لاہور (پ ر) پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے زیر اہتمام بین الاقوامی کارپوریشنوں کے خلاف خوراک کی خودمختاری اور دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر لاہور پریس کلب میں کسان عورتوں کا جلسہ عام منعقد ہوا۔ اس جلسہ عام میں دوسو سے زائد کسان عورتوں نے شرکت کی۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ 16 اکتوبر 2023 کو ہم دنیا کے کسان، ایک بار پھر بین الاقوامی کارپوریشنوں کے خلاف خوراک کی خودمختاری کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ آج کے دن خوراک کی خودمختاری کی عالمی تحریک زرعی کارپوریشنوں کے ہاتھوں میں خوراک کے نظام کے کنٹرول کی مذمت کرتی ہے۔ عالمی کارپوریٹ نیٹ ورک کی وجہ سے دنیا میں لاکھوں لوگ بھوک اور غریب کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگ بھوکے رہ رہے ہیں اور غذائی عدم تحفظ شدت اختیار کر رہا ہے جس سے دنیا کی ایک تہائی آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی بحران اور نقل مکانی لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان میں 20.5 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور 5 سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 سے پتہ چلتا ہے کہ 36.9 فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
حیدر بٹ نائب صدر حقوق خلق پارٹی نے کہا کہ پاکستان میں جاگیرداری اب بھی موجود ہے اور پارلیمنٹ میں مکمل طور پر جاگیر داروں کا غلبہ ہے۔ وہ ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبض ہیں۔ حکومت نے زرعی اصلاحات کے بجائے کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دے کر فوج اور کارپوریٹ سیکٹر کو سرکاری زمین لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اس فیصلے کا مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ زمین بے زمین ہاریوں اور چھوٹے کسانوں کو دی جائے۔ اننگوں نے مطالبہ کیا کہ راوی کنارے شہر بسانے اور کسانوں کی زمینیں برباد کرنے والا منصوبہ ترک کیا جائے۔
رفعت مقصود نے کہا پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی کارپوریٹ ایجنڈے اور انکی پالیسیوں کو مکمل سپورٹ کرتی ہے اور حکومت پاکستان میں فوڈ سسٹم پر کارپوریٹ قبضے کی اجازت دے رہی ہے۔ زرعت کے ہر شعبے میں کارپوریٹ کمپنیوں کا قبضہ ہورہا ہے اور حکومت کوئی اقدامات کرنے کی بجائے، اس کو فروغ دی رہی ہے۔ پاکستانی حکومت جعلی کارپوریٹ حل اور ”گرین پاکستان انیشی ایٹو” جیسے پروگراموں کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ سرکاری زمینوں کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے حوالے کرنے کا پروگرام ہے۔ اس سے قبل 1960 کی دہائی کے سبز انقلاب نے پاکستان کی زمینوں کو کھادوں اور زہریلے کیمیائی حشرہ کش دواؤں کے حوالے کر دیا تھا۔ اب دوسرے سبز انقلاب کے نام پر کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سرکاری زمینیں سرمایہ داروں کے حوالے کی جا رہی ہیں۔
اس سے زرعی انقلاب تو نہیں آئے گا بلکہ خوراک اور زرعی اجناس مہنگی ہو جائیں گی، عدم مساوات اور طبقاتی جبر میں اضافہ ہو گا۔ اگر حکومت زرعی انقلاب لانا چاہتی ہے تو چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو سرکاری زمین مفت تقسیم کرے۔
صائمہ ضیاء نے کہا کسی بھی ملک کی ترقی اور خوراک کی خودمختاری کے لئے جامع زرعی اصلاحات اور چھوٹے اور بے زمین کسانوں میں بڑی سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں کی تقسیم ضروری ہے۔
ہم ایک بے مثال غذائی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہماری زرعی پیداوار، بیج، زمین اور علاقوں پر قبضہ اجارہ داری قائم کی جا رہی ہے۔ ہمارے کسانوں کے آمدنی اور باوقار زندگی، احتجاج اور ہمارے لوگوں کی خود مختاری کے حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کسان ماحولیاتی بحران، جنگوں، بدعنوانی، میڈیا کنٹرول، ادارہ جاتی نسل پرستی اور فسطائیت کے ساتھ منسلک ایک بے مثال غذائی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کو مسلسل مجرم قرار دیا جا رہا ہے، بے گھر کیا جا رہا ہے، اور ہمارا ذریعہ معاش اور گزر بسر چھینا جارہا ہے۔ لیکن ہم عالمی بحرانوں کے سامنے متحرک ہیں ا ان سب مسائل کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔
قمر عباس نے کہا کہ اس سال اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) 16 سے 20 اکتوبر تک ورلڈ فوڈ فورم کی میزبانی کر رہی ہے اور ہمیں تشویش ہے کہ بڑی کارپوریشنز اپنے مفادات کے لیے اس جگہ پر اپنا مذید قبضہ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ اسی وجہ سے ہم آج ایک بار پھر ان کارپوریٹ کمپنیوں کے خوراک پر قبضہ کی مذمت کرتے ہیں، اور جو کارپوریٹ طاقت کئی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان بحرانوں کو بظاہر حل کرنے کے لیے غلط اقدامات کو فروغ دے رہی ہے۔ ہم ایک بار پھر زرعی کاروبار کو انکار کرتے ہیں، اب کوئی غلط حل نہیں، خوراک کی خودمختاری کے بغیر، ہم انسانیت کے مستقبل کو یقینی بنانے کے قابل نہیں ہوں گے۔
اس سال ہم خوراک کی خودمختاری کے لئے اپنی منظم جدوجہد کے 27 سال بھی منا رہے ہیں، ایک ایسی جدوجہد جو اب مقامی سطح سے ایک طاقتور عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ہمیں یو این ڈی آر او پی (UNDROP) کے نفاذ کو آگے بڑھانے، ایک متبادل عالمی تجارتی فریم ورک کی تعمیر کرنے کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے جو آزاد تجارتی معاہدوں اور ڈبلیو ٹی او کی بالادستی کو ختم کرے اور دیہی مزدوروں کے اجتماعی اور انفرادی لیبر معاہدوں کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی کارپوریشنوں کے خلاف ایک مؤثر پابند معاہدے کو مستحکم کرے۔
ہم کسان، خواتین، نوجوان، دیہی مقامی لوگ، ماہی گیر، تارکین وطن، دیہی مزدور اور افراد کا ایک متنوع گروہ ہیں جو چاہتے ہیں کہ خوراک کی خودمختاری کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے، جس سے ہماری برادریوں کے لئے امن اور سماجی انصاف کو یقینی بنایا جائے۔
جلسہ عام میں شریک خواتین نے فلسطین کے لوگوں، کسان اور مزدور عورتوں کے ساتھ یکجہتی کی۔