نقطہ نظر

سوشلسٹ صحافت اور سرمایہ دار میڈیا کا فرق

فاروق سلہریا

۱۔پاکستان میں کرکٹ بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص کر جب ورلڈ کپ یا کوئی بڑی سیریز کھیلی جا رہی ہو تو لگ بھگ پورا ملک ٹیلی ویژن اسکرین سے چپکا ہو تا ہے۔ آپ میچ دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن چینل آپ کو میچ دکھا رہا ہے۔ حقیقت میں چینل کے نظر میں آپ ایک جنس (commodity)ہیں جسے چینل اشتہاری کمپنیوں کے ہاتھ بیچ رہا ہوتا ہے۔ کرکٹ میچ ہو یا کوئی ڈرامہ،چینل کے لئے یہ میچ یا ڈرامہ ایک بہانہ ہوتا ہے۔اس بہانے وہ آپ کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں،کہ آپ چینل کی آڈینس ہیں۔ اصل میں چینل کی آڈینس اشتہار دینے والی کمپنیاں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ ہر بال کے بیچ، ہر اُوور کے بیچ، اشتہار چل رہا ہوتا ہے۔

سرمایہ داری کی خوفناک بات یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کے تحت فارغ وقت یا تفریح کا وقت بھی commodify ہو جاتا ہے یعنی ایک ایسی جنس بنا دیا جاتا ہے جسے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔

کرکٹ میچ ہی لے لیجئے۱

آپ وقت نکال کر میچ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن کمرشل چینل اور اشتہار باز کارپوریشنز آپ کے فارغ وقت کو بیچ اور خرید رہے ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس ایک سوشلسٹ چینل یا اخبار کے لئے اس کے ناظرین اور قارئین ایک جنس نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر،روزنامہ جدوجہد آپ قارئین کے لئے پوسٹ کیا جاتا ہے۔ہم آپ سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ہمارا مقصد اشتہار حاصل کرنا نہیں۔ ہم نے تو بلکہ اشتہارات کے لئے اپنی ویب سائٹ ہی بند کر رکھی ہے تا کہ قارئین کو پڑھتے ہوئے اشتہارات دیکھنے کی کوفت نہ اٹھانی پڑے۔

۲۔سرمایہ دار کے نزدیک صحافت یا میڈیا ہاوس چلانے کا واحد مقصد منافع ہے۔ جیو، ڈان، ایکپریس۔۔۔یہ سب اِس ملک کے بڑے میڈیا ہاوس ہیں۔ انہوں نے اپنے انگریزی چینل بند کر دئیے کیونکہ منافع میں نہیں چل رہے تھے۔ گویا صحافت سے لگاو یا کمٹ منٹ صفر ہے۔ اس کے برعکس سوشلسٹ اخبار یا چینل صرف اور صرف صحافت کی غرض سے نکالا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سوشلسٹ اخبار اور چینل بھی بند ہو جاتے ہیں لیکن منافع کی وجہ سے نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اس قدر بے رحم ہوتا ہے کہ سوشلسٹ صحافت کے لئے کوئی راستہ نہیں چھوڑتا۔

۳۔ سرمایہ دار میڈیا کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو جاہل رکھا جائے۔انہیں بے شعور بنایا جائے۔ ان کے دماغ کے جالے اتارنے کی بجائے ان کے دماغ کو زنگ آلود کیا جائے۔ ان میں سائنسی اور منطقی سوچ کی بجائے قومیت، فرقہ واریت، مذہبی جنونیت اور اس قسم کے دیگر جذبات ابھارے جائیں۔ یہ کام ہوتا بھی آسان ہے۔ اس کے برعکس سوشلسٹ صحافت کا فرض ہوتا ہے کہ لوگوں تک شعور کی روشنی پہنچائی جائے۔ انہیں تعلیم دی جائے۔ انہیں طبقاتی بنیاد پر منظم کیا جائے۔ ان کو مہذب بنانے میں مدد دی جائے۔

۴۔سرمایہ میڈیا سٹیٹس کو کا حامی ہوتا ہے۔ سوشلسٹ صحافت انقلاب کی داعی ہوتی ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔