Day: نومبر 6، 2024


صدارتی آرڈیننس: حق مانگنے کا حق بھی ڈی سی کی اجازت سے مشروط

یہ آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق سے مغائر ہی نہیں بلکہ سامراجی اور آمرانہ ہے، جس کے خلاف لڑنے کے علاوہ سیاسی قوتوں کے خلاف کوئی راستہ نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ اس خطے میں سیاسی، آئینی اور معاشی آزادیوں کے لیے واضح پروگرام اور منشور کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے اپنا اظہار کر رہی ہے۔

انسداد ہراسانی

٭ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کی قیادت میں منتخب’انسدادِ ہراسانی کمیٹیاں‘تشکیل دی جائیں۔
٭یونیورسٹیوں میں ہر کلاس اور سیکشن میں انتخابات کے ذریعے ایک مرد اور ایک خاتون نمائندہ منتخب کیا جائے، جن پر مشتمل ہر ڈپارٹمنٹ میں ایک ’انسدادِ ہراسانی وتفریق کمیٹی‘ تشکیل دی جائے۔
٭ ہر ڈپارٹمنٹ کمیٹی دو نمائندہ طالب علم منتخب کرے، اور اس طرح تمام ڈپارٹمنٹس سے منتخب ان نمائندوں پر مشتمل یونیورسٹی کی مرکزی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
٭کالجوں میں یہی عمل 11ویں اور12ویں جماعت کے منتخب طلبہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل کی صورت میں کیا جائے۔

کالعدم عسکری تنظیموں کی سرگرمیوں اور صدارتی آرڈیننس کے خلاف 16 نومبر کو احتجاج ہوگا

٭پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024ء ایک سامراجی، آمرانہ اور کالا قانون ہے، جسے فی الفور منسوخ کیا جائے۔
٭سیکولر، آزادی پسند، ترقی پسند اور سوشلسٹ نظریات کے حامل سیاسی کارکنوں کو دہریہ اور ملحد قرار دینے اور ان کارکنان کو سرعام قتل کرنے پر لوگوں کو اکسانے والے تمام عناصر کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔

پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں مالی رکاوٹیں اور تنازعات

پاکستان کے معاشی اصلاحات کی کوششوں میں ہونے والے نشیب و فراز کی عکاسی کرتے ہوئے، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل نمایاں رکاوٹوں کا شکار ہوا ہے۔ نگراں حکومت کی جانب سے اس نجکاری مہم کا آغاز کیا گیا، جس کی قیادت ریٹائرڈ بیوروکریٹ فواد حسن فواد کر رہے ہیں، جو کہ ایک سابق ڈی ایم جی افسر ہیں اور ان پر قومی احتساب بیورو (نیب) میں مقدمات بھی رہے ہیں۔