قیصر عباس
شب کی بے خواب رداؤں میں
سمٹتے ہوئے پتوں کی صدا
ماند ہوئی
شاخ در شاخ
عزاخانہ غم کھل بھی گئے
ہر شجر غنچہ جاں
اپنی ہتھیلی پی لئے
رو بھی چکا
بوالہوسی رسمِ جہاں
ہوبھی چکی
شاخ در شاخ
خزاؤں کے نقیب
پنکھریوں کا ہراک
رشتہِ جاں توڑ چکے
کھلتے پھولوں کا لہو
چوس کے
ڈھانچوں کو
سرِراہ گزر چھوڑچکے
اور پھر
موردِ الزام بھی
گل ہی ٹھہرے!
چارہ گرو!
کچھ توکرو!
ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔