نقطہ نظر

’دہشت گردی سے زیادہ حکومتی آپریشنوں نے نقصان پہنچایا‘

حارث قدیر

پروفیسر (ر) اعجاز خان کہتے ہیں کہ ’’آپریشن عزم استحکام کا نشانہ اس بار بھی بلوچستان اور پختونخوا کے افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی اضلاع یعنی سابق فاٹا کے اضلاع بنتے نظر آرہے ہیں۔ پختونخوا میں تمام لوگ ہی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ لوگ دہشت گردی سے متاثرہ ہیں۔ ان کے لوگوں کو مارا گیا، ٹارگٹ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ ان کی زندگیوں کو برباد کیا جا رہا ہے، لیکن وہ پھر بھی ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ماضی کے آپریشنوں کا تجربہ ہے، جو بہت تلخ رہا ہے۔لوگوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ شاید کچھ دہشت گردوں کے خلاف حکومت آپریشن کرتی بھی نہیں ہے۔ گڈ بیڈ طالبان کی تفریق کی جاتی ہے۔ یہ باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ طالبان بندوقوں کے ساتھ چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ لوگوں کا اندازہ یہ ہے کہ یہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف نہیں ہوتے بلکہ ان سے صرف عام لوگوں کو ہی زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔ماضی کے آپریشنوں کے متاثرین اب بھی بحالی کے منتظر ہیں۔‘‘

پروفیسر (ر) اعجاز خان یونیورسٹی آف پشاور کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ساتھ منسلک رہے۔ وہ محقق اور تجزیہ کار ہیں اور افغانستان اور پاکستان کے معاملات پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بھی رکن ہیں۔ گزشتہ دنوں ‘آپریشن عزم استحکام’ سے متعلق ‘روزنامہ جدوجہد’ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے آپریشن ‘عزم استحکام’ کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ کس نوعیت کا آپریشن ہو گااور کن علاقوں میں آپریشن کئے جانے کا امکان ہے؟

اعجاز خان: حکومت کی طرف سے آپریشن عزم استحکام کا جو اعلان ہوا ہے، اس حوالے سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ نیا آپریشن نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پالیسی ہے، جس کے ذریعے سے پرانے جاری آپریشنوں کو زیادہ موثر کیا جائے گا۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ حکومت کا ارادہ ہے کہ اب زیادہ سخت ایکشن لیا جائے۔ اس کی زیادہ توجہ بھی مجھے لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہی ہونگے۔ خیبرپختونخوا میں افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی اضلاع یعنی سابق فاٹا کے اضلاع پر اس کی زیادہ توجہ مرکوز رہے گی۔

اس آپریشن کے خلاف پختونخوا میں احتجاج بھی ہو رہا ہے۔ یہ احتجاجی جلسے کہاں کہاں ہوئے اور انہیں منظم کرنے والے کون لوگ ہیں؟

اعجاز خان: آپریشن کے خلاف جو احتجاج ہو رہا ہے وہ وزیرستان، پشاور سمیت مختلف جگہوں پر ہو رہا ہے اور اس احتجاج کو منظم کرنے والے زیادہ تر عام لوگ ہیں۔ اس میں ظاہر سی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی ہونگی، لیکن عام لوگ زیادہ ہیں۔

ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن کئے گئے ہیں ان کے اثرات پختونخوا میں کیا پڑے ہیں ، لوگ کیسے متاثر ہوئے ہیں اورپختونخوا میں لوگوں کے کیا تحفظات ہیں؟

اعجاز خان: اصل میں یہ لوگ دہشت گردی سے متاثرہ ہیں۔ ان کے لوگوں کو مارا گیا، ٹارگٹ کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ ان کی زندگیوں کو برباد کیا جا رہا ہے، لیکن وہ پھر بھی ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ماضی کے آپریشنوں کا تجربہ ہے، جو بہت تلخ رہا ہے۔ حکومت جب آپریشن کا اعلان کرتی ہے تو وہ آپریشن فوج کرتی ہے۔ فوج کی تربیت دوسرے ملک کے خلاف لڑائی کی ہوتی ہے۔اسے بس یہ پتہ ہوتا ہے کہ لیکر کے دوسری طرف دشمن ہے۔ اس میں وہ سول اور مسلح کی تفریق کم ہی کرتی ہے۔ جب بمباری ہوتی ہے تو سب لوگ ہی نشانہ بنتے ہیں۔ تاہم دہشت گردی کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ اپنے ہی ملک کے اندر کے لوگ ہوتے ہیں، عام لوگوں کی طرح ہی دکھتے ہیں اور عام لوگوں سے ان کو الگ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

یہ سب کچھ ماضی کے آپریشنوں میں لوگوں نے دیکھا ہے۔ وزرستان، سوات اور باجوڑ وغیرہ سے لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آج تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے، ان کے گھر بار، کاروبار سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔

جب کہیں آپریشن جاری ہوتا ہے تو پھر جب کسی علاقے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو اس وقوعہ کے نزدیکی دو یا تین گاؤں کو گھیرے میں لے لیا جاتا ہے۔ یہ اندازہ لگایا جا تا ہے کہ دہشت گرد یہی کہیں چھپے ہونگے۔ اس کے رد عمل میں پھر سارے علاقے میں بمباری کی جاتی ہے، گھروں کی تلاشیاں لی جاتی ہیں، پکڑ دھکڑ شروع کی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پورے پورے دیہاتوں پر اجتماعی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے، جس سے پھر لوگ نالاں ہیں۔ دہشت گرد جب کہیں چھپا ہو تو پورے گاؤں کو پکڑنے والا کام یا پھر اندھا دھند بمباری جیسے اقدامات سے لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ دہشت گرد آتے ہیں تو وہ بھتہ لیتے ہیں، لیکن اس کی وجہ سے کم از کم ان کی دکان اور کاروبار وغیرہ تو بچ جاتے ہیں۔ جب آپریشن ہوتا ہے تو دہشت گرد مریں نہ مریں ان کا سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے لوگ سوچتے ہیں کہ دہشت گردی تو بری ہے اور ختم ہونی چاہیے لیکن انہیں پھر آپریشن کا نقصان دہشت گردی سے زیادہ نظر آتا ہے۔

ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن کئے گئے وہ دہشت گردی کے خلاف کس حد تک موثر قرار دیئے جا سکتے ہیں؟

اعجاز خان: لوگوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ شاید کچھ دہشت گردوں کے خلاف حکومت آپریشن کرتی بھی نہیں ہے۔ گڈ بیڈ طالبان کی تفریق کی جاتی ہے۔ یہ باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ طالبان بندوقوں کے ساتھ چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ لوگوں کا اندازہ یہ ہے کہ یہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف نہیں ہوتے بلکہ ان سے صرف عام لوگوں کو ہی زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔ لوگ اس لئے مخالفت نہیں کرتے کہ دہشت گردی کے خلاف ایکشن نہیں ہونا چاہیے، بالکل ہونا چاہیے، لیکن کیسے ہونا چاہیے اس حوالے سے ماضی کا تجربہ اتنا زیادہ اچھا نہیں رہا ہے۔ ماضی میں جتنے بھی آپریشن ہوئے ، ان کے نتیجے میں لوگوں نے نقل مکانی کی اور ان کا سب کچھ تباہ ہو گیا، لیکن فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا کیونکہ دہشت گردی پہلے سے زیادہ آج بھی موجودہے۔

اس وقت 2010اور2014میں دہشت گردی کسی حد تک کم ہو گئی تھی، لیکن افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مزید حوصلہ ملا ہے اور وہ واپس آئے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پورے زور و شور سے اپنی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ اس طرح لوگوں کا شک اور بھی مضبوط ہو جاتاہے کہ اب بھی آپریشن ان کے خلاف کم اور لوگوں کو برباد کرنے کیلئے زیادہ ہوگا۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعدپختونخوا میں دہشت گردوں کی دوبارہ آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس میں کس حد تک کمی آئی ہے اور اس کی ممکنہ وجوہات کیا ہیں؟

اعجاز خان: افغانستان میں جب طالبان نے قبضہ کیا تو وہاں سے دہشت گرد واپس آئے، بعض کو تو سرکاری طور پر لایا گیا۔ یہاں کے لوگ تو سب دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہاں منظم ہونا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ مزید منظم ہو کر دہشت گردانہ کارروائیاں بھی شروع کر دی گئیں۔ اس طرح مسئلہ بڑھ گیا۔

اب بھی کچھ لوگ آرہے ہیں لیکن کم آرہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ پہلے ہی آچکے ہیں۔ کچھ لوگ آکر کارروائی کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ طالبان بھی پاکستان کے ساتھ مکمل بگاڑنا نہیں چاہتے لیکن آنا جانا اب بھی لگا رہتا ہے۔ یہ بھی نہیں ہے کہ افغانستان سے طالبان نہیں آئیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہاں پہلے سے ہی کافی تعداد میں موجود ہیں اور یہاں پر کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کوئی ایک قوم سے نہیں ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ اسی یعنی پشتون قوم کے لوگ ہی ہونگے۔ اس میں مختلف قوموں کے نئے نئے لوگ آتے ہیں اور پہلے سے بھی ہیں۔ جو کچھ افغانستان میں ہوا اور جس طریقے سے طالبان کو خوش آمدید کہا گیا ، اس کی وجہ سے بھی مذہبی انتہاء پسند مختلف تنظیموں میں شامل ہونے لگے اور نئے ریکروٹس لا رہے ہیں۔ ان کے اس خیال کو مزید تقویت ملی ہے کہ بندوق کے ذریعے سے وہ جیت سکتے ہیں۔ اس پر انہیں مزید حوصلہ ملا ہے۔

یہ الزامات بھی عائد کئے جا رہے ہیں کہ سوات سے تو دہشت گرد واپس چلے گئے ہیں لیکن سابق فاٹا میں ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

اعجاز خان: سوات میں اب بھی دہشت گرد موجود ہیں۔ وہ کہیں نہیں گئے، پہلے بھی زیادہ تر کہیں نہیں گئے تھے۔ کچھ عرصہ کیلئے وہ سرگرم ہو جاتے ہیں اور پھر سرگرمی کم بھی ہوتی رہتی ہے۔ اب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سرگرمی کم ہوئی ہے۔ کسی جگہ پر سرگرم نہیں ہیں اور کسی جگہ پر زیادہ سرگرم ہوئے ہیں، لیکن یہ کہنا بالکل درست نہیں ہے کہ دہشت گرد وہاں سے چلے گئے ہیں۔

ماضی میں ریاست کی گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی جا ررہی ہے۔ موجودہ وقت پختونخوا میں ریاستی پالیسی کیا نظر آتی ہے اور کیا موجودہ آپریشن بھی طالبان کے مخصوص گروہ کے خلاف ہی ہوگا؟

اعجاز خان: سارے مسئلے کی جڑ یہی گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ہے۔ اس نے سارے حکومتی اقدامات کو ہی مشکوک بنا دیا ہے۔ یہ اچھے ہیں اور یہ برے ہیں والی پالیسی ٹھیک نہیں ہے۔ جو بھی ہے، کسی بھی مقصد کیلئے ہے، یہاں کا ہے یا وہاں کا ہے، کسی کو سوٹ کرتا ہے یا نہیں کرتا، طالبان اور دہشتگردی وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو نچلی سطح کے دہشت گرد ہوتے ہیں وہ آج اگر ایک گروپ میں ہیں تو کل دوسرے میں چلے جاتے ہیں۔ ان کی ایک دوسرے سے لڑائیں بھی ہوتی ہیں اور تعلقات بھی استوار ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ حکومت اپنی پالیسیوں کے تحت جب ان میں فرق قائم کرتی اور کچھ کے خلاف کارروائی اور کچھ کو محفوظ راستے فراہم کئے جاتے ہیں تو اس پالیسی کی وجہ سے حکومتی اقدامات ڈس کریڈٹ ہوتے جاتے ہیں۔

ایک بات اور کہی جا رہی ہے کہ اس آپریشن کا زیادہ نشانہ بلوچ بننے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

اعجاز خان: دہشت گردی کا نشانہ پہلے بھی بلوچ اور پشتون دونوں ہی تھے۔ یہ نظر آتا ہے کہ پہلے زیادہ فوکس پشتونوں میں تھا اور اس وقت یہ بلوچوں میں زیادہ ہو رہا ہے۔ یہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے کہ دہشت گردی کو ایک ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بلوچستان میں بلوچوں کے خلاف مذہبی دہشت گردوں کو ایک پالیسی کے تحت استعمال کیا گیا۔ بلوچ عسکری گروپ اچھے ہیں یا برے ہیں میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، نہ ان کی صفائی پیش کرنا میرا مقصد ہے۔ ویسے بھی بندوق کے ذریعے کوئی بھی سیاسی مسئلہ حل نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم جب ان کے خلاف مذہبی لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے تو پھر تباہی آتی ہے۔ بلوچوں کا مسئلہ ایک الگ ایشو ہے، ان کے ساتھ کیسے ڈیل کیا جائے یہ الگ بات ہے۔ اس میں البتہ جب مذہبی انتہاء پسندوں کو استعمال کیا جاتا ہے ، یا پشتون علاقوں، جموں کشمیر اور افغانستان میں انہیں ایک پالیسی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے تو پھر یہ وہاں تک محدود نہیں رہتے، جہاں تک آپ چاہتے ہیں۔ یہ پھر پھیل جاتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اپنا وار کرتے ہیں۔ یہی سب کچھ ہم اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

آپریشن ’عزم استحکام‘ کی بھی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کون کون سے سیاسی رجحانات اس کے خلاف ہیں اور ان کا موقف کیا ہے؟

اعجاز خان: آپریشن کی مخالفت کرنے والے مختلف لوگ ہیں اور زیادہ تر لوگ اس کی مخالفت ہی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو کسی کے ساتھ نہیں ہیں لیکن طالبان کی باتوں سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے خلاف آپریشن پر یقین نہیں رکھتے بلکہ مذاکرات اور کچھ لے اور دے کی بنیاد پر مسئلہ حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ دوسرے پختون قوم پرست ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس آپریشن سے ان کی سرزمین پر ایک دوسری جنگ شروع ہو جائے گی۔ جنگ کے نتیجے میں معیشت تباہ ہوگی، لوگ اجڑ جائیں گے اور اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کا موقف بھی یہی ہے کہ طالبان کا کچھ نہیں جاتا لیکن عام لوگ تباہ ہوتے ہیں۔ وہ اس آپریشن کو عالمی جنگ کے ساتھ بھی جوڑتے ہیں۔ چین اور امریکہ کے متضادات مفادات کے ساتھ، سی پیک کے ساتھ اور پھر امریکہ اور افغان طالبان کے معاملات کے تناظر میں بھی وہ اس آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس خطے کو ایک بار پھر جنگ کا میدان بنا دیا جائے گا۔ تیسرے وہ عام لوگ ہیں جو تاجر ہیں، کاروباری ہیں یا عام شہری ہیں۔ ان کو طالبان سے تکلیف ہے ، لیکن جب آپریشن کے نتائج دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ زیادہ تباہی آپریشن سے آتی ہے۔ اس لئے وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔