حارث قدیر
پاکستان میں ففتھ جنریشن وار فیئر اور ہائبرڈ نظام حکومت کے منصوبے کو لپیٹنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ آج سے ٹھیک5 سال قبل جس طرح اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر ٹکٹ سمیت تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر رہے تھے، ٹھیک اسی طرح تحریک انصاف کے عہدیداران، ٹکٹ ہولڈر اور منتخب ممبران سیاست سے ہی لاتعلقی کے اعلانات میں اپنی عافیت جاننے پر مجبور ہیں۔
5 سال قبل جس طاقت اور جاہ و جلال سے تحریک انصاف کی حکومت قائم کی گئی تھی، اسی رعونت سے تحریک انصاف کو چند افراد کی پارٹی تک محدود کرنے کا عمل جاری ہے۔ عمران خان کے ایک اعلان پر لاکھوں نہ سہی ہزاروں کے اجتماعات کا انعقاد تو درکنار، چند افراد بھی اب سڑکوں یا کھلے میدانوں کا رخ کرنے کی جرأت سے محروم نظر آتے ہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان کی حقیقی قوت سمجھے جاتے تھے۔ وہ عمران خان کی شخصیت کے ذریعے اپنی محرومیوں اور احساس کمتری سے نجات کے متلاشی تھے اور شاید اب بھی ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے خلاف وہ بھی ایمان کے آخری درجے والا احتجاج درج کروانے پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور نظر آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کروانے سے آن لائن پٹیشن، مختلف سفارتکاروں اور بااثر شخصیات و تنظیموں کو خطوط لکھنے جیسے گھر سے بیٹھ کر احتجاج کا سلسلہ تو جاری ہے۔ سفارتخانوں اور احتجاجی مقامات پر جا کر احتجاج کا جوکھم اٹھانے سے البتہ پرہیز ہی کیا جا رہا ہے۔
موجودہ صورتحال میں یہ تو باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے پارٹی بنا کر دی تھی، وہ اپنی پارٹی اب واپس لے رہے ہیں۔ تاہم گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ سلسلہ کافی پرانا ہے۔ ہر چند سال بعد اسی طرح پارٹی بنانے اور پھر اسے واپس لیکر دوسری پارٹی بنانے کا سلسلہ بالکل اسی تسلسل سے جاری ہے، جس تسلسل سے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ نہ سچی پارٹی مل سکی، نہ معیشت درست ہو سکی، نہ حقیقی قیادت پنپ سکی اور نہ ہی معاشرہ درست ہو سکا۔ حکیم کے پاس البتہ نسخہ وہی پرانا ہے، جسے ہر چند سال بعد نئے لیبل کے ساتھ مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اور پیڑ ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔
ہائبرڈ رجیم کے لیبل میں لپیٹ کر لائے جانے والے اسی پرانے نسخے پر جب عملدرآمد شروع کیا گیا تھا، تب ’ووٹ کو عزت دو کا نعرہ‘ بلند ہوا تھا۔ یہ الگ بات کہ ووٹ کو عزت دلوانے کیلئے ’حقیقی آزادی تحریک‘کی نسبت قدرے زیادہ جاندار مزاحمت دیکھنے کو ملی تھی۔ تاہم وہاں بھی شہباز شریف کی مفاہمت اسی طرح طاقتوروں کو دستیاب تھی، جس طرح بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ابھرنے والی مزاحمت کا ڈنک نکالنے کیلئے ’جمہوریت بہترین انتقام‘ اور ’مفاہمت‘ کے اعلانات نے ق لیگ کو پیپلزپارٹی میں ڈھل جانے کا راستہ دکھایا تھا۔
جمہوریت، شخصی آزادیوں، انسانی حقوق، تحریر و تقریر کی آزادیوں سمیت دیگر جمہوری حقوق کی گردان جدید سرمایہ داری میں ایک ایسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا سامان بھی فراہم کرتی ہے، جس کی نہ کوئی منزل ہے، نہ ٹھکانہ۔ طبقاتی معاشرے میں جمہوری حقوق کی فراہمی ایک سراب ہے۔ پاکستان جیسے سماجوں میں جمہوری حقوق اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو حکمران طبقات تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کرتے ہوئے اپنے مفادات کی جنگ میں محنت کشوں اور عام عوام کو الجھائے رکھتے ہیں۔ جمہوریت اور آمریت کے اس کھلواڑ میں 76 سال سے انسانیت کی تذلیل و تضحیک کا سامان کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت طبقاتی جبر اور استحصال سے پاک سماج میں ہی جمہوری حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے اور حقیقی جمہوریت پنپ سکتی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔ ہر چند سال بعد جمہوریت کی جدوجہد کرنے اور اسے روکنے والوں کے چہرے اور گول پوسٹ تبدیل ہوتے ہیں، صورت موقع ہمیشہ جوں کی توں ہی رہتی ہے۔
ہائبرڈ رجیم کے میدان میں کھیلنے والے کھلاڑی تو محض سیاسی وفاداری تبدیل کر کے نئی ٹیم کے ہر اول دستے میں شامل ہو جائیں گے۔ حقیقی آزادی کی جنگ لڑنے والے البتہ اسی طرح سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے نام پر لاپتہ ہونے کے ساتھ ساتھ فوجی عدالتوں کی اذیتیں جھیلیں گے، جس طرح ووٹ کو عزت دلوانے والوں اور ان کے پیشروؤں کا حال ہوچکا ہے۔
ہر آنے والا جانے والے کے ساتھ ہونے والے سلوک پر واہ وائیاں کرتا اور اسے سب سے بڑا مجرم اور ملک دشمن ثابت کرنے کیلئے آسمان و زمین کے قلابے ملانے میں جت جاتا ہے۔ ماضی قریب میں لاپتہ ہونے والوں کو ملک دشمن، فوج دشمن، غیر ملکی ایجنٹ اور دیگر القابات سے نوازنے والے آج خود لاپتگی کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ ماضی میں لاپتہ ہونے والے اب ان پر طعنے کستے ہیں۔ ماورائے عدالت و قانون حراست و اغواء کے درست یا غلط ہونے کی بحث منظر سے غائب ہو کر ان حالات کا سامنا کرنے میں بہادری اور بزدلی کے مابین مقابلے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ایک قابل ترس مخلوق البتہ دھتکارے گئے ہر جزوقتی مزاحمت کار سے امیدیں لگائے ہمہ وقت دستیاب رہتی ہے۔ یہ دیانتدارانہ بنیادوں پر انسانی حقوق اور حقیقی جمہوریت کو پروان چڑھانے کی کوششوں میں مصروف لوگ بھی ہوتے ہیں اور کچھ این جی اوز کے پراجیکٹس کا پیٹ بھر کر اپنا پیٹ بھرنے کی تگ و دو میں مصروف تعداد بھی اس عمل میں مشغول رہتی ہے۔ تاہم اگر دیانتدارانہ بنیادوں پر ہی یہ سب کچھ کیا جا رہا ہو، تو مرض کو سمجھے بغیر علاج تجویز کرنے سے مرض بہتر ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت جتنی بھی بدترین ہو، آمریت سے بہتر ہی ہوتی ہے۔ اس لئے ریاست کا بڑھتا ہوا سیاسی کردار صحت مند جمہوریت کے پروان چڑھنے میں ہمیشہ رکاوٹ بنتا ہے۔ بات یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن ریاست کا سیاسی کردار بڑھتا کیوں ہے؟ جب تک اس سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جاتا، تب تک جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کسی نہ کسی جز وقتی مزاحمت کار سے ہی امیدیں وابستہ کر کے اسے طاقت فراہم کرنے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
سرمایہ دارانہ ریاست میں حکمرانی سرمایہ دار طبقے کی ہوتی ہے اور اگر سرمایہ دار بطور طبقہ ریاست پر حکمرانی کی اہلیت اور صلاحیت سے تاریخی طور پر عاری ہوں، تو پھر ریاست کا سیاسی اور معاشی کردار بڑھ جانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ تکنیکی پسماندگی اور تاریخی تاخیر زدگی کے باعث مسابقتی پیداواری صلاحیت حاصل کرنے میں ناکامی کے باعث جدید سرمایہ دارانہ قومی ریاست کے فرائض پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ الٹا اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کیلئے ریاست کے رحم و کرم پر بھی ہے۔ سامراجی اطاعت گزاری، ٹیکس و بجلی کی چوری، سبسڈیوں کے حصول، جبری مشقت اور سیفٹی قواعد میں چھوٹ سمیت دیگر بدعنوانیوں اور جعل سازیوں کی راہیں نکالنے کے عوض اپنی حکمرانی کی طاقت کو گروی رکھنا ایک ایسی مجبوری ہے، جس کا خمیازہ ریاست کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور معاشی کردار کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔
یوں ریاست پر حکمرانی کرنے والا طبقہ ریاست سے نوکری نما حکمرانی کی بھیک مانگنے والے حکمران طبقے کے نمائندوں کی شکل دھار چکا ہے۔ اس حکمرانی کی بھیک کو جمہوریت اور سویلین بالادستی کی جدوجہد کے نام پرمزاحمت کانام دیکر عوامی طاقت کے حصول کی کوشش جاری رہتی ہے۔ حکمرانوں کے اس کھلواڑ کے نتیجے میں پلنے والے سماجی اور معاشی بحران نے سماج کو چلانے والے محنت کش طبقے کو سیاست سے لاتعلق اور بیگانہ کر دیا ہے۔ مجموعی طور پراس سماج میں سیاست ایک گالی بن چکی ہے۔
درمیانے طبقے کی مصنوعی ہلچل پر سیاسی کھلواڑ جاری ہے، جو گہری پولرائزیشن میں کبھی ایک اور کبھی دوسرے دھڑے کی ہمنوائی اختیار کرتے ہوئے حکمران طبقے کا حصہ بننے کیلئے کوشاں نظر آتا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور سامراجی تذویراتی ضرورتوں کے مابین حکمران طبقے اور ریاستی اداروں کے اندر دھڑے بندی، انتشار اور لڑائی کھل کر سامنے آرہی ہے۔
جب تک یہ نظام قائم ہے، یہ انتشار اب بڑھتا ہی جائے گا۔ معاشی بدحالی سماجی گراوٹ میں اپنا اظہار کرتی رہے گی۔ اس نظام کے رہتے ہوئے نہ فوج کا سیاسی کردار ختم کیا جاسکتا ہے، نہ سویلین بالادستی قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی معاشی مسائل کا حل ممکن ہے۔ تاوقتیکہ محنت کش طبقے کی حالات کے ساتھ تنہاء مقابلہ کرنے کی تگ و دو منطقی انجام تک پہنچ جائے اور وہ سماجی دھماکوں کی صورت اپنا سیاسی اظہار کرے۔ حقیقی آزادی اور جمہوریت کا ضامن وہی طبقہ ہو سکتا، جو اس نظام کا پہیہ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نظام کی منجمد کرنے کی صلاحیت بھی وہی طبقہ رکھتا ہے اور نئے سماج کی تعمیر کا اوزار بھی وہی بن سکتا ہے۔جب محنت کش طبقہ میدان عمل میں نکلے گا اپنی قیادت خود تراش لائے گا۔