خبریں/تبصرے

بحریہ یونیورسٹی: طالبہ کی جان چلی گئی مگر پولیس تفتیش نہیں کر سکتی

لاہور (آن لائن رپورٹ) جمعرات کے روز بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں تیئس سالہ طالبہ حلیمہ امین ایک نو تعمیر شدہ بلاک کی چوتھی منزل سے گر کر ہلاک ہو گئیں۔

اس افسوسناک واقعہ کے بارے میں یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ حادثہ غفلت کی وجہ سے ہوا کیونکہ ابھی عمارت مکمل طور پر تعمیر نہیں ہوئی تھی مگر وہاں کلاسز کا اجرا کر دیا گیا۔

اس سلسلے میں طلبہ کی طرف سے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا ہے۔

ادہر یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والی طالبہ حلیمہ امین سیلفی لینے کی کوشش میں گر کر ہلاک ہو گئیں۔

واضح رہے کہ طالبہ کی ہلاکت فوری طور پر نہیں ہوئی۔ انہیں پمزہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ اپنے زخموں سے جانبر نہ ہو سکیں۔ ڈان اخبار کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ ہی زخمی حالت میں حلیمہ امین کو پمز لائی اور وہی لوگ ان کی میت کو لے کر روانہ ہو گئے۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پولیس کو تفتیش کے لئے کیمپس میں آنے سے منع کر دیا گیا۔ پولیس جائے وقوعہ کا معائنہ کرنا چاہتی تھی۔ ڈان اخبار کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ خود اس واقعے کی تحقیق کریں گے۔

تجارتی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کتنی طاقتور ہے کہ پولیس بھی ان کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کیمپس کے اندر بھی نہیں داخل ہو سکی جبکہ اسی روز پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف ایک پر امن مظاہرے کو روکنے کے لئے پولیس چوکس انداز میں ہر طرف موجود تھی۔

دریں اثنا، سوشل میڈیا پر بحریہ یونیورسٹی کے طلبہ اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک انگریزی ویب سائٹ، ٹو ڈیز پوائنٹ آن لائن، پر اپنے مضمون میں بحریہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہر وقت طلبہ کی اخلاقی پولیسنگ کر رہی ہوتی ہے تا کہ طلبہ و طالبات کے درمیان چھ انچ کا فاصلہ برقرار رہے یا وہ کیفے میں ایک دوسرے سے بات نہ کر پائیں مگر ان کی جان کی انتظامیہ کو کوئی فکر نہیں۔ مضمون نگار کا کہنا تھا کہ ایک زیرِ تعمیر عمارت میں کلاسز کا اجرا صرف منافع کی ہوس ظاہر کرتا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts