا ہے اب آپ اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتے“۔ عوام کشمیر کشمیر کرتی رہی اور جیب کتری حکومت عوام کی عدالتی جیب کتر کرآرام سے بیٹھی ہے۔
کشمیر کے نعرے لگاتے لگاتے جیب کتری حکومت نے دو دن پہلے مزدوروں کی بہت بھاری معاشی جیب کتر لی جو مزدوروں نے بہت جدوجہد سے بنائی تھی۔ پنجاب حکومت نے ایک حکم کے ذریعے فیکٹریوں میں نافذ سوشل سکیم اور فیکٹریوں پہ انسپیکشن ٹیم کے چھاپوں پہ پابندی لگا کر مزدوروں کی جیب کاٹ لی۔
پہلے ہر فیکٹری مالک اپنے مزدوروں کا سوشل سیکیورٹی کارڈ بنانے کا پابند تھاتاکہ اگر مزدور بیمار ہو یا کسی حادثے کا شکار ہو تو علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکے۔ فیکٹری مالک جن مزدوروں کے کارڈ بنواتا تھا ان کی سوشل سیکیورٹی حکومتی خزانے میں جمع کراتا، مگر مالکان عموماً فیکٹری میں کام کرنے والے ساٹھ مزدوروں کے سوشل کارڈ بنوانے کی بجائے دس مزدوروں کے سوشل کارڈ بنوا لیتے اور باقی پچاس مزدور بغیراس کارڈ کے ہی کام کرتے۔ لیبر محکمے کی انسپیکشن ٹیم فیکٹریوں پہ چھاپے مار کر مالکان کو بھاری جرمانے کرتی اور باقی پچاس مزدوروں کے بھی کارڈ بنا دیتی۔ موجودہ حکومت جو اپنے آپ کو ریاست ِمدینہ کی حکومت کہتی ہے اور”دریائے فرات پہ ایک کتا بھی اگر بھوکا مرجائے تو خلیفہ ذمہ دار ہوگا“ کی دن رات مثالیں دیتی رہتی ہے۔ اس جیب کتری حکومت نے کشمیر کے نعرے کے غلاف میں لیبر پالیسی لپیٹ کر یک جنبش ِقلم لاکھوں مزدوروں کو پانچ دریاؤں کے کنارے بھوکا مار دیا ہے۔
جیب کتری حکومت کا نعرہ:کشمیر زندہ باد، عدالتی انصاف ٹھاہ، لیبر پالیسی ٹھاہ۔