فاروق سلہریا
سب سے پہلے تو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کہتے کسے ہیں۔ اگر تو اس سے مراد ٹوئٹر‘ فیس بُک یا ویب سائٹس وغیرہ ہیں تو وہ دنیا کے ہر بڑے اخبار اور چینل کے پاس بھی ہیں۔ کیا نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ یا الجزیرہ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ سوشل میڈیا ہیں؟ پاکستان کے بڑے اخبارات اور تمام ٹی وی چینلوں بارے بھی یہ بات پوچھی جا سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا مثالوں کو ہم سوشل میڈیا کی بجائے مین اسٹریم میڈیا کا ہی تسلسل یا ایکسٹینشن قرار دیں گے۔
اسی طرح ”متبادل میڈیا“ کی مثال ہے۔ روزنامہ جدوجہد آن لائن کی مثال ہی لیجئے۔ یہ متبادل میڈیا تعمیر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کیا اس کی ویب سائٹ اور فیس بُک پیج یا ٹوئٹر اکاونٹ کو آپ سوشل میڈیا کہیں گے؟
کچھ لوگوں کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہو گا۔ آپ ان ویب سائٹس اور ان سے جڑے فیس بُک پیجز وغیرہ کو سوشل میڈیا نہیں کہہ سکتے۔
دراصل سوشل میڈیا سے مراد ویب سائٹس، فیس بُک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور ایسے دیگر پلیٹ فارم نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا سے مراد ان پلیٹ فارمز پر لکھا یا پیش کیا جانے والا وہ مواد ہے جو ان کے صارفین بلا معاضہ تخلیق کرتے ہیں اور یہ مواد ایڈیٹنگ (ادارتی مرحلے) سے نہیں گزرتا۔ یعنی لکھنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان کوئی مدیر حائل نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس روزنامہ جنگ سے متبادل میڈیا تک‘ دونوں صورتوں میں مواد ادارتی مرحلے سے گزر کر قارئین تک پہنچتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے کا مقصد منافع ہوتا ہے اور دوسرا بالعموم منافع کی لالچ سے پاک ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ ویب سائٹ جو آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں‘ جس کا مقصد پاکستان اور دنیا بھر میں ترقی پسند نظریات کا فروغ ہے۔
اب آئیے اصل موضوع کی طرف۔
سوشل میڈیا کا آغاز مختلف شکلوں میں 90ء کی دہائی سے ہی ہو گیا تھا۔ موجودہ دور کو سوشل میڈیا کا دور کہا جا رہا ہے۔ میڈیا کے ماہرین ہوں، عام انسان ہوں یا سیاسی کارکنان‘ ہر کوئی سوشل میڈیا کے گن گاتا دکھائی دے گا۔ سوشل میڈیا آج کل عمرو عیار کی وہ زنبیل ہے جس کے اندر سے ہر مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جب ’عرب بہار‘ (تیونس، مصر وغیرہ میں انقلابات) کا آغاز ہوا تو عالمی سطح پر سوشل میڈیا کا زبردست شور مچا تھا۔ ایسے ایسے میڈیا سکالر موجود ہیں جو ’عرب بہار‘ کو فیس بُک انقلاب قرار دے رہے تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جہاں سوشل میڈیا کی بھر مار تھی یعنی سعودی عرب اور اسکے خلیجی کزن‘ وہاں کوئی انقلابات (یا کم از کم کوئی بڑی تحریک) نہیں دیکھنے میں آئے۔
اسی طرح مصر میں بھی فیس بُک کے باوجود فوج مسلط ہو گئی۔ فیس بُک اور ٹوئٹر شام میں بشارالاسد کا بھی کچھ نہ بگاڑ سکے۔ یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ یمن یا لیبیا میں فیس بُک کو کیا زکام ہو گیا تھا۔
ایسے تنقیدی سوالوں کا جواب دینے کی بجائے سوشل میڈیا کے اندھے معتقد کوئی نئی مثال پیش کرنا شروع کر دیں گے۔ جب سوشل میڈیا کے باوجود ’عرب بہار‘ ایک خون آشام خزاں میں بدلنے لگی تو ترکی کی مثال سامنے آ گئی۔ رجب طیب اردگان کے خلاف 2016ء میں جب فوجی بغاوت ہوئی تو اسکی ناکامی کو بھی سوشل میڈیا کے گلے کا ہار بنا دیا گیا۔ حسین حقانی جو میڈیا کے حوالے سے ایک اہم کردار پاکستانی سیاست میں ادا کر چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی آئی فون اور فیس ٹائم کی کامیابی ہے!
حقیقت یہ ہے کہ اردگان کی جماعت کسی داخلی بغاوت سے نمٹنے کے لئے تیار تھی۔ بغاوت کا خدشہ موجود تھا۔ حکمران جماعت نے اس سے نمٹنے کی حکمت عملی بنا رکھی تھی۔ یہ بھی اہم ہے کہ ترک سماج کے کچھ حصوں میں اردگان کی کافی حمایت بھی موجود تھی۔
انقلاب یا ردِ انقلاب یا دوسری اہم سیاسی تبدیلیاں صرف ذرائع ابلاغ کی وجہ سے نہیں آتیں۔ انکے پیچھے سماجی، معاشی اور سیاسی وجوہات ہوتی ہیں۔ مگر کوئی سیاسی شخصیت یا پارٹی بطور قیادت اس تبدیلی کی علامت بن جاتے ہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ کا کردار چونکہ دیگر عوامل کی نسبت بڑا دکھائی دے رہا ہوتا ہے لہٰذا وہی کلیدی یا واحد وجہ نظر آنے لگتی ہے۔
یعنی ذرائع ابلاغ کا کوئی ذریعہ یا ٹیکنالوجی بذاتِ خود فیصلہ کن نہیں ہوتی۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی ہو‘ وہ سماجی اور سیاسی حقیقتوں میں ہی مقید ہوتی ہے۔ اس کی آسان سی مثال ایٹمی ٹیکنالوجی بھی ہے۔ جسے اِس خطے کے حکمرانوں نے جدید ترین بم بنانے کے لئے تو استعمال کر لیا ہے‘ لیکن یہاں کے عوام کو صاف پانی نیسلے سے خریدنا پڑتا ہے۔ یعنی ٹیکس کا پیسہ صاف پانی کی ٹیکنالوجی پر خرچ کرنا ہے یا بم بنانے پر‘یہ ایک طبقاتی فیصلہ ہے نہ کہ سائنسی۔
دوسری اہم بات یہ کہ کوئی بھی میڈیا کسی معاشرے میں طاقتوں کے توازن (بیلنس آف فورسز)کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان میں بایاں بازو اور ترقی پسند تحریک تو دو درجن خالی ہاتھ مزدوروں پر مشتمل ہو لیکن ملکی میڈیا ان کے قابو میں ہو۔ اگر یہ بات سمجھ لی جائے تو پاکستان جیسے معاشروں میں سوشل میڈیا کے اصل کردار کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے پاکستان میں مظلوم طبقات اور کچھ لوگوں کو انفرادی شکل میں اپنی آواز اٹھانے اور کچھ صورتوں میں انصاف حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔ بایاں بازو خود اس کی ایک مثال ہے۔ایک وہ دور تھا کہ ہفت روزہ یا ماہانہ پرچہ شائع کیا جاتا تھا‘ وہ بھی چند سو کاپیاں۔ پھر ان کو پوسٹ یا دوستوں کی مدد سے قارئین تک پہنچایا جاتا تھا۔ آج بائیں بازو کے متحرک کارکنان روزانہ لاکھوں لوگوں تک اپنی آواز پہنچا رہے ہیں۔ اگرچہ پرچے وغیرہ کی اشاعت کی اہمیت اپنی جگہ بدستور موجود ہے۔
لیکن انقلابِ روس کے قائد ٹراٹسکی کی نصیحت یاد آتی ہے کہ آپ صرف یہ مت دیکھیں کہ آپ کے نظریات کتنے پھیل رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھیں کہ آپ کے مخالفین کتنی ترقی کر رہے ہیں۔ اگر ان کی ترقی آپ کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے تو آپ کی ترقی پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اگر پاکستانی ترقی پسندوں نے میڈیا کا کامیاب استعمال کیا ہے (اور یہ انتہائی خوش آئند بات ہے اور اس کے استعمال میں اضافہ ہونا چاہئے) تو خادم رضوی جیسے افراد کو بھی سوشل میڈیا نے راتوں رات سٹار بنایا ہے۔ پی ٹی آئی (اور دوسری سرمایہ دارانہ پارٹیاں)، ریاستی ادارے، جماعت اسلامی، داعش اور طالبان تو گویا اس میدان کے شہسوار معلوم ہوتے ہیں۔
وجہ؟ آسان سا جواب ہے۔ طاقت کا توازن فی الوقت رجعتی قوتوں کے حق میں ہے۔ لیکن یہ توازن انقلابی تحریکوں اور جدوجہد سے بدلا جا سکتا ہے جس کے لئے عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کے لئے میں سوشل میڈیا کے جابرانہ استعمال کی چند مثالیں پاکستانی عورتوں اور بچوں کے حوالے سے دوں گا (یہ مثالیں مذہبی اقلیتوں، ٹریڈ یونینوں اور کسانوں کے حوالے سے بھی دی جا سکتی ہیں)۔
چند سال قبل قصور کا واقعہ سامنے آیا۔ مکروہ مجرموں کا ایک گروہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بناتا تھا۔ ان کے ذریعے مزید بلیک میل کیا جاتا تھا۔ نہ صرف یہ ویڈیو فروخت کیے جاتے تھے بلکہ بچوں کے گھر والوں کو بھی بلیک میل کیا جاتا تھا۔ ایسے واقعات میں دو سو اسی بچے متاثر ہوئے اورچار سو کلپ سامنے آئے۔
ابھی چند دن قبل سوات میں ایک سولہ سالہ لڑکے نے ایسی ہی بلیک میلنگ کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ اس کے ساتھ دومقامی نوجوان یہی کچھ کر رہے تھے۔ سوات میں یہ گھناؤنا کھیل پندرہ سال جاری رہا۔ جب مقامی صحافیوں کو پتا چلا تو انہوں نے اس خبر پر پردہ ڈالا تا کہ قصور جیسے امن عامہ کے حالات نہ پیدا ہو جائیں (ایسی صحافت کو بھی سات سلام!)
پشاور کے ایڈورڈ کالج کی طالبات کو بلیک میل کرنے کے لئے ایک مجرم نے فیس بُک پیج بنا رکھا تھا۔ اس پیج پر وہ طالبات کی برہنہ فوٹو شاپ تصاویر پوسٹ کرتا تھا۔
عام خواتین کی بات تو چھوڑیں۔ معروف سیاسی و سماجی خواتین کو ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا، ان کے بارے میں بدترین قسم کی فحش گفتگو پوسٹ کرنا معمول کی بات ہے۔ بینظیر، عاصمہ جہانگیر، ملالہ یوسفزئی اور خواتین اینکرز سے لے کے مریم نواز تک‘ سوشل میڈیا پر ہر قسم کی تضحیک، تذلیل، زبانی تشدد اور بد تمیزی کا نشانہ بنتی ہیں یا بنتی رہی ہیں۔
پاکستان کی سترہ جامعات میں ایک سروے ہوا تھا۔ ان جامعات کی چونتیس فیصد طالبات نے کہا کہ انہیں آن لائن ہراساں کیا جا چکا ہے۔
ہر میڈیا کی طرح سوشل میڈیا ایک اوزار ہے۔ جسے ہر طبقہ یا سماجی گروہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ جو رجحان سماجی طور پہ حاوی ہو گا وہی سوشل میڈیا پر بھی حاوی نظر آئے گا۔ اور ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ تمام بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں جن سے وہ اربوں ڈالر کے منافعے کما رہے ہیں۔
لیکن مغرب کی یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے دائیں بازو کے سکالر سوشل میڈیا بارے یہ سب بتائیں گے نہ اس پر تحقیق کریں گے۔ یہ نام نہاد سکالر سامراجی کاروبار کے لئے ریشمی لبادے کا کام کرتے ہیں۔ اپنے علم اور مہارت سے وہ آج کل تیسری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ سامراج کی مسلط کی گئی مبارک آمریت یا سعودی بادشاہت کو مت دیکھو۔ یہ بھی مت دیکھو کہ یہ ہمارے نیو لبرل ایجنڈے کا تقاضا ہے کہ ہم ایسے سیاسی نظام مسلط کریں جو تمہاری جمہوری آزادیاں ہڑپ کر جائیں۔ بس یہ دیکھو کہ ہم نے اب تمہارے لئے سوشل میڈیا بنا دیا ہے۔ یہ تمہیں آزادی بھی دلائے گا اور اسکی مدد سے تم دنیا بھر کی مارکیٹ سے آن لائن شاپنگ کرنے میں بھی آزاد ہو جاؤ گے… آؤ ہم سے مزید ٹیکنالوجی خریدو!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔