اکبر نوتزئی
بعض شاعروں اور ادبی شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ واقعی ان سے ملنا چاہتے ہیں تو ان کے کام کے ذریعے ملیں، کیونکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بہت مایوس کن ہو سکتے ہیں، یا ان کا کام اور ذاتی زندگی ایک دوسرے سے متصادم ہو سکے ہیں۔ ایسے ہی ایک بلوچ شاعر مبارک قاضی تھے،جو مزاحمتی اور عوامی شاعر تھے۔
اگرچہ وہ(رواں سال) 17ستمبرکو فوت ہوئے لیکن ان کی روح ان کی زندگی کے دوران ہی بہت پہلے سے انہیں چھوڑ چکی تھی، یا شاید ان کے آوارہ طرز زندگی سے ایسا لگتا تھا۔ مثال کے طور پر وہ ہمیشہ سفید کپڑے پہنتے اور کندھے پر رنگین دھاریوں والی سیاہ بلوچی چادر پہنا کرتے تھے۔ وہ سفید کپڑے پسند کرتے تھے، کیونکہ ان کے اپنے الفاظ میں سفید کفن کا رنگ ہے اور وہ مسلسل کفن میں لپٹے رہنا چاہتے تھے۔
وہ بلوچوں کیلئے اور بلوچ مزاحمت کیلئے لکھی گئی شاعری کے ذریعے بلوچ معاشرے میں زندہ تھے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی موت کے بعد پورا صوبہ بلوچستان، دیگر صوبوں میں بسنے والے بلوچ اور دنیا بھر میں موجود بلوچ تارکین وطن سوگ منا رہے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
مبارک قاضی 24 دسمبر 1955 کو بلوچستان کے ضلع گوادر کے ساحلی شہر پسنی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کرنے کے بعد وہ کراچی چلے گئے،جہاں انہوں نے سندھ مسلم آرٹس کالج سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر زکی ڈگری مکمل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدانہوں نے اپنے آبائی شہر پسنی میں فش ہاربر میں شمولیت اختیار کی اور وہاں سے ڈائریکٹر فنانس کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
گو کہ انہوں نے اپنی بلوچی شاعری کے ذریعے معاشرے میں،خاص طور پر نوجوانوں میں،ایک بلند مقام حاصل کیا، تاہم دہائیوں میں وہ اکتاہٹ کا شکار ہو گئے۔ پراگندہ سفید کپڑوں، پراگندہ سفید داڑھی، الجھے سفید بالوں اور اوپری حصے سے گنجے سرکے ساتھ وہ ملنگ لگتے تھے۔ اکثر اوقات ان کی قمیض کے بٹن ٹوٹے رہتے تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ شرابی ہو چکے تھے۔ خاص طور پر جب وہ اپنے آبائی شہر پسنی کی گلیوں سے گزرتے تو ان کے ہاتھ میں ہر وقت بیئر کی بوتل رہتی تھی۔
تاہم ان کی شاعری نے ان کی روح کوایک نوجوان کی روح کی طرح زندہ رکھا۔
بلوچستان جغرافیائی طور پر بنجر سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے، تاہم اس نے مبارک قاضی جیسے بہت سے شاعر پیدا کئے، جو اپنے زمانے کے بزرگ تھے۔ ان کی شاعری میں بلوچوں کیلئے ان کی غیر معمولی محبت دیگر چیزوں کے ساتھ بالکل واضح ہے۔
اسی لئے انہیں بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ مثال کے طو رپر جب انہوں نے 1982کے اوائل میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(بی ایس او)کے بلوچ طالب علم رہنما حمید بلوچ کو دی گئی سزائے موت کے خلاف احتجاج کیا تو سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں مبارک قاضی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ حمید بلوچ مبینہ طور پر بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرنے کیلئے بلوچستان کا دورہ کرنے والے عمانی فوجی وفد کو گولی مارنے میں ملوث تھے۔ یہ عمانی فوجی وفد ملک میں جاری ’ظفار بغاوت‘کو کچلنے میں مدد کرنے کیلئے بلو چ نوجوانوں کو بھرتی کرنے آیا تھا، مذکورہ بغاوت عمان کے مارکسسٹوں نے شروع کر رکھی تھی۔
تاہم یہ واحد موقع نہیں تھا جب مبارک قاضی جیل گئے تھے۔ایک بار2006میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد بدامنی کے دوران مبارک قاضی کو ان کے آبائی شہر پسنی میں ایک سکیورٹی چوکی پر روکا گیا اور شناخت ثابت کرنے کو کہا گیا، تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں سے جھگڑا شروع کر دیا۔ انکا موقف تھا کہ وہ اسی قصبے میں پیدا ہوئے، جبکہ سپاہی باہر کا تھا، جس کے پاس ایسے سوالات کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔
یہ اقدام انہیں بہت مہنگا پڑا اور انہیں 8ماہ تک جیل میں رکھا گیا۔ انہیں تربت جیل منتقل کر دیا تھا۔ اس طرح کی سزا نے ان کی شاعری کو مزید جلا بخشی، وہ مسلسل شعر لکھتے اور ریاست کو چوٹ پہنچاتے رہے۔ اس وقت ان کے خلاف درجن بھر مقدمات درج کئے گئے، جن میں غداری کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ وہ شاید بلوچستان کے پہلے شاعر ہیں جنہیں اس طرح کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں انہیں بری کر دیا گیا تھا۔
2014ء میں ان کے بیٹے ڈاکٹر قمبر مبارک کے قتل نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس کے بعد ان کی سنکی طبیعت میں مزید تحرک آیا۔ ڈاکٹر قمبر نے اپنی میڈیکل پریکٹس چھوڑ کر کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور ضلع کیچ میں مسلح تصادم کے دوران مارے گئے تھے۔ ان کے قتل کے حالات کے بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں۔
بہر حال بیٹے کی موت کے بعد مبارک قاضی نے نشہ آور اشیاء کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا تھا۔ وہ شاعری اور ادبی پروگراموں کے دوران بھی ہمیشہ نشے کی حالت میں پائے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بیٹے کے قتل نے اپنی سرزمین اور لوگوں کے بارے میں ان کی شاعری کو مزید تقویت بخشی۔ وہ نہ ریاست سے ڈرتے تھے،نہ ملاؤں سے اور نہ ہی وہ موت سے ڈرتے تھے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک مردہ آدمی کی طرح جی رہے تھے۔
وہ بہت حساس ہو گئے تھے اور اپنے برے مزاج اور تمام غلط وجوہات کیلئے جانے جاتے تھے۔ کچھ لوگ انہیں پاگل بھی کہتے تھے۔ وہ دوسرے کے ساتھ خاص طور پر دیگر ادبی شخصیات کے ساتھ جھگڑا کرتے رہتے۔ کچھ سے وہ اس حد تک نفرت کرتے تھے کہ وہ کسی بھی پروگرام میں شرکت کرنے سے انکار کر دیتے تھے، جس میں ان شخصیات کو مدعو کیا گیا ہو۔
مبارک قاضی نے شاعری کے 10مجموعی تحریر کئے۔ ان کا پہلا مجموعہ ’زرنوشت‘(سنہری الفاظ) تھا، جو 1990میں شائع ہوا تھا۔ ان کے ایک شعری مجموعے کا نام ’ہانی مانی ماتے وطن‘(مادر وطن)ہے، جس میں انہوں نے اپنے مادر وطن بلوچستان سے اپنی محبت کے بارے میں لکھا ہے۔ انہوں نے ایک شعری مجموعہ ’شاگ مان سبزائیں سوادہ‘ (نیلے سمندر میں ایک کشتی) کے عنوان سے بھی لکھا۔
کئی دیگر بلوچ ادبی شخصیات کی طرح مبارک قاضی بھی کراچی کے لیاری کے ادبی حلقوں میں شامل ہو گئے، جو کہ 1950 کی دہائی سے بلوچی ادبی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس تعامل نے قاضی کی ادب سے محبت کو مزید تقویت بخشی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شاعری رومانوی، خواتین کی تعلیم اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کے لیے ان کی محبت کو بھی چھوتی ہے۔ ان کی شاعری پیچیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی شاعر بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ عام آدمی سے لے کر ادیبوں تک ہر کوئی ان کی شاعری کو سمجھ سکتا تھا۔
وہ مختصر علالت کے بعد تربت میں وفات پا گئے۔ کراچی میں ان کے دوست میر ساگر نے قاضی کا آخری خط سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں تھے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ شراب پینے سے نقصان ہوا ہے۔ وہ علاج کے لیے تربت گئے تھے لیکن کبھی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کیا۔ اس کی بجائے وہ شراب پینے اور سماجی اجتماعات میں شرکت کرنے میں مصروف رہے۔ وہ نیند میں ہی دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوئے۔
ان کی موت کے بعد انہیں مزاحمت کے شاعر اور انقلابی سمیت دیگر القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ تاہم ان کی شاعری انہیں خالص ترین بلوچ شاعر کے طور پر بیان کرتی ہے، جو اپنے لوگوں اور اپنی سرزمین کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کبھی نہیں جھکا۔
انہوں نے ایک بار ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہر کوئی شاعر نہیں بن سکتا‘۔ ار وہ شاعری نہ ہوتی جس نے انہیں زندہ رکھا، تو وہ بہت پہلے یہ دنیا چھوڑ چکے ہوتے۔
(بشکریہ: ڈان، ترجمہ:حارث قدیر)