طارق علی
(طارق علی کی کتاب’بنیاد پرستیوں کا تصادم‘ 2003 میں شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ درجن بھر سے زائد زبانوں میں ہوا۔ مسلم دنیا اور سامراج بارے اس کتاب کا اردو ترجمہ فاروق سلہریا نے کیا۔ اس کتاب کا فلسطین بارے ایک باب غزہ میں جاری تازہ اسرائیلی حملے کے پس منظر میں قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کیا جا رہا ہے)
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے نو آبادیات کے خاتمے کا عمل شروع ہوا۔ کش مکش کے ہاتھوں پرانی سلطنتیں کمزور ہو گئی تھیں۔ جرمن سامراج کو شکست ہو گئی تھی مگر برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں نہیں۔ یہ تاریخ ساز سویت مزاحمت تھی، کرسک اور سٹالن گراڈ کی جنگیں اس مزاحمت کی علامت تھیں، جس نے ویرَماخت٭ کی کمر توڑی۔ امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد نے بھی فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ امریکہ دنیا کی طاقتور ترین معاشی قوت بن کر اُبھرا مگر وہ سویت یونین کی فوجی طاقت اور تکریم سے پریشان تھا۔ ابھی دوسری جنگ عظیم لڑی جا رہی تھی کہ سرد جنگ، جو بعد میں چلی، شروع ہو چکی تھی۔ امریکہ، سویت یونین اور برطانیہ اس بات پر متفق تھے کہ وہ یورپ کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کرلیں گے۔ جرمنی تقسیم کیا جائے گا۔ سٹالن کو مشرقی یورپ ملے گا اور اس کے بدلے میں وہ فرانس، اٹلی اور یونان میں کمیونسٹ مزاحمت کو کُچلے گا اور یہ وہ ممالک تھے جو اینگلو امریکی سامراج کی ذمہ داری تھے۔ جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے، بالخصوص ایشیا، کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا اور اس پر قبضہ کر لیا مگر باقی ہر جگہ افراتفری مچی تھی۔
یہ تھا وہ پس منظر جس میں انقلابات سے خوفزدہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر زور دے رہا تھا کہ وہ جلد از جلد نو آبادیات خالی کر دیں۔ 1947ء میں برطانیہ نے ہندوستان کو خیرباد کہا۔ جاپان کی شکست نے ہند چین، ملایا اور انڈونیشیا میں انقلابی جدوجہدوں میں نئی روح پھونک دی۔ سر زمین چین پر کمیونسٹ فوجیں قوم پرستوں کو پے در پے شکستیں دے رہی تھیں اور 1949ء میں ماوزے تنگ نے بیجنگ پر قبضہ کر کے عوامی جمہوریہ کا اعلان کر دیا۔
1948ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کے قیام کی منظوری دی۔ باقی دنیا میں اس واقعہ پر شائد ہی کوئی ردعمل ہوا ہو۔ نو آزاد مسلم ریاستیں پاکستان اور انڈونیشیا اپنے اپنے مسائل میں گھری ہوئی تھیں۔ ایران کو کسی سے سروکار نہ تھی۔ عرب دنیا اندر البتہ علیحدہ بیٹھے رہنا ممکن نہ تھا۔ فلسطین پر یورپ سے آئے ہوئے صیہونی آبادکاروں کے قبضے سے سب ہی متاثر ہوئے تھے۔ ایک مصری، عراقی، سعودی یا شامی گو اس طرح سے متاثر نہ ہوا تھا جیسے ایک فلسطینی عرب مگر ہر کسی کو احساس زیاں ضرور تھا۔ ہنوز جو مسلم، عیسائی اور یہودی عرب ثقافت تھی اسے سخت دھچکا لگا تھا، اس گھاؤ کو بعدازاں ال نکبۃ (تباہی) کا نام دیا گیا۔ صیہونی فتح نے عرب جدیدیت کو للکارا تھا اور کچھ ادیب یہ سوال اُٹھا رہے تھے آیا کہ تاریخ میں عرب موجودگی کا تسلسل ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا ہے۔
یورپ میں جہاں لیفٹ اور لبرل سامراج مخالفوں نے ہندوستان اور چین میں کامیابیوں کو خوش آمدید کہا تھا وہاں اسرائیل کے مسئلے نے ترشی اور عدم اتفاق کو جنم دیا۔ یہودیوں کا قتل عام یقینا وہ مرکزی وجہ تھی جس کی بنا پر یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ یہودی وطن کی حمایت کی جا رہی تھی مگر یورپ اور دیگر جگہوں (مثلا بھارت) پر کمیونسٹ پارٹیاں سٹالن کے فیصلے کے مطابق نو خیز ریاست کی حمایت اور اسے مسلح کرنے کی حامی تھیں۔ دلیل یہ دی جا رہی تھی کہ مشرق وسطیٰ میں قائم حکومتوں کے کردار کے پیش نظر سوشلسٹ اسرائیل ترقی پسند اقدار کا مینارہ نور بن جائے گا۔ شائد ہی کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا کیکہ اس ریاست کا تصور کہاں سے آیا اور یہ بنائی کس طرح گئی ہے۔ عرب دنیا سے باہر اور بعض لوگوں کے لیے فلسطینی عرب دنیا کے اندر بھی تاریخ کے متروک بچے بن کر رہ گئے۔
نئی مسلم ریاست پاکستان مغرب کی قریبی حلیف تھی اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے علاوہ، اس کے رہنما کم کم ہی فلسطین یا اس کے اجڑے ہوئے باسیوں کا ذکر کرتے، زیادہ تر میڈیا بھی یہی کرتا۔ اس بے التفاتی نے ہم سب کو متاثر کیا۔ 1956ء نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ مصر پر اسرائیل، فرانس اور برطانیہ کے مشترکہ حملے نے ہم سب کو جگا دیا۔ حکومت پاکستان نے مغرب کا ساتھ دیا مگر یونیورسٹی کے طلباء گلیوں میں نکل آئے اور بشمول میرے سکول، ہر سکول میں گئے۔ آئرش برادران نے سکول بند کر کے ہمیں لاہور کی گلیوں میں نکلنے والے عوامی مظاہرے میں شرکت کی اجازت دیدی جہاں ہماری کٹھ پتلی حکومت کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔ مصر کے رہنما جمال عبدالناصر ہمارے ہیرو بن گئے۔ وہ سامراجیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے، انہوں نے برطانیہ سے کہہ دیا کہ وہ نہر سویز کو قومی ملکیت میں لیکر رہیں گے اور اگر سابق آقاؤں کو یہ پسند نہیں تو وہ اپنا غصہ اپنے آپ پر اُتاریں۔ انہوں نے غصہ ناصر پر اُتارنے کا فیصلہ کیا لیکن ناکام رہے اور اس کی ایک بڑی وجہ امریکہ تھا جو ان کے یک طرفہ فیصلے سے خوفزدہ ہو گیا تھا۔ ناصر بچ گئے اور ہم سکول لوٹ آئے۔ یہ پہلا موقع تھا میں نے اسرائیل بارے سوچا۔ اخبارات میں اسے مغرب کی تخلیق اور عرب دنیا کے سینے میں خنجر قرار دیا گیا۔ یہ سب درست تھا مگر میں اس سے آگے نہیں سوچ سکتا تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں جب میں برطانیہ چلا آیا تو تب جا کر مجھے 1948ء میں ہونیوالی تباہی کا اندازہ ہوا۔ میری تعلیم و تربیت یہودی النسل سوشلسٹوں، مارکسیوں اور انارکو لبرٹیرین لوگوں کے ہاتھ ہوئی۔ یگیل گلک سٹائن٭ (جو انقلابی سوشلسٹ سیاست کرتا اور ٹونی کلف (1)کے نام سے لکھتا) خود کو ایک ایسے فلسطینی کے طور پرمتعارف کرواتا جو اسرائیل کو چھوڑ کر آیا تھا، جو عربوں سے روا رکھے جانے والے اس امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کر سکتا تھا جو نئی ریاست کے ڈھانچے اور ہر سطح پر کار فرما تھا۔ وہ صیہونی مزدور تحریک پر خاص کر شدید تنقید کرتا اور اس پر عرب مخالف نسل پرستی کا جواز مہیا کرنے کا الزام لگاتا۔ ’تمہیں پتہ ہے مغرب کو اسرائیل کی ضرورت کیوں ہے؟‘ وہ سوال کرتا اور پھر خود ہی جواب دینے پر اصرار کرتا۔ ’تیل۔ تیل۔ تیل۔ سمجھ آئی؟‘ مجھے سمجھ آگئی۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست کو سمجھنے اور اس میں حصہ لینے کے لیے تعریف، تکرار اور چکنے پن کا استعمال کیا جاتا۔
1931ء میں جرمنی میں پیدا ہونے والے آکیوا اورر٭٭ نے 1948ء کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ آج بھی شکل سے ایسا سپاہی لگتا تھا جو جنگ میں حصہ لے چکا ہو۔ مجھے خوشی تھی کہ وہ ہماری طرف تھا۔ عرصہ ہوا وہ اسرائیلی وطن پرستی سے تائب ہو چکا تھا مگر گھر کے بھیدی کے طور پراسے خوب معلومات حاصل تھیں۔ وہ کئی سال تک برطانیہ میں رہا اور 1990ء میں اسرائیل چلا گیا۔ وہ یروشلم کے پاس بہت سارے فلسطینی دوستوں کے قریب رہتا ہے۔ ہم کبھی کبھار فون پر بات کرتے ہیں یا کبھی ای میل آجاتی ہے۔ اس کا غصہ اور شدید ہو چکا ہے۔ وہ لیفٹ، صیہونیت کا نقاب اوڑ ہے قبائلی ذہنیت رکھنے والے اخراج پرستوں کی آنکھوں میں آئے بال کو خوب پہنچانتا ہے۔ وہ نصف صدی سے ان کے نظریات کا مقابلہ کر رہا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسرائیلی تاریخ پر دسترس اور اپنے طیش کے باعث وہ ناقابلِ شکست دشمن ہے۔
جابرہ نکولاعیسائی پس منظر رکھنے والا عیسائی تھا جو حیفہ میں رہتا تھا مگر زندگی کے آخری ایام اس نے جلاوطنی میں گزارے۔ وہ ایسی دو قومی فلسطینی ریاست پر کامل یقین رکھتا تھا جہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور جو ایک دن عرب، سوشلسٹ جمہوریاؤں کی فیڈریشن کا حصہ بن جائے گی۔ وہ اس نقطہئ نظر سے رتی برابر پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں تھا۔ کوئی درمیانی حل محض موقع پرستی اور خود غرضی کے مترادف تھا۔ قوم پرستی مسئلہ تھا نہ کہ حل۔ کیا ہمیں دکھائی نہیں دیتاکہ یہودی قوم پرستی نے فلسطین کا کیا حال کر دیا ہے؟ اس کا جواب محکوموں کی قوم پرستی سے نہیں دیا جاسکتا بلکہ ضرورت قوم پرستی سے ماورا ہو جانے کی ہے۔ یہ سب باتیں جلیل القدر اور یوٹو پیائی نظر آتی تھیں۔ میں آسانی سے قائل ہو گیا۔
میں آخری بار جابرہ نکولا سے ملا تو ستر کی دہائی کا اختتام ہو رہا تھا۔ اس کے بیٹے نے فون پرمجھے بتایا کہ وہ فوری طور پر مجھے ملنا چاہتا ہے۔ میں مغربی لندن کے ہیمر سمتھ ہسپتال پہنچا تو بارش ہو رہی تھی۔ بوڑھا فلسطینی گیری ایٹرک وارڈ میں پڑا موت کا انتظار کر رہا تھااور اس کے چاروں طرف مریض ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے۔ مریضوں کی اکثریت نیم بہری تھی لہٰذا بے سرے پن کے ہاتھوں گفتگو خاصی دشوار تھی۔ اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ میں اس کی طاقت پر حیران رہ گیا۔ ’میں مرنا چاہتا ہوں‘، اس نے کراہتے ہوئے کہا۔ ’میں اب کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کے بعد اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور بائیں ہاتھ سے معنی خیز اشارے کے انداز میں دنیا پر لعنت بھیجی۔ کیا اسے کوئی دوش دے سکتا تھا؟ اسے اس ہسپتال سے نفرت تھی۔ مجھے سنگترے کے باغ، نیلے آسمان اور بحیرہ اوقیانوس یاد آرہے تھے جو وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ وہ بھی انہی بارے سوچ رہا ہو گا۔ میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور اسے کہا کہ تمہاری ضرورت اب بھی ہے، ایک نئی نسل کو ویسے ہی تربیت چاہئے ہو گی جیسے کبھی اس نے ہمیں تعلیم دی تھی،مگر اس نے غصے سے سر ہلایا اور منہ پھیر لیا۔ وہ کوئی جذباتی انسان نہیں تھا اور میرے خیال سے وہ میری اس جھوٹی تسلی پر خفا تھا کہ وہ مزید زندہ رہ سکتا ہے۔ کچھ ہفتوں بعد وہ وفات پا گیا۔ ہم نے اسے لندن کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ گھر سے دور ایک اور فلسطینی جنازہ۔
ان سب کی کہانیاں مختلف تھیں کہ ان تینوں کا تعلق تین مختلف تجربات سے تھا مگر تینوں بپتاؤں میں ایک مشترکہ بات تھی۔ صیہونیت…… سیکولر یہودی قوم پرستی…… ان ملحد یہودیوں کی تخلیق تھی جو یہ محسوس کرتے تھے کہ یورپی یہود دشمنی کے باعث بطور فرد یورپ میں رہنا ممکن نہیں رہا۔ یہودی صرف اور صرف بطور ایک گروہ برقرار رہ سکتے تھے اور انہیں اپنی قومی ریاست بنانی چاہئے۔ نئے عقیدے کے بانی تھیوڈر ہرزل (1860-1904ء) کے ذہن میں کوئی خاص علاقہ نہیں تھا اور وہ کہیں بھی یہ ریاست قائم کرنے کے لیے تیار تھا۔ وہ ارجنٹائن، ماریشس، یوگنڈایا کہیں اور جانے پر بھی تیار تھا۔ اس کے رجعت پسند مریدوں کا اصرار تھا کہ ایک یہودی ریاست عہد نامہ قدیم کے صیہون (یروشلم …… مترجم) میں ہی قائم ہو سکتی ہے: چنانچہ یوں صیہونیت کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔ انجیل کی روایت کے مطابق یہ وہ خطہ تھا جسے فلسطین کہتے ہیں اور یہاں ایک ہزار سال سے عرب آباد تھے۔ ہرزل نے اس تصور کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور یورپی یہودیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ ممکنہ مہاجروں سے بڑے بڑے وعدے کئے گئے اور انہیں پھانسنے کے لیے ہر طرح کے جھوٹ گھڑے گئے۔ ایک جھوٹ یہ تھا کہ اس سر زمین پر کوئی نہیں بستا۔ صیہونی منصوبے کے آغاز سے چند سال قبل فرنچ یہودی بارن ایڈمنڈ دی رتھس چائلڈ٭ نے سلطنت عثمانیہ کے سلطان کی اجازت سے فلسطین میں ایک یہودی آبادی کے لیے وسائل مہیا کئے تھے۔ ہرزل کی صیہونی تنظیم کے قیام سے چھ سال قبل، 1891ء میں یہودی دانشور اشر گنز برگ (1856-1927) نے رتھس چائلڈ کی قائم کردہ آبادیوں کا تفصیلی دورہ کیا اور ’ٹرتھ فرام فلسطین‘(2) کے نام سے ایک شاندار قسم کی پیش گوئی رقم کی۔ اس نے پیش گوئی کی کہ اگر آباد کاری جاری رہی تو اس کا لازمی نتیجہ فلسطینیوں سے تضاد کی صورت نکلے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے یورپ میں مقیم یہودی برادریوں میں عربوں بارے پائے جانے والے نسل پرستانہ اور خام انگوٹھا چھاپ سوچ بارے بھی خبردار کیا۔ اس مضمون کی اصل اہمیت اس بنیاد پرست صیہونی قصہ گوئی کی تردید ہے کہ: فلسطین ’لوگوں کے بغیر سر زمین‘ ہے جو ’زمین کے بغیر لوگوں‘ یعنی یہودیوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ گنزبرگ لکھتا ہے:
”ہمیں بیرون ملک باور کرایا جاتا ہے کہ فلسطین آج کل ایک بے آب وگیاہ صحرا ہے اور جو بھی وہاں زمین خریدنا چاہے، اپنی مرضی کے مطابق جتنی چاہے زمین خرید لے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ پورے علاقے میں شائد ہی کوئی قابلِ کاشت جگہ ہو گی جہاں کاشت کاری نہیں ہو رہی۔ صرف ریگزار اور پہاڑی چٹانیں ہیں جہاں کاشت کاری نہیں ہوتی، یہاں صرف درخت اُگائے جا سکتے ہیں اور وہ بھی سخت محنت مشقت اور جان جوکھوں کے بعد اور عرب انہیں کاشت نہیں کرتے کیونکہ وہ مستقبل بعید کے لیے آج سخت مشقت کرنے کے قائل نہیں۔ لہٰذا اچھی زمین برائے فروخت روز روز نہیں ملتی۔ بے داغ اور اچھی زمین بیچنے پر نہ تو جاگیردار تیار ہیں نہ کسان………… بیرون ملک ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ عرب صحرا کے وحشی ہیں، جانوروں کی طرح جاہل ہیں، جنہیں نہ خبر ہے نہ کوئی سمجھ کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ عرب سامیوں کی طرح ذہین اور چالاک ہے…………
عرب بالخصوص شہریوں کے باسی، فلسطین اندر ہمارے نصب العین کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر آنکھ میچے ہوئے ہیں کیونکہ وہ ہمیں اپنے مستقبل کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے اور ہمارا بھی استحصال کرنا چاہتے ہیں ………… جب کوئی نئی یہودی بستی آباد ہوتی ہے تو کسان خوش ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے کام کی اچھی مزودری کی توقع ہوتی ہے اور یوں سال بہ سال وہ مالدار ہوتے جاتے ہیں۔ بڑے جاگیردار بھی خوش ہیں کیونکہ ہم رتیلی اور پتھریلی زمین کی وہ بھاری قیمت ادا کرتے ہیں جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہاں البتہ جب ایسا وقت آئے گاکہ ہمیں وہاں کی مقامی آبادی کو، کم و بیش، وہاں سے نکالنا پڑے گا تو یہ لوگ اتنی آسانی سے یہ نہیں ہونے دیں گے“۔
اپنی تحریر میں ایک اور جگہ گنزبرگ کہتا ہے کہ مجوزہ ریاست کو یہودی ریاست نہیں کہا جا سکتا اگر وہ ’طبعی طاقت‘ کی اس قدر مداح بن جاتی ہے۔ اس کے خیال میں یہودی نسل نے خود کو ’روحانی قوت‘ کے ذریعے زندہ رکھا ہے۔ فلسطین کے بارے میں جو بحث چل رہی تھی وہ کسی طرح بھی روایتی نو آبادیاتی منصوبہ تھا۔
”سویہ کہ یہودیوں کی ریاست آخر کار ایک ایسی ریاست ہو گی جیسی جرمنوں یا فرانسیسیوں کی ہے، جہاں صرف یہودی آباد ہوں گے۔ اس عمل کی ایک چھوٹی سی مثال پہلے ہی فلسطین میں قائم ہو چکی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہیروڈ سلطنت کے زمانے میں اسرائیل حقیقتاً ایک ’یہودی ریاست‘ تھا مگر یہودی ثقافت کو ردکیا جاتا تھا اور یہ جبر کا شکار تھی………… ایسی یہودی ریاست ہمارے لوگوں کے لئے زہر قاتل ہو گی اس کی روح جبر کی چکی میں پستی رہے گی……………… یہ چھوٹی ریاست…………………… محض سفارتی سازشوں اور غالب طاقتوں کی غلامی کے ذریعے ہی قائم رہ سکے گی…………
چنانچہ حقیقت میں آج کی نسبت کہیں زیادہ ’چھوٹے، بھاگ جلے، لوگ‘ ہر مجوزہ غالب قوت کے غلام ہوں گے……………… کیا یہ بہتر نہیں کہ ’قوموں کے لیے مینارہ نور، قدیم قوم‘ ایسے نصب العین تک پہنچنے کی بجائے تاریخ سے محو ہو جائے۔“(17)
گنزبرگ کو احساس تھا کہ اگر یہودی ’ثقافتی موجودگی‘ کی جگہ سیاسی ریاست لائی گئی تو اس کا لازمی نتیجہ مقامی باشندوں سے تضاد کی صورت نکلے گا، عین یہی ہوا۔
صیہونی ریاست کے ملحدبانیوں کی ترش روئی اور پہلی فلسطینی انتفادہ (1936-9) کو دبانے کے لیے سامراجی برطانوی ریاست کو جس بے رحمی سے انہوں نے مدد فراہمی کی اس سے آنے والے دنوں کا پتہ ملتا تھا۔ فلسطینی سرکشی یہودی نو آبادیاتی قبضے کے خلاف ایک احتجاج تھا اور وہ بہت پہلے کامیاب ہو چکے ہوتے بشرطیکہ برطانیہ موجود نہ ہوتا۔ عوامی غصے کے اس ریلے کو 25,000 برطانوی سپاہیوں، ان کے صیہونی مدد گاروں اور رائل ائرفورس کے بمبار طیاروں کی مدد سے روکا گیا۔ برطانوی سلطنت نے سرکشی کو دبانے کے لیے کبھی اتنا بڑا فوجی اقدام نہیں کیا تھا اور دوبارہ اس کی نوبت دوسری عالمی جنگ کے بعد ملایا میں آئی۔ فلسطینیوں کے خلاف نو آبادیاتی حملے کے عروج پر ونسٹن چرچل 1937ء میں پیل تحقیقاتی کمیشن٭کے سامنے پیش ہوا اور اس نے یہ کہہ کر برطانوی اقدامات کا جواز مہیا کیا کہ یہودی نسلی اعتبار سے برتر ہیں اور اس جواز کو تقویت پہنچانے کے لئے اس نے ایک بھونڈی مثال پیش کی:
”میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ کھرلی پر بندھے کُتے کا کھرلی پر دائمی حق ہوتا ہے، چاہے وہ وہاں کتنی ہی دیر سے کیوں نہ پڑا ہو۔ میں، مثلاً، اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ امریکہ کے ریڈ انڈین عوام یا آسٹریلیا کی سیاہ عوام سے کوئی بڑا انیائے ہوا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں سے محض اس لئے انیائے ہوا ہے کہ ایک مضبوط نسل، ایک برتر نسل یا یوں کہہ لیجئے ایک زیادہ عقل مند نسل وہاں آگئی ہے اور اس نے ان کی جگہ لے لی ہے“۔
سامراجی قزاق ایک زمانے سے اپنے دفاع کے لیے یہ دلیل دیتے آئے تھے۔ اس میں حیرت کیسی کہ چرچل نے اس کا موازنہ نازی جرمنی میں ہونیوالے واقعات سے نہیں کیا جہاں ایک اور ’برترنسل‘ اپنی برتری قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یورپ میں جنگ چھڑنے سے کچھ ہی پہلے فلسطینی سرکشی کچل دی گئی۔ عربوں کو کچلنے میں مدد دینے پر برطانیہ نے صیہونیوں کو ایک ریاست بطور انعام دینے کا وعدہ کیا، مگر جنگ ختم ہونے کے بعد، ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں کو خوش کرنے کے لیے یہودی امیگریشن محدود کرنے کا وعدہ کیا۔ اس وعدے کے باعث صیہونیوں کے رائٹ ونگ حلقے ارگون(1) کے ساتھ کشیدگی پیدا ہو گئی اور اس نے انگریزوں کے خلاف دہشت گرد حملوں کا آغاز کر دیا۔ بن گورین کی قیادت میں رضاکاروں نے ارگون کے مشتبہ افراد کی جاسوسی اور گرفتاری میں مدد دی۔ یہودیوں کی اس باہمی خانہ جنگی کا اختتام دوسری عالمی جنگ کے ساتھ ہوا۔ دونوں دھڑے برطانیہ کے خلاف متحد ہو گئے۔
1947ء میں برطانیہ نے اپنا مینڈیٹ اقوام متحدہ کو لوٹا دیا۔ اس معزز ایوان نے موقع پر مہیا کی گئی امریکی رہنمائی اور سوویت روس کی پشت پناہی سے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے کو عرب ریاستوں نے رد کر دیا جبکہ برطانیہ اس فیصلے پر چیں بجبیں تھا کیونکہ برطانیہ کو محسوس ہوا گویا وہ اپنی سلطنت کا ایک حصہ کھو رہا ہے۔ برطانیہ نے عراق، مصر اور اُردن میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ان ریاستوں کو اکسایا کہ وہ اپنی فوجیں فلسطین بھیج دیں تاکہ اس منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔ برطانیہ کا خیال تھا کہ اس طرح جو افراتفری پیدا ہوگی اس کے پیش نظر اسے دوبارہ معاملات سنبھالنے اور آزادی کی طرف منظم پیش رفت کے لئے کہا جائے گا۔ ماسکو کی ہدایات پر چیک حکومت کی مسلح کی ہوئی اسرائیلی فوج نے برطانیہ کو حیرت میں ڈال دیا اور عرب سورماؤں کو شکست دے دی۔
اسرائیلی رہنما بن گورین نے سچ مچ اردن کے شاہ حسین کو روپے اور اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطینیوں کو ملنے والے نصف علاقے (مغربی کنارے) کے عوض خرید لیا۔ باقی آدھا حصہ اسرائیل نے ہڑپ کر لیا۔ والیئ مکہ و مدینہ، حضرت محمدؐ کی اولاد، برطانیہ کی طرف سے تخت پر بٹھائے گئے ہاشمی فرمانروا نے یہ گھٹیا سودے بازی منظور کرلی۔اس نے اسرائیلی پیغام رساں سے یہ کہتے ہوئے نقد رقم کا مطالبہ کیا کہ اگر نشے میں دھت ہونا ہو تو جام نہیں گننے چاہئیں، یعنی نصف فلسطین اور اس کی غیر جانبداری کے بدلے میں اسرائیلیوں کو چاندی کے سکے گنتے ہوئے بہت زیادہ متردد نہیں ہونا چاہیے۔ فلسطینیوں سے بہت بڑی غداری کی گئی تھی۔برطانوی سامراج، سلامتی کونسل اور ایک عرب بادشاہ پر مبنی غیر مقدس مثلث نے انہیں صیہونیوں کے ہاتھوں بیچ دیا تھا جنہوں نے بڑی طاقتوں کی مذمت کا خوف کھائے بغیر اپنے علاقے میں اضافہ کر لیا تھا۔ شاہ عبداللہ اور صیہونیوں کے مابین ہونے والی سودے بازی سے اقوام متحدہ کا منصوبہ سبوتاژ ہوگیا مگر سلامتی کونسل نے اس عمل کو روکنے کے لئے کچھ نہ کیا۔
قیام اسرائیل کے دن سے اس کے صیہونی رہنما طے کئے بیٹھے تھے کہ وہ اس ملک سے فلسطینیوں کونکال دیں گے۔وہ یورپ میں جنم لینے والے ’لوگوں کے بغیر سرزمین‘کے تصور کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔ فلسطینی اب بے حیثیت عوام تھے۔ جنہیں نکالا نہ جا سکا، ان سے شودروں والا سلوک کیا جانے لگا۔ بہت سے یہودیوں نے اسرائیل کی یادداشت کے مشترکہ خزانے سے ان بے لطف واقعات کو محو کر دیا ہے۔ فلسطینی دیہاتوں کی تباہی اور پوری پوری آبادی کے انخلاء کے بعد نئی ریاست کے شہری خودساختہ خول میں چھپ کر بیٹھ گئے۔
ان کا خیال تھا کہ باقی عرب دنیا سے کاٹ دینے کے بعد فلسطینی کہانیوں کی کبھی تصدیق ہو سکے گی نہ کبھی بے دخل کئے گئے لوگوں کے اعداد و شمار کا سراغ لگ سکے گا۔ اور لگ بھگ ایک دہائی تک انہوں نے یا ان کے نام پر ہونے والے جرائم پر وہ پردہ ڈالنے میں کامیاب رہے۔
1953ء میں اسرائیل میں پیدا ہونے والی یائل اوررن کہان٭ کی بیان کردہ کہانی کوئی اچھوتی کہانی نہیں ہے۔ امید ہے کہ جو لوگ ان تجربات سے گزرے وہ بھی یائل کی طرح ایک روز ان کے بارے میں ایمانداری اور تفصیل سے لکھیں گے۔ یائل ان جرمن پناہ گزین ماں باپ کی بیٹی تھی جو 1937ء میں برطانیہ اور بعد ازاں فلسطین چلے آئے، وہ ایک ایسے ماحول میں پلی بڑھی جہاں یہودیوں پر مسلسل یہ تنقید ہوتی تھی کہ وہ فاشسٹ قتل عام کی مزاحمت نہ کر سکے اور ان کا موازنہ نئی ریاست قائم کرنے والے صیہونی سورماؤں سے ہوتا تھا۔ اور یہ وہ دنیا تھی جس میں فلسطینی نظر نہیں آتے تھے:
”مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی سی اپنے ابا کے کندھوں پر سوار ہوتی اور ہم ساحرانہ باغوں اور باغیچوں اندر گھوما کرتے۔میں ناخ کی کانٹے دار باڑوں کے ساتھ دوڑتی چلی جاتی۔
میرا خیال تھا جنت ایسی ہی ہوگی۔ ہاں مگر ارد گرد پھیلا ملبہ مجھے خوفزدہ کر دیتا۔ مجھے اس ویرانگی کی سمجھ نہ آتی۔ کون ہے جو اس جنت کو چھوڑ کر جا سکتا ہے؟ اس جگہ کا نام بشیت تھا۔ میں نے اپنے ابا سے پوچھا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ جب اس جنت کو مسمار کر کے یہاں نئے گھر بنا دیئے گئے اور اسے اسیرت کا نیا نام دے دیا گیا تو میرا سوال بھی غائب ہوگیا۔میں نے یہاں آنے والے نئے اسرائیلوں سے دوستی کر لی اور ماضی کے ہیولوں کو بھول گئی۔ بہت سالوں بعد مغربی پٹی میں رفاہ مہاجر کیمپ اندر میری ملاقات بشیت کے پرانے باسیوں سے ہوئی۔تب تک مجھے پتہ چل چکا تھا کہ کفر مورد چائی٭، میرے بچپن کا گھر بشیت کی زمیں پر واقع تھا مگر میں اب وہاں نہیں رہتی تھی۔
مہاجروں کی جھونپڑیاں دیکھ کر مجھے شرمندگی ہو رہی تھی۔ ان کوٹھیوں بارے سوچ کر جو ان کی زمین پر تعمیر ہوئی ہیں، سخت لاچارگی کی ایک ٹیس اٹھی۔ بشیت کے قریبی قصبے پینی سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے مجھے اداس دیکھا تو ڈھارس بندھانے لگی۔ اس کے دل میں کتنا درد تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا اس کا خاوند ایک اسرائیلی عمارت کی تعمیر کے دوران مارا گیا جبکہ بیٹا گولیوں کا نشانہ بن گیا“۔(18)
بن گورین کے لالچ اور بے رحمی نے مستقبل پر ایک دھبہ لگا دیا۔ بنیادی نا انصافی کے باوجود اگر وہ اقوام متحدہ کی تب متعین کردہ سرحد کو تسلیم کر لیتا تو اسرائیلی رہنما اور ان کے حامی یہ دلیل دے سکتے تھے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے فیصلے کو تسلیم کیا ہے اور وہ ہر جارح کی مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے بالکل اس کے برعکس کیا۔ انہوں نے شاہ عبداللہ سے ساز باز کے ذریعے اقوام متحدہ کے متعین کردہ علاقے سے تجاوز کر کے مزید اراضی ہتھیا لی اور نسلی صفائی شروع کر دی جس کا فیصلہ وہ کئی سال پہلے سے کر چکے تھے۔ یہ ہمیشہ سے صیہونی منصوبے کا حصہ تھا۔ 1895ء کو ہرزل نے اپنی ڈائری میں لکھا: ”ہم قلاش لوگوں کو سرحد پار بھیج دیں گے جہاں ٹرانزٹ ممالک میں ان کے لئے روزگار کا بندوبست کیا جائے گا جبکہ اپنے ملک میں ہم انہیں کوئی نوکری نہیں دیں گے…… غریبوں کی بے دخلی اور ان کے مال اسباب کی ضبطی کا عمل ہشیاری اور دانش مندی سے کرنا ہوگا۔“
1938ء میں جوئش ایجنسی ایگزیکٹو کے سامنے ’لازمی اخراج‘ کے نظرئیے کا دفاع کرتے ہوئے بن گورین کا کہنا تھا: ”میں ملک کی تقسیم کے حق میں ہوں کیونکہ جب ہم قیام ریاست کے بعد مضبوط قوت بن جائیں گے تو ہم تقسیم کا خاتمہ کر دیں گے اور پورے فلسطین میں پھیل جائیں گے۔“
اسی باعث صیہونی نقطہ نظر اخلاقی اور سیاسی لحاظ سے ناقابل تسلیم بن گیا۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے بن گورین کا خیال تھا کہ وہ شاہ عبداللہ کے ساتھ علیحدہ سے معاہدہ کرے گا اور یوں اسے امید تھی کہ اس کا سوچا ہوا مسئلہ فلسطین کا حتمی حل نکل آئے گا۔ اس کی بجائے ہوا یوں کہ ایک نوجوان فلسطینی نے 1951ء میں مسجد الاقصیٰ کے باہر شاہ عبداللہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور وقتی طور پر بن گورین کے منصوبے کو درہم برہم کر دیا۔ عرب دنیا میں کسی مقامی فرمانروا کے قتل پر یوں سرِعام اظہار خوشی کم کم ہی ہوا ہوگا۔
فلسطین کی گونج سے مسلسل ہیجان پیدا ہوتا رہا۔ شاہ عبداللہ کو فارغ کئے ایک سال گزرا تھا کہ مصری فوج اندر فری آفیسرز نامی خفیہ تنظیم میں منظم قوم پرست ذہنیت رکھنے والے کرنیلوں، میجروں اور کپتانوں نے اپنے فربہ اندام فرمانروا کا تختہ الٹ کر محمد علی خاندان کی شاہی کا خاتمہ کر دیا۔ شاہ فاروق خوش تھا کہ اس کی جان بخش دی گئی اور اسے بغیر کسی غل غپاڑے کے فرنچ ریویرا٭ میں زندگی گزارنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔
دوسری عالمی جنگ کے فوری بعد برطانوی جرنیل ایلن بی نے اعلان کیا تھا: ”انگریز بے فکر ہو کر مصر کو خیرباد کہہ سکتے ہیں: سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے مصری جاگیرداروں کا ایک ایسا بڑا طبقہ قائم کر دیا ہے جس پر برطانیہ مصر میں اپنی پالیسی کے حوالے سے پورا اعتماد کر سکتا ہے۔“ لیکن مصر میں مختصر برطانوی موجودگی کے باعث یہ مشکل تھا کہ برطانیہ اس نوآبادیاتی نظام کو نیل کے ساحل پر بھی لاگو کرے جو اس نے ہندوستان میں لاگو کیا تھا۔ محمد علی کی روشن فکر عثمان ازم کے چھوڑے ہوئے اثرات کو قلم زد کرنا آسان نہ تھا۔ جاگیرداروں کی اولاد کو مصری فوج اندر مراعات یافتہ حیثیت سے نوازا جاتا تھا مگر 1936ء میں برطانوی شرائط کو جواز بنا کر اس وقت کے زیرک لبرل قوم پرست وزیر دفاع نے قومی فوج کی تعمیر پر اصرار کیا۔ اس نے افسروں کے لئے لاگو شرائط کا خاتمہ کر کے شہری متوسط طبقے اور پیٹی بورژوا پس منظر رکھنے والے کیڈٹوں کو فوجی اکادمی میں آنے کی دعوت دی۔ یوں افسر طبقے کا کردار اور معاشرتی بنیاد رفتہ رفتہ بدل گئی۔ نئے رنگروٹ شہری ماحول میں پنپنے والے خیالات سے متاثر تھے: قوم پرستی، اسلام پرستی، سوشلزم۔ فری آفیسرز کی اکثریت کا تعلق 1938-40ء میں بھرتی ہونے والی کیڈٹوں کی کھیپ سے تھا۔
1952ء میں اقتدار پر فری آفیسرز کا قبضہ بِن برکھا بجلی کی کڑک نہیں تھا۔1949-51ء کے پورے عرصے میں بڑی جاگیروں پر، بشمول شاہی جاگیر، کسان بغاوتوں کی ایک لہر آئی ہوئی تھی۔ بہت سے موقعوں پر کسانوں نے نجی محافظوں اور پولیس چوکیوں پر جدید اسلحے سے حملہ کیا جو صرف فوج میں موجود ان کے حمایتی ہی فراہم کر سکتے تھے۔ یہ کمیونسٹ تنظیمیں تھیں جنہوں نے جاگیروں پر متحرک کسان کارکنوں کا صنعتی مراکز اور کسی حد تک چھاؤنیوں سے رابطہ پیدا کیا تھا۔ 1944-48ء کے دوران مصری کمیونسٹ نہ صرف مضبوط ٹریڈ یونینیں بنا چکے تھے بلکہ دیہاتوں میں متحدہ محاذ کمیٹیاں بھی تشکیل دینے میں کامیاب رہے تھے جن کے تحت طلباء اور اساتذہ کسان کارکنوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔
فری آفیسرز ان واقعات سے آگاہ تھے گو ان اقدامات کا حصہ نہیں تھے۔ فری آفیسرز کی بغاوت بارے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ملک میں معاشرتی انقلاب کی جانب ایک قدم ہے۔ بادشاہت کے خاتمے نے لوگوں کے جوش و ولولے میں اضافہ کر دیا اور عوامی جدوجہد کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جوانتہائی ترقی پسند فوجی افسروں کے ذہن میں موجود حدود کو بھی پارکر گیا۔13 اگست 1952ء کو برطانوی کارخانوں میں ہڑتال کو نئی حکومت نے سختی سے کچل دیا۔ ایک فوجی عدالت میں دو بڑے مزدور رہنماؤں پر مقدمہ چلا، جرم ثابت ہونے پر انہیں موت کی سزا سنا دی گئی۔ اگلے روز دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔ ایک ماہ بعد حکمران انقلابی کمانڈ کونسل کے زیادہ ترقی پسند ارکان نے بیک وقت کسانوں کی بغاوت روکنے اور دیہی اشرافیہ کی سیاسی طاقت ختم کرنے کے لئے محدود زرعی اصلاحات کا اعلان کر دیا۔ ان اصلاحات کے تحت زمین کی حد زیادہ سے زیادہ 300 میدان 120) ہیکٹر(مقرر ہوئی اور وعدہ کیا گیا کہ اگلے پانچ سالوں میں ریاست ضبط شدہ زمین کو بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دے گی۔ جاگیردار چیخ اٹھے، انہوں نے حکومت پر نجی ملکیت کے حق میں قرآنی آیات کی بوچھاڑ کر دی، مگر بے سود۔ اصلاحات کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے لیکن دس سال بعد یہ بات مشاہدے میں آئی کہ محض دس فیصد زمین بیس لاکھ کسانوں میں تقسیم ہوسکی تھی۔ انتہائی حسرت ناک نتائج۔
ان دنوں ملک میں سوچ کے دو دھارے تھے۔ کسانوں، مزدوروں اور دانشور طبقے کے اہم حصوں پر کمیونسٹوں کے اثر سے قوم پرست مضطرب ہوئے جاتے تھے۔ گزشتہ حکومت نے کمیونسٹوں پر جو جبر کیا تھا اس کے باعث پورے ملک میں ان کی تکریم میں اضافہ ہوا تھا۔ فری آفیسرز کے پاس بائیں بازو بارے کوئی ایسی مربوط پالیسی نہ تھی لہٰذا انہوں نے اخوان المسلمین سے رابطہ کیا اور کچھ تو پہلے ہی سے اخوان المسلمین کے ساتھ رابطے میں آچکے تھے۔
اخوان المسلمین کا سلسلہئ نسب خاصا دلچسپ ہے۔ یہ 1924ء میں استنبول خلافت کا خاتمہ ہونے پر ہندوستان میں شروع ہونے والی احیاء پسند تحریک سے مماثلت رکھتی تھی۔ کمال پاشا کا یہ جرأت مندانہ فیصلہ کہ اس بوسیدہ ادارے کو ہی ختم کر دیا جائے جو نہ تو خود اپنی اصلاح کر سکا نہ مذہب کی، اہلِ اسلام میں تقسیم کا باعث بنا۔ جدت پسند تو خوش تھے مگر وہ رجعت پسند علماء اور روایتی اہلِ ایمان ناخوش تھے جو فیز پہن کر اپنی شناخت پر اتراتے۔
ان میں سے ایک ایسا ہی نالاں شخص مصری حسن البناء (1906-49ء) تھے جو سکول میں پڑھاتے تھے اور ان کا تعلق اسماعلیہ سے تھا۔ وہ مصر میں لاگو ہونے والے 1923ء کے سیکولر آئین سے ناخوش تھے اور ایک سال بعد خلافت کا خاتمہ تو ناقابل قبول اختتامیہ تھا۔ وہ جدیدیت اور اس کی برائیوں کے دشمن بن گئے۔ انہوں نے جب اسلامی دنیا کا جائزہ لیا تو جزیرہ نما عرب میں وہابیوں کی فتح سے متاثر ہوئے اور ان کا خیال تھا کہ یہ فتح باقی جگہوں میں بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ 1928ء میں انہوں نے تعلیم اور پراپیگنڈے کے ذریعے اخلاقی اور سیاسی اصلاحات کے فروغ کی خاطر 1928ء میں اخوان المسلمین کی بنیاد رکھی۔ نئی تنظیم کا چارٹر اس کے بنیادی آئین سے ہی واضح تھا۔ اس میں ساتویں صدی کی سیاست سے رجوع کرنے کی تلقین تھی: ”خدا ہمارا مقصود، رسول ہمارا رہنما، قرآن ہمارا آئین، جہاد ہمارا راستہ اور اللہ کی راہ میں جان دینا ہمارا مقصد اعلیٰ ہے“۔ حریف رجعت پرستوں، کافروں اور وحدانیت پرستوں کو للکارنے اور پچھاڑنے کے لئے پیغمبر اسلام کو ایک نئے معاشی و سیاسی نظام کی ضرورت تھی۔ اس نظام کا ایک بڑا حصہ تو’گھوڑے کی پیٹھ پر سوار‘ ہوئے تشکیل دیا گیا کہ مسلمان لشکر نئے علاقے فتح کر رہے تھے۔ عقیدہ اور ریاست، کتاب اور تلوارکا مرقع تیز رفتار فتوحات کا تقاضا تھا ساتھ ہی ساتھ ایسے نئے قوانین کی ضرورت تھی جو روزمرہ زندگی کے لئے ضابطہ ء حیات کا کام دے سکیں۔ دوسری گال پیش کرنے سے انکار کی خاطر عیسائیت کو قسطنطنیہ کا انتظار کرنا پڑا۔ اسلام کو کبھی اس قسم کی فلسفیانہ الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ابتدائے اسلام کے معمولات بڑی حد تک آٹھویں اور نویں صدی میں نسبتاً تن آسانی کا شکار ہو چکے تھے۔ جدیدیت اور بیسویں صدی کے پیدا کردہ مسائل سے نپٹنے کے لئے ابتدائی اسلام کا احیاء جرأتمندانہ بات ضرور تھی مگر یہ فی زمانہ مسائل سے مفر کا اعلان بھی تھا۔ شروع سے ہی اخوان المسلمین بیرونی دشمن کے اتنے خلاف نہیں تھی جتنی اسلام اندر موجود ’منافقین‘، ’منحرفین‘ اور ’مرتدین‘ کے خلاف تھی۔
قیام کی پہلی دہائی کارکنوں کی بھرتی اور پراپیگنڈے پر صَرف ہوئی۔ اس کا نشانہ زیادہ تر جدت پسند اور کمیونسٹ تھے۔1936 میں نیورمبرگ میں ہونے والی نازی کانگرس میں ینگ اجپٹ (نوجوان مصر) کے گرین شرٹس والے مندوبین کا استقبال کیا گیا، یہ جماعت سخت گیر قوم پرستوں اور اسلام پرستوں کے ادغام سے وجود میں آئی تھی۔ دوران جنگ جب فیلڈ مارشل رومیل سکندریہ سے لگ بھگ ستر کلومیٹر دور دو ال عالمین کے مقام پر تھے تو خوراک کی کمی کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوگئے جن کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ برطانیہ نے جان بوجھ کر کروائے ہیں۔ مظاہروں میں لگنے والا نعرہ: الاالامام رومیل (رومیل قدم بڑھاو)، سے ہرگز بھی برطانوی فوجیوں کی حوصلہ افزائی نہ ہو رہی تھی۔ اگر جرمن اور اطالوی فوجیں انگریزوں کو شکست دے کر اسکندریہ میں داخل ہوگئی ہوتیں تو قوم پرست اجتماع نے انہیں ’نجات دہندہ‘ کے طور پر خوش آمدید کہا ہوتا۔ یہاں اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ کمیونسٹ اور اخوان المسلمین ایسا نہ کرتے۔
حسن البناء نے اخوان المسلمین کو اس قسم کی سرگرمیوں سے دور رکھا۔ باوجودیکہ اخوان المسلمین بڑی حد تک ایک زیر ِ زمین سیاسی تنظیم کی طرح کام کر رہی تھی……اس کا ایک زیرِ زمین مسلح ونگ بھی قائم کیا گیا تھا…… مگر تنظیم ایک سماجی تحریک کے طور پر کام کرنے پر مصر تھی۔ اسکی حریف اول مصری کمیونسٹ پارٹی تھی اور جنگ کے بعد اخوان نے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کر لیا تاکہ لیفٹ قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کی قیادت میں چلنے والی سامراج مخالف تحریک کو کمزور کیا جاسکے۔ اخوان المسلمین نے اپنے کارکنوں کو مصری لیفٹ کے خلاف جنگ میں جھونک دیا اور اسلام کے نام پر عوامی تحریک کی کھال کھینچ کر رکھ دی۔ اخوان المسلمین کے عُذر خواہ آج بھی اس حقیقت پر پردہ دڈالنے کی کوشش میں لگے ہیں کہ حسن النباء اس دور میں مسلسل برگیڈیئر کلیٹن٭ سے رابطے میں تھے، جس کا تعلق برطانوی ملٹری انٹیلی جنس سے تھا اور وہ قاہرہ میں برطانوی سفارت خانے میں بطور ’اورینٹل کونسلر‘ متعین تھا۔ (19)
1945-48ء کے عرصے میں اخوان المسلمین نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دہشت پسندانہ کارروائیوں کا آغاز کیا اور ان کا نشانہ بننے والوں میں قوم پرست اور بائیں بازو کے رہنما شامل تھے، تھیٹروں کو نشانہ بنایا جاتا تھا، اور قیام اسرائیل کے بعد یہودیوں کے کاروباری ٹھکانوں کو بارود سے اڑا دیا جاتا تھا۔ ستمبر 1948ء میں ہرات الیہود (یہودی کو ارٹرز) کو بھی نشانہ بنایا گیا جس میں دو درجن افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمی ہونیوالوں کی تعداد اس سے تین گنا تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ حکومت کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین کو معطل کرنے پر مجبور کیا جائے، اس طرح ان کے خیال میں معاشرے سے ریڈیکل سیکولرازم کی قوتوں کو کمزور کیا جا سکتا تھا۔ پولیس کے سربراہ کو فارغ کرنے کا جو فیصلہ اخوان المسلمین نے کیا، اس کے نتیجے میں شہری آزادیوں پر تو پابندیاں لگیں لیکن حکومت کو ہلاکت کی ذمہ دار تنظیم کے خلاف بھی قدم اٹھانا پڑا۔ اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کے تین ہفتے بعد ہی وزیر اعظم نقرشی پاشا ایک اخی کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ ’جب الفاظ پر پابندی لگا دی جائے‘، اخوان رہنما نے کہا، ’تو ہاتھ حرکت میں آجاتے ہیں‘۔ تین ماہ بعد، 12 فروری 1949ء کو مخالف ہاتھ حرکت میں آئے اور ’رہبراعظم‘ کو فارغ کر دیا گیا: حسن البناء کو ایک حکومتی ایجنٹ نے قتل کر دیا، یہ ماورائے عدالت قتل تھا جس کی منظم منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
قوم پرستوں اور مارکسیوں کے خلاف اسلامی جہاد کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ عوامی حمایت حاصل کرنا تو دور کی بات، ایک مسلمان ملک میں ایسے گروہ کی موجودگی بھی اخوان المسلمین کے سر پر لٹکتی تلوار تھی۔ کیوں؟ کیونکہ دشمن مادیت پسند تھے۔ حسن البناء، اخوان اور ان کے اَن گنت وارث اگر کوئی چیز برداشت نہیں کر سکتے تو وہ ہے مادیت ایک مکتبہ فکر اور عقیدے کے محدود معنی میں یا حادثاتی طور پر نہیں بلکہ ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر۔ یہ وہ چیز ہے جسے قربان نہیں کیا جا سکتا، ریاست پر جس کی چاہے حکومت ہو۔ تمام جاندار اشیاء ……وہ جانور، وال سٹریٹ بنکار اور سیاستدان ہوں یا راہب، راہبائیں، ملاں اور پروہت…… کی مادیت اسی تحت الشعوری جبلت سے تحریک لیتی ہے۔ سوچنے والے لوگ سچ کو مادے میں تلاش کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے سچ کہیں اور نہیں ملے گا۔
مصر میں آخری بار آزادانہ عام انتخابات جنوری 1950ء میں ہوئے جس میں لبرل قوم پرستوں کی اکثریت جیتی جبکہ وفد پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن قابض برطانوی فوج نے قوم پرستوں کے مابین گہری تقسیم پیدا کر دی۔ جب نئے وزیراعظم نے قوم کو مطلع کیا کہ وہ برطانیہ سے ازسرِنو مذاکرات اور امریکہ سے ’دوستی، تجارت اور جہاز رانی کا معاہدہ‘ کرنے ہی والے ہیں تو پورا ملک ابل پڑا۔ صرف 1950ء کے سال اُنچاس ہڑتالیں ہوئیں جبکہ ہر شہر میں عوامی مظاہرے کئے گئے۔ تیور صاف دکھائی دے رہے تھے۔ برطانیہ کو جانا پڑنا تھا۔ مصری وزیرخارجہ بے کار میں انگریزوں کی منتیں کر رہے تھے کہ ”وہ سمجھنے کی کوشش کریں، ان کی ملک میں موجودگی کے باعث ایسی صورت بن گئی ہے جہاں لوگ ’حب الوطنی اور کمیونسٹ پراپیگنڈے‘ کا فرق نہیں سمجھتے۔“
تاریخ برطانیہ کی ترقی پسند ترین لیبر حکومت کچھ ایسے سامراجی گھمنڈ کا مظاہرہ کر رہی تھی کہ اس کے کنزرویٹو پیش رو بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ حکومت نے مصر سے فوجیں نکالنے سے انکار کر دیا تاوقتیکہ مصر امریکہ نواز اتحاد میں شامل نہ ہو جائے۔ انقلابی دھماکے کے خوف سے حکومت نے ناٹو کی عرب شاخ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا (دیگر مجوزہ ارکان میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ترکی شامل تھے)۔ چیمبر آف ڈپٹیز میں اس اعلان کے ہوتے ہی ہر شہر میں اظہار مسرت کے لئے جلوس نکالے گئے۔ اسماعلیہ میں برطانوی دستوں نے مظاہرین پر گولی چلا دی۔
اس واقعے کے چند ہفتوں اندر، طلباء— مزدور— کسان کمیٹیوں نے گوریلا دستے تشکیل دیئے اور نہرسویز زون کی طرف چل پڑے۔ ان سب کا تعلق بائیں بازو یا قوم پرستوں سے نہیں تھا۔ اخوان المسلمین اور کٹر قوم پرست ’نوجوان مصر‘ کے دستے بھی شامل تھے۔ جدوجہد کی قیادت کون کرے گا؟ سیکولر قوم پرست اور بایاں بازو یا مذہبی قوم پرست اور دایاں بازو؟ مصری فوج کے بعض حصوں نے دونوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں کو ہتھیاروں اور فنون حرب کی تربیت دی۔ جب کسان لڑائی میں شریک ہوئے تو اس میں شدت پیدا ہوگئی اور بہت سے مواقع پر برطانوی فوجوں کو پسپا ہونا پڑا۔
لیبر حکومت کو اپنی فوج اندر بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ماریشس سے بذریعہ ہوائی جہاز لائے جانے والے دستوں نے واضح کر دیا کہ اگر انہیں مصری لوگوں پر گولی چلانے کا حکم ہوا تو وہ انکار کر دیں گے۔ کئی سو کو تو گرفتار کر لیا گیا۔ جو فوجی لڑائی میں شریک بھی ہوئے، ان کے حوصلے پست تھے حتیٰ کہ دی ٹائمز کو بھی اپنی 26 دسمبر 1951ء کی ادارتی اشاعت میں یہ کہنا پڑا: ’برطانوی فوجیوں کے اعصاب شدید ابتلا کا شکار ہیں۔ وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک ایسی فوجی چھاؤنی کو بچانے میں کیا مفاد ہو سکتا ہے جو مخالفانہ قوم پرست احساسات کے پیش نظر اپنی افادیت کھو چکی ہے……‘
اس جدوجہد میں چھ سو رضاکار کام آئے جن کا تعلق ملک کے تمام شہروں سے تھا۔وفد حکومت کو معلوم تھا کہ اگر اس نے کوئی قدم نہ اٹھایا تو عوامی ریلا اسے بہالے جائے گا۔اس نے لندن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا، یہ اعلان کیا گیا کہ غیر ملکی دستوں سے ساز باز کرنے والے شہریوں سے آہنی ہاتھ کے ساتھ نپٹا جائے گا، شہریوں کے اسلحہ رکھنے کی شرط کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے گئے، برطانیہ سے تعلقات توڑنے کی دھمکی دی گئی۔ پیغامبر ماسکو بھیجے گئے کہ وہ وہاں پائی جانے والی سوچ بارے جان سکیں اور عوامی سطح پر یہ بات زیرِ بحث لائی گئی کہ عرب دنیا میں سامراج مخالف محاذ بنایا جائے۔ حتیٰ کہ رائٹ ونگ پریس نے برطانوی انخلاء کا مطالبہ دہرایا۔ لندن کی لیبر حکومت نے کسی بھی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا۔
25 جنوری 1952ء کو مصری پولیس نے اسماعیلہ اندر برطانوی ٹینکوں اور توپوں کے خلاف لڑائی لڑی اور اب پورا ملک یہ باور کئے بیٹھا تھا کہ مصری فوج بھی اس بکھیڑے میں پڑ کر رہے گی۔ اگلے روز عام ہڑتال ہوئی اور پورا ملک جام ہوگیا۔ طلباء اور مزدوروں نے شہر کے مرکز تک مارچ کیا جہاں وزیراعظم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے برطانیہ کی ایٹلی حکومت سے فوری تعلقات توڑ کر سوویت یونین سے معاہدہ کرنے کا عہد کیا۔ ماسکو اور بیجنگ سے تو اظہار یکجہتی کے پیغامات آئے ہی آئے مگر بلغراد، جکارتہ اور دہلی نے بھی ایسے ہی پیغامات بھیجے۔
بائیں بازو کی طاقت کا زائد تخمینہ لگاتے ہوئے شاہ پرستوں اور برطانوی انٹیلی جنس کے مشیروں نے خانہ جنگی شروع کرانے کا فیصلہ کیا۔اسلام پرستوں کے پٹے کھول دیے گئے۔ اخوان المسلمین اور اس کے اتحادیوں نے قاہرہ کے کاروباری مرکز کو نذر آتش کر دیا۔ اس کے بعد تاریک گلیوں اندر عاشقوں کے جوڑوں اور قاہرہ کے اَن گنت شراب خانوں سے باہر نکلتے ہوئے لوگوں پر گولیاں برسانے کا آغاز ہوا۔ حکومت بوکھلا گئی اور ا س نے کرفیو نافذ کر دیا۔ بادشاہ نے اگلے روز اس حکم کو منسوخ کر دیا۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد گرفتار کر لئے گئے۔ قاہرہ میں لگنے والی آگ نے کام کر دکھایا تھا۔ جب پوچھا گیا کہ اخوان المسلمین کیا ہے تو اس کے رہنماؤں کا جواب تھا ’……ایک سلفی (روایتی) پیغام، سنی طریقہ کار، صوفی سچ، ایک سیاسی تنظیم، ایک ایتھلیٹک گروپ، ایک اقتصادی منصوبہ اور ایک سماجی نظریہ‘۔
چھ ماہ بعد فری آفیسرز نے ملک سنبھال لیا۔ ’فوجی انقلاب‘ برپا کرنے والے اٹھارہ مرکزی میجروں اور کرنیلوں میں چار (سادات، امر، حسین، میہانا) کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا، تین مارکسی تھے (خالد محی الدین، رفعت، صادق) اور باقی قوم پرست تھے۔ ناصر کی اپنی ساخت گلچین کنندہ تھی۔ وہ شروع میں وفد کے ساتھ تھے، بعد میں اخوان المسلمین سے جا ملے اور آخر میں بائیں بازو کے ہمدرد بن گئے۔ اگر یہ افسر— دانشور کسی تعریف پر پورا اترتے تھے تو وہ یہ تھی کہ یہ لوگ شہری پیٹی بورژوا /درمیانے طبقے کا پس منظر رکھتے تھے۔ انہوں نے بے شمار کتابیں پڑھیں، بحث مباحثے کئے اور ہم خیال افسران کے لئے فکری نشستوں کا اہتمام کیا۔ (20) ملٹری اکیڈمی میں بطور تاریخ کے پروفیسر، جمال عبدالناصر نئے رنگروٹوں پر براہ راست اثرانداز ہوتے۔ یہاں ناصر عربوں کی ابتدائی فوجی فتوحات پر کیڈٹوں کو لیکچر دیتے اور بتاتے کہ کس طرح اس دور میں اسلام تہذیب اور سائنس کا گہوارہ تھا جبکہ یورپ نیم تاریکی میں کھویا ہوا تھا۔ وہ انہیں بتاتے کہ کس طرح نشاۃ ثانیہ کے آغاز پر اسلام نے اپنی وراثت مغربی یورپ والوں کے حوالے کر دی اور خود ذلت اور پستی کا شکار ہوگیا۔ ماضی کی عظمت اچھی بات تھی مگر وہ لوٹ کر نہیں آسکتی تھی۔ اب اس بات پر گہرے بچار کی ضرورت تھی کہ عرب دنیا کے قومی شعور کو کیسے بیدار کیا جائے، کس طرح سے آگے کی طرف گامزن کیا جائے اور کس طرح اسے جدید بنایا جائے۔ اس لانگ مارچ کا تقاضا تھا سائنس اور تمام جدید نظریات کا علم۔
1952ء میں فری آفیسرز کی فتح کے فوری بعد ان کے رہنما محمد نجیب، بغاوت میں حصہ لینے والے واحد جرنیل، کو برطرف کر دیا گیا جبکہ جمال عبدالناصر مصر کے حقیقی سربراہ بن گئے۔یہ مقصد سیکولر لیفٹ کو تنہا کر کے اور اخوان المسلمین کے ساتھ سچ مچ کا اتحاد بنا کر حاصل کیا گیا۔ بائیں بازو کے خلاف استعمال کی جانے والی ایک دلیل یہ تھی کہ 1948ء میں اسرائیل کے خلاف اس نے جدوجہد میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ماسکو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عرب کمیونسٹوں نے قومی حق خودارادیت کی دلیل کو مانتے ہوئے اسرائیل کے وجود کی حمایت کی تھی۔ اس کے نتیجے میں بہت سوں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔اسرائیل نے اُردن کے شاہ عبداللہ کے ساتھ مل کر زمین پر قبضہ کرنا شروع کیا تو مصری بایاں بازو یکسر بدل گیا۔ اب بائیں باز والے اسرائیل کو سامراج کی پیداوار قرار دے رہے تھے مگر انہیں کبھی معاف نہیں کیا گیا۔اخوان المسلمین کے پراپیگنڈے میں ان ’کمیونسٹوں کی غداری‘ کا بار بار تذکرہ کیا جاتا۔
مصری کمیونسٹ سدا ہی دھڑے بندی کا شکار رہے۔ تین متحارب دھڑے بیس کی دہائی سے موجود تھے مگر ان کی باہمی کشمکش سے تنگ آکر 1930ء میں ماسکو نے ان کی کمیونسٹ انٹرنیشنل (کمنٹرن) کی رکنیت منسوخ کر دی۔ اگلے سال ان کی رکنیت اس شرط پر بحال کی گئی کہ وہ اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کریں گے ہاں ساتھ ہی ساتھ ماسکو نے نئی قیادت نامزد کر دی۔ مارچ 1932ء میں ماسکو کے نامزد کردہ مصری کمیونسٹوں نے اس دور کی کمنٹرن الٹرالیفٹ ازم کے عین مطابق، اپنا منشور شائع کیا جو جوش و جذبے سے معمور تھا لیکن ’ٹھوس حالات کے ٹھوس تجزیئے‘ سے عاری۔ منشور کے مطابق مصر برطانیہ کے لئے کپاس پیدا کرنے والی ایک جاگیر تھا جہاں مزدوروں سے بیگار لی جاتی تھی جبکہ جاگیردار اور شاہ غلاموں کی فراہمی اور دلال کام کر رہے تھے۔ وفد پارٹی ’بورژوا—جاگیردار—ردِ انقلابی— قومی— اصلاحات پسندی‘ کا نام تھی۔دو ماہ بعد کمنٹرن کے سرکاری ہفت روزہ انپریکور٭ میں مصری دستاویز کے سریل ٭٭کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے سر ذمہ داری لینے کی بجائے انتہائی بددیانت تشریح پیش کی ’…… مصر میں مزدور تحریک کی عارضی خامیوں کے نتیجے میں، پولیس کے گماشتے اور پیٹی بورژوا مہم پسند مصری کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمی میں خلل ڈالنے اور اسے مزدوروں سے کاٹنے میں کامیاب ہوگئے‘۔
استاد اور شاگرد دونوں ہی ایک دہائی بعد ہوش میں آئے مگر ایک بات آج بھی نہیں بدلی تھی: عوامی تحریک اندر کمیونسٹوں کا رسوخ ان کی حقیقی قوت سے ہمیشہ زیادہ رہا۔ پارٹی کی اصل ممبر شپ نے کبھی 2,500 سے تجاوز نہ کیا۔ اخوان المسلمین میں منظم ان کے عقیدہ پرست مخالفین کی تعداد کم سے کم 250,000 تھی۔ اگر بالفرض ان اعداد و شمار میں تربیت یافتہ کارکن اور ہمدرد، سب ہی شامل تھے، پھر بھی یہ بہت بڑا فرق تھا۔ یہ سچ ہے کہ کمیونسٹوں کے ماسکو اور بیجنگ اندر موجود ریاستی مشنریوں سے رابطوں کے باعث انہیں اہمیت حاصل تھی مگر اصل میدان میں ان کی کمزور حیثیت کسی حدتک یہ بات واضح کر دیتی ہے کہ کس طرح ناصرنے باآسانی، اقتدار پر قبضے کے فوری بعد، اخوان المسلمین کے ساتھ مل کر کمیونسٹوں کو ایک کونے میں لگا دیا۔ پچھلے واقعات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تواخوان المسلمین نے جس ضبط نفس کامظاہرہ کیا وہ قابل دادہے۔ انہوں نے حصول اقتدار کے لئے گلیوں کو استعمال نہیں کیا، انہوں نے ارادتاً فری آفیسرز کا ساتھ دیا، کم از کم فروری 1954ء تک یہ حالت تھی کہ انکے رہبرِ اعظم سید قطب کے لیے وزیرتعلیم بننے کی دعوت موجود تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔
سرد جنگ کی منقسم دنیا کو یہ باور کرا دینے کے بعد کہ وہ کمیونسٹوں کے ہمدرد نہیں، ناصرنے اخوان المسلمین کی طرف توجہ دی۔ جھگڑا اسلام پرستوں نے کھڑا کیا جن کا اصرار تھا کہ مصر میں شریعت نافذ کی جائے اور تمام سیکولر قوانین شریعت کے تابع ہونے چاہئیں۔ وہ افسر جو اب تک اسلامی نعرہ بازی کرتے آرہے تھے اور جنہوں نے قدیم سنی یونیورسٹی الازہر کی قدر و منزلت میں چندے کی فراہمی سے اضافہ کیا تھا، اب اس مطالبے کی راہ میں حائل ہوگئے۔ ان کا رد عمل معمول کے عین مطابق تھا۔ اخوان المسلمین پر پابندی لگا دی گئی۔ سات ماہ بعد، 23 اکتوبر 1954ء کو ایک اخوان قاتل نے بدلہ لینے کے لئے قاتلانہ حملہ کیا۔ ناصر گولی سے بچ نکلے۔ ممکنہ قاتل پانچ ساتھیوں سمیت گرفتار ہوا، مقدمہ چلا اور وہ پھانسی چڑھا دیا گیا۔ تنظیم کے کئی ہزار ارکان جیل بھیج دیئے گئے۔ الزام یہ تھا کہ اخوان المسلمین ایک مرتبہ پھر برطانیہ کے ساتھ ایک سامراج مخالف رہنما کو ہٹانے کے لئے ساز باز کر رہی تھی۔
ان بدلے ہوئے حالات نے حکومت اور بائیں بازو کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا گو ایک مرتبہ پھرناصر اور ان کے ساتھیوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ ریڈیکل دانشوروں کو اپنے اقتدار کے ڈھانچے میں سمو لیں۔ مخالف تنظیمیں برداشت نہیں کی جاسکتی تھیں۔ یہ تمام واقعات عالمی سطح پرموجود شدید کشیدگی کے پس منظر میں وقوع پذیر ہوئے۔ نئی حکومت بھی اپنی پیش رو کی طرح مغرب کے ساتھ سیکورٹی اتحاد قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ سرد جنگ کے دوران موڈ مثبت غیر جانبداری‘ کا تھا اور یہ وہ نقطہئ نظر تھا جو بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرو نے پیش کیا تھا جنہوں نے 1952-6ء کے عرصے میں کئی بار مصر کا دورہ کیا اور نہر سویز زون پر برطانوی قبضے کے خاتمے کے لئے ناصر کی مہمات کی کھلے عام حمایت کی۔
1955ء میں نو آزاد ایفرو ایشین ریاستوں کی بندونگ میں ہونے والی کانفرنس دوران ناصر چین اور بھارت سے ملنے والی حمایت سے شدید متاثر ہوئے جبکہ پاکستان، فلپائن اور تھائی لینڈ کے مغرب نواز غلام سیاستدانوں سے مل کر ناصر کو شدید دھچکا لگا۔ مصر واپسی پر وہ راستے میں دہلی، کراچی اور کابل میں رکے۔ ایک مرتبہ پھر وہ نہرو سے متاثر ہوئے۔ چند ماہ بعد ناصر کی ملاقات یوگوسلاویہ کے رہنما جوسپ بروز ٹیٹو سے ہوئی جس نے نہرو کے نقطہئ نظر کی حمایت کی۔ نہرو اورٹیٹو ناصرکو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ سرد جنگ کے مختلف بلاکوں سے علیحدہ رہا جائے مگر ساتھ ہی ساتھ برطانیہ پر دباؤ جاری رہے تاآنکہ وہ مصر خالی کر دے۔
مغربی قیادت نے دیکھا کہ دنیائے اسلام پوری طرح منقسم ہے۔1956ء میں مسلم دنیا کی اکثر حکومتیں لندن اور واشنگٹن کی گماشتہ تھیں: ترکی، پاکستان، ایران، سعودی عرب، اردن اور عراق۔ شام کی حکومت نیم گماشتہ تھی۔ صرف مصر اور انڈونیشیا تھے جو آزادانہ راستے کا انتخاب کرنا چاہتے تھے اور دونوں کو اس کی کڑی سزا ملنے والی تھی۔
مصر کے لئے پہلی سزا کا بندوبست ہوبھی چکا تھا۔ حکومت مصر کئی مہینوں سے اسفان کے مقام پر دریائے نیل کے اوپر ہائی ڈیم کی تعمیر کے لئے امریکہ اور انٹرنیشنل بنک فارری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی -بی- آر- ڈی) سے سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کر رہی تھی۔ بات چیت کامیاب رہی اور معاہدہ ہواہی چاہتا تھا۔ اچانک امریکہ نے انکار کر دیا۔ امریکہ کے بقول عالمی سطح پر ناصر کا جو کردار تھا وہ اس سے ناخوش تھا۔ نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ پاکستان، ایران اور ترکی ایسے وفادار اتحادیوں نے ’سب سے بڑا امریکی امدادی منصوبہ‘ ایک ایسے ملک کو دینے کی شدید مخالفت کی جو ’نہ صرف غیر جانبدار ہے بلکہ گاہے بگاہے مغرب مخالفت میں بھی سرگرمی دکھاتا ہے‘۔ تینوں چمچہ گیروں کا خیال تھا کہ اس امداد پر ان کا زیادہ حق بنتا ہے۔
امریکی سیکرٹری برائے خارجہ امور جان فاسٹرڈلس نے 19 جولائی 1956ء کو اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ ناصر کا غصہ عوامی موڈ کا آئینہ دار تھا۔26 جولائی 1956ء کو مصر کے صدر نے اسکندریہ کے مقام پر تقریر کرتے ہوئے اینگلوامریکن بلیک میلنگ کی شدید مذمت کی: ’ان سامراجیوں کو غصے میں جلنے دو‘، ناصر نے خبردار کیا اور وجد آور مجمع سے خطاب کرتے ہوئے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح جو آمدن ہوگی اس سے ڈیم بنے گا اور مصر اپنی معیشت اور سرزمین پر پھر سے خودمختاری حاصل کر لے گا۔ ناصر کی تقریر کا مقصد تھا کہ شکست خوردہ برطانوی سلطنت کے منہ پر سرِعام تھپڑ رسید کیا جائے۔ راتوں رات ناصر عرب دنیا اور سامراج مخالف دنیا کے ہیرو بن چکے تھے۔ خطے کی ہر فوج میں دراڑیں پڑ گئیں۔ سب سے زیادہ خوفزدہ بادشاہ تھے، مغرب نواز سیاستدان عوامی ردِعمل دیکھ کر کانپ اٹھے۔ مغرب کا جواب کیا ہوگا؟ برطانوی وزیراعظم سرانتھونی ایڈن نے مصر کے رہنما کو ’نیل کا ہٹلر‘ قرار دیا۔ ناصر برطانیہ کو خوب اچھی طرح جانتے تھے۔ انہیں معلوم تھا برطانیہ کا پہلی جبلی ردعمل جارحیت پر مبنی سفارت کاری ہوگا۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مغرب اسرائیل کو استعمال کرے گا۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم موشی شیرت کو پیغام بھیجا اور اس شرط پر بھرپور امن کی پیش کش کی کہ اسرائیل آنے والی کشمکش سے علیحدہ رہے۔ شیرت کا رویہ غیر ہمدردانہ نہیں تھا لیکن بن گورین خون کا پیاسا ہو رہا تھا۔