لاہور (پ ر) آج 21مئی کو پاکستان کے تیس مختلف اضلاع میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی کال پر کسانوں نے مظاہرے کئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ گندم سکینڈل میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے اور گندم کی سرکاری خریداری شروع کی جائے۔
پنجاب میں احتجاجی مظاہرے لاہور، ملتان، بہاولپور، وہاڑی، جھنگ، پاکپتن، چنیوٹ، قصور، خانیوال، بہاولنگر، ڈیرہ غازی خان، بورے والا، چشتیاں اور جام پور میں منعقد ہوئے۔
سندھ میں احتجاجی مظاہرے کراچی، شکارپور، نوابشاہ، قمبر شہدادکوٹ،نوشہرو فیروز، میرپورخاص، دادو، سانگھڑ اور شاہ پور چاکر میں منعقد ہوئے۔ بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے کوئٹہ، جھل مگسی اور خیبرپختونخواہ میں مظاہرے پشاور اورمردان میں منعقد ہوئے۔
ان مظاہروں کی قیادت کرنے والوں میں پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر ملک ذولفقار اعوان، سندھ ہاری تحریک کے رہنما نور محمد کٹیار، طارق محمود، گلزار خان، علی کھوسو، رانا عبدالرحمان، رفعت مقصود اور دیگر نے کی۔
لاہور میں کسانوں کا مظاہرہ چیئرنگ کراس پر منعقد ہوا،جس میں سینکڑوں کسان مردوں، عورتوں، نوجوانوں نے شرکت کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فوری خریداری شروع کی جائے۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جنرل سیکرٹری پاکستان کسان رابطہ کمیٹی فاروق طارق نے کسانوں کے مطالبات پیش کئے، جو درج ذیل ہیں:
٭ کسانوں سے گندم کی خریداری فوری شروع کی جائے۔
٭گندم سکینڈل میں ملوث افرادکو گرفتار کیا جائے۔
٭ نجی شعبے کو اناج درآمد کرنے کی اجازت دینے والی پالیسی کا خاتمہ کیا جائے۔
٭ گندم اور تمام فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت مقرر کی جائے۔
٭ حکومت کسانوں کی پیداوار کی منصفانہ قیمتوں کو یقینی بنانے کے لیے منڈی کو ریگولیٹ کرے۔
٭ آئی ایم ایف کی نو لبرل اور کسان مخالف پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
٭ گندم سکینڈل کا نشانہ بننے والے کسانوں کو معاوضہ دیا جائے۔
٭ چھوٹے کسانوں سے قرضوں پر سود لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
شیخوپورہ کے ایک چھوٹے کسان مہر محمد بوٹا نے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’حکومت کے گندم نہ خریدنے کی وجہ سے، ہمارے پاس اس وقت اتنے پیسے نہیں کہ چاول کی فصل لگا سکے، اور 80 فیصد چھوٹے کسانوں کا یہی حال ہے۔‘
لاہور میں مظاہرے سے خطاب کرنے والوں میں صائمہ ضاء، رفعت مقصود، قمر عباس، ضیغم عباس، حسنین جمیل، مہر محمد بوٹا،علی عبداللہ اور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔