فاروق سلہریا
دو دن قبل کورین سیرئیل ’سکوئڈ گیمز‘ ایک مرتبہ پھر خبروں میں تھا۔ نیٹ فلکس پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والی اس ریکارڈ ساز سیرئیل میں مرکزی کردار گی ہُن (Gi Hun) ادا کرنے والے اداکار لی جنگ ہی (Lee Jung-jae) کو بیسٹ ایکٹر کی کیٹگری میں ایمی ایوارڈ ملا۔ بلاشبہ وہ اس انعام کے حق دار ہیں۔ ان کی جاندار اداکاری اس شاندار پیشکش کو ایک ناقابل فراموش سیرئیل بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
’سکوئڈ گیمز‘ میں پاکستانی ٹچ بھی دیا گیا ہے جس کا ذکر ذرا بعد میں آئے گا لیکن یہاں یہ نکتہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ اس سیرئیل سے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو بھی کچھ سبق لینے کی ضرورت ہے جسے ساس بہو کی لڑائیوں اور پدر سری نظام کی پرموشن کرنے سے فرصت نہیں ملتی۔ پاکستانی ڈرامے دیکھیں تو لگتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ شادیوں کا ہونا یانہ ہونا ہے۔
نہ صرف ’سکوئڈ گیمز‘ کی کہانی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین اظہار ہے بلکہ تجسس سے بھرپور اور روایتی کہانیوں سے ہٹ کر پیش کی گئی اس کہانی میں جنوبی کوریاکے سماج میں پائی جانے والی معاشی و سماجی نا انصافیوں، سرمایہ داری کے جبر اور مزدوروں کی ناکام جدوجہد کے اثرات پر تخلیقی انداز میں بات کی گئی ہے۔
کہانی گی ہن کے گرد گھومتی ہے۔ وہ بے روزگار ہے، طلاق کے بعد اپنی بیٹی سے بھی بمشکل مل پاتا ہے کیونکہ اس کی سابقہ بیوی دوسری شادی کر لیتی ہے۔ اس کا دوسرا شوہر، جو امیر انسان ہے، وہ گی ہن کو اپنے گھر کے قریب نہیں دیکھنا چاہتا۔ گی ہن کی بوڑھی ماں محنت مشقت سے گھر کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔
ایک دن گی ہن کوایک پر اسرار سا کردار ملتا ہے جو اسے لالچ دیتا ہے کہ اگر وہ ایک گیم میں حصہ لینا چاہے، جو خفیہ جگہ پر کھیلی جائے گی تو وہ 38 ارب وان (کورین کرنسی) جیت سکتا ہے۔ مالی حالات سے تنگ وہ مان جاتا ہے۔ اسے بے ہوش کر کے ایک ڈارمیٹری میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہاں ایسے ہی کئی اور کردار ہیں۔ کوئی چور ہے تو کوئی نشہ باز۔ سب معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ۔ ان سب کو کچھ ایسی گیمز کھیلنی ہیں جو کوریا میں بچے کھیلتے ہیں مگر…ہار جانے والے کو گولی مار دی جائے گی۔
پہلے راونڈ کے بعد جب کھلاڑیوں کو اس رُول کا پتہ چلتا ہے تو وہ بغاوت کر دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ معاہدے میں ممکن تھا کہ اگر اکثریت کسی بھی موقع پر واپس جانا چاہے تو کھیل ختم کر دیا جائے گا۔ اکثریت پہلے ہی راونڈ کے بعد اتنی خوفزدہ ہوتی ہے کہ واپسی کے حق میں ووٹ دیا جاتا ہے۔ یہ منظر کوریا جیسی ریاستوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت پر بہترین طنز ہے جہاں عمومی لوگوں کو اتنا ہی اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ زندہ رہنے یا نہ رہنے کا اکثریت کے ساتھ فیصلہ کر سکیں۔
واپس جا کر جب دوبارہ انہیں زندگی کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خود گیمز میں واپس آ جاتے ہیں جہاں ایک طرف یہ چانس ہے کہ وہ ’Eliminate‘ (گولی کا شکار) ہو جائیں گے دوسری طرف سو سے زائد میں سے ایک شخص ارب پتی بن سکتا ہے۔ گی ہن بھی واپسی کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ اس کی ماں بیمار پڑ جاتی ہے اور علاج کے لئے اس کے پاس یہی راستہ بچتا ہے۔
یہ ’چوائس‘ ایک طرح سے سرمایہ داری نظام کی بد ترین شکل ہے۔ یہاں اکثریت، یعنی محنت کش کے پاس، غربت سے نکلنے کے لئے ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ جان کی بازی لگا دے۔ مزید یہ کہ اگر ہزاروں لاکھوں جان کی بازی لگائیں تب یہ نظام کسی ایک کو موقع دے گا کہ وہ 38 ارب وان جیتے۔ جوں جوں کھیل آگے بڑھتا ہے توں توں یہ مزید خونی ہوتا جاتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ آخر میں گی ہن اور اس کا بچپن کا دوست آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔
یہ کھیل کروا کون رہا ہے؟ کارپوریشن۔
کوریا کی بعض کارپوریشنز اب دنیا بھر میں ایک برانڈ بن چکی ہیں۔ سام سنگ سے لے کر ڈائیو تک تو اب پاکستان میں بھی ایک جانا پہچانا نام ہیں جو بچے بچے کو معلوم ہے۔ انہیں شوئبلزکہا جاتا ہے۔ ایک دور تھا کہا جاتا تھا ان شوئبلز نے کوریا کو غربت سے نکالا۔ یاد رہے، ساٹھ کی دہائی میں کوریا افریقہ کے غریب ممالک کی سطح پر تھا۔ فی کس آمدن 82 ڈالر تھی۔ پھر یہ ایشین ٹائیگر بن کر ابھرا۔ پاکستان میں بھی اکثر قومِ یوتھ قسم کے لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کوریا نے پاکستان کے پانچ سالہ پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ترقی کی (اس بے بنیاد بات میں کوئی حقیقت نہیں)۔ قطع نظر اس بحث کے کہ کوریا نے کیسے ترقی کی اور شوئبلز کا کیا کردار تھا، یہاں یہ بات اہم ہے کہ کوریا کی سرمایہ دارانہ بنیاد پر ہونے والی ترقی نے شدید نا ہمواریوں کو جنم دیا ہے۔ ’سکوئڈ گیمز‘ انہی نا ہمواریوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک طرف گی ہن جیسے کردار ہیں تو دوسری طرف بد عنوانی میں ڈوبی اشرافیہ جو شوئبلز کو چلاتی ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ سام سنگ کے ایک ڈائریکٹر کو جب بدعنوانی کے الزام میں جیل ہوئی تو جیل میں سزا پوری ہونے سے پہلے ہی حکومت نے اسے یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ اس کی رہائی ملکی معیشت کے لئے ضروری ہے۔
ادہر، گی ہن جیسے ان گنت کردار ہیں۔ گی ہن اگر برے حالات کا شکار ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے ایک ہڑتال میں حصہ لیا تھا۔ وہ ایک کار فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ اس ہڑتال کو زبردست جبر کے ساتھ توڑ دیا گیا اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے۔ ’سکوئڈ گیمز‘ گیمز کے ڈائریکٹر ہوانگ ڈونگ ہیوک (Hwang Dong-hyuk) کا کہنا ہے کہ ’سکوئڈ گیمز‘ میں دکھایا گیا ہڑتال کا قصہ دراصل سانگ یونگ کار پلانٹ میں ہونے والی ہڑتال بارے ہے جہاں 2009ء میں 2,600 مزدور نہ صرف ہڑتال پر چلے گئے بلکہ انہوں نے 77 دن تک فیکٹری پر قبضہ کئے رکھا۔ پھر گولی چلی۔ خون بہا۔ ہڑتال ناکام ہو گئی۔ یہ مزدور بے دخلیوں کے خلاف ہڑتال پر تھے۔ گویا ’سکوئڈ گیمز‘ اس بات کی عکاسی ہے کہ جب مزدور تحریکیں اور ہڑتالیں ناکام ہوتی ہیں تو محنت کش طبقے کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
کارپوریشن یہ کھیل کیوں کروا رہی ہے؟ اس کا جواب رہنے دیتے ہیں تا کہ جن لوگوں نے ’سکوئڈ گیمز‘ نہیں دیکھا، ان کے لئے تجسس برقرار رہے۔ یہ البتہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ اس سوال کا جواب بھی ایک ریڈیکل شکل میں سامنے آئے گا۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا تھا: پاکستانی ناظرین کے لئے اضافی دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس میں ایک پاکستانی ٹچ بھی ہے۔
پاکستانی ٹچ
’سکوئڈ گیمز‘ میں حصہ لینے والوں میں ایک پاکستانی بھی ہے: علی عبدل (انوپم تریپاتھی)۔ یہ پاکستانی نوجوان بغیر ویزا کے کوریا میں رہ رہا ہے اور بلیک جابز کرتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ تارکین وطن کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور کس طرح سر مایہ دار ان کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے مزدوروں کو کس طرح دھتکارا جاتا ہے۔
علی عبدل کا مالک اسے مزدوری نہیں دیتا۔ ہر دفعہ یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے کہ کمپنی خسارے میں جا رہی ہے۔ ایک دن علی عبدل مالک کے دفتر جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے پاس نوٹوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ وہ یہ پیسے لے کر بھاگ جاتا ہے۔ اس دوران اس کا پیچھا کرتے ہوئے مالک مشین پر گر جاتا ہے اور اس کا بازو کچلا جاتا ہے۔ یوں پولیس کو مطلوب، بغیر ویزے پاسپورٹ کے کام کرنے والے علی عبدل کے پاس بھی یہی آپشن بچتا ہے کہ وہ ’سکوئڈ گیمز‘ میں حصہ لے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ پیسے جیتے اور پاکستان چلا جائے۔
ساتویں ایٹمی قوت، جس کی ایک چوتھائی آبادی اس وقت سیلاب میں ڈوبی، بیرونی امداد کی منتظر ہے…اس کا عالمی امیج کیا ہے؟ ’سکوئڈ گیمز‘ اس کی صرف ایک جھلک ہے۔ پاکستان کی ’سکوئڈ گیمز‘ میں نمائندگی (Representation) اس ریاست اور حکمران طبقے کے منہ پر طمانچہ ہے جو قوم کو ایٹمی قوت، فتح مکہ، غزوہ ہند اور اس طرح کی دیگر لوریاں سنا کر بغیر ویزے کے کوریا اور یورپ بھیج دیتے ہیں یا سیلاب میں ڈوبنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں مگر کورین اشرافیہ کی طرح خود مزے میں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ فکر بھی کھاتی رہتی ہے کہ پاکستان کا عالمی امیج خراب نہ ہو۔ اس لئے انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کے پیچھے ویگو ڈالے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کیا کسی ’ہم‘، ’جیو‘ یا ’اے آر وائی‘ میں ہمت ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کی ’سکوئڈ گیمز‘ کو اسکرین پر پیش کریں؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔