حارث قدیر
پاکستان میں صحت مند سرمایہ دارانہ جمہوری حکومت کا خواب تاحال پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ ملکی تاریخ کا ایک بڑا حصہ براہ راست فوجی آمریتوں میں ہی گزرا ہے۔ تاہم جمہوری ادوار میں بھی حکومت سازی اور حکومت چلانے میں فوج کا ایک فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد2008میں جمہوریت کی بحالی تو ہوئی لیکن فوج ملک میں ایک غالب ادارے کے طور پرہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک محض دو حکومتیں ہی اپنی مدت پوری کر پائیں ہیں، تاہم کوئی بھی وزیراعظم 5سالہ مدت پوری نہیں کر پایا ہے۔
حال ہی میں سوئٹزرلینڈ میں ’Contemporary Populists in Power‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عاصمہ فیض نے پاکستان سے متعلق ایک باب لکھا ہے۔انہوں نے جہاں پاکستان کی حکومت میں فوجی مداخلت اور اثر و رسوخ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہیں انہوں نے یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان کی پاپولر حکومت نے فوج کی مداخلت کو ماضی کے تمام ادوار کی نسبت زیادہ بڑھاوا دیا اور ایک پاپولر حکومت مشرف کی آمریت کی طرز پر قائم کی گئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ عمران خان کے دور حکومت کے بارے میں کوئی بھی مطالعہ فوجی اشرافیہ اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلق کو جانے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ پاکستان میں سویلین سپرمیسی ایک خواب ہی رہا ہے۔ تاہم عمران خان کی وزیراعظم آفس میں آمد کے بعد فوجی اشرافیہ کو ایک ایسا پرفیکٹ سویلین سیٹ اپ میسر آیا، جس کے ذریعے تبدیلی کے نام پر اسٹیٹس کو مضبوط کیا جا سکے۔ تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کے دعوؤں پر اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے فوجی اشرافیہ کو وہ پلیٹ فارم مہیا کیا کہ وہ اپنا اثرورسوخ بڑھا سکیں۔
انہوں نے عمران خان کے فوج کے ساتھ قریبی تعلقات اور مختلف مواقعوں پر عمران خان کے حکومت سے پہلے کئے گئے دعوؤں کے برعکس اقدامات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
2014کے دھرنے کے دوران امپائر کے انگلی اٹھانے کا معروف جملہ مشہور ہوا، جو فوجی اشرافیہ کی مداخلت سے اقتدار کے خاتمے کی طرف اشارہ تھا۔ اقتدار کے پہلے 3سالوں میں انہوں نے غیر معمولی سول ملٹری ہم آہنگی کا بیانیہ اپنایا اور متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ سول حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ عمران خان کا موقف تھا کہ ماضی کی سول حکومتیں کرپشن کی وجہ سے فوج کے سامنے کمزور اور خوفزدہ تھیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ پنجاب اور مرکز میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے بھی عمران خان کو فوج پر زیادہ انحصار کرنا پڑا اور پی ٹی آئی کا ریکارڈ مایوس کن رہا۔ حکومت میں آنے کے فوری بعد عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کا دفاع کیا، جبکہ ماضی میں وہ عوامی سطح پر مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ دو بار آئین معطل کرنے پر پرویز مشرف کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس مطالبے سے نہ صرف دستبردار ہوئے بلکہ مشرف کے خلاف جاری کیس میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے عمران خان حکومت نے اکتوبر2019میں وفاقی پراسیکیوشن ٹیم کو ہی ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ جب دوبارہ ٹرائل شروع ہوا اور خصوصی عدالت نے دسمبر2019میں مشرف کو سزائے موت دی تو پی ٹی آئی حکومت اور فوج اس فیصلہ پر دکھ کا اظہار کرنے میں بھی ’ایک پیج‘پر تھیں۔
اس کے علاوہ بھی عمران خان نے مشرف کا مختلف مواقع پر دفاع کیا اور کہا کہ مشرف کو اپنے دفاع کا شفاف موقع نہیں دیا گیا۔ ایک اور غیر معمولی حرکت یہ کی گئی کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے مشرف کا دفاع کرنے کیلئے وزارت سے استعفیٰ دیدیا۔ مجموعی طور پر عمران خان کی حکومت نے فوجی اشرافیہ کے ساتھ مل کر مشرف کااحتساب کرنے کے تمام اقدامات کو روکنے کی کوشش کی۔
عمران خان حکومت نے اگست2019میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا اعلان کیا۔ گو یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہو۔ طویل فوجی آمریتوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کی سول حکومت نے بھی جولائی2010میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت میں توسیع کی تھی۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ البتہ اس وقت بہت زیادہ اجاگر ہوا جب سپریم کورٹ نے توسیع کے معاملہ میں قانونی تقاضے پورے نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے وزارت سے استعفیٰ دیا اور آرمی چیف کے وکیل بن کر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ میں انہیں اپنی ہی ڈرافٹ کردہ دستاویز میں قانونی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑا۔ تاہم بعد ازاں جب پارلیمنٹ نے ضروری قانون سازی کر کے جنرل باجوہ کی توسیع کا معاملہ حل کیا، تو پھر فروغ نسیم نے دوبارہ وزارت قانون کا قلمدان سنبھال لیا۔
ڈاکٹر عاصمہ فیض لکھتی ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں فوجی اشرافیہ کی مداخلت کا ایک اور پہلو فیصلہ سازی میں مداخلت تھی۔ شیخ رشید، حفیظ شیخ، رزاق داؤد، زبیدہ جلال، اعجاز شاہ، فردوس عاشق اعوان اور فروغ نسیم جیسے افراد پر مشتمل کابینہ تھی۔ یہی افراد مشرف کی کابینہ میں بھی شامل تھے۔ ایک اور اہم بات کابینہ میں غیر منتخب ٹیکنوکریٹس کی ایک بڑی تعداد میں شمولیت تھی۔ ان غیر منتخب افراد کو داخلہ، خزانہ، نیشنل سکیورٹی جیسے اہم قلمدان سونپے گئے تھے۔ اس کے علاوہ دسمبر2020تک عمران خان کی کابینہ میں خلاف آئین15معاونین خصوص برائے وزیراعظم شامل تھے۔
یہ فوجی حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ ان کی کابینہ زیادہ تر ٹیکنوکریٹس پر مشتمل رہی ہے۔ حالیہ تاریخ میں کسی بھی منتخب حکوم تنے اتنی بڑی تعداد میں غیر منتخب مشیر نہیں رکھے، جو مقننہ کے سامنے جوابدہ بھی نہیں تھے۔ گورننس کا یہ طریقہ فوجی آمریت کی طرز کا تھا۔
وہ لکھتی ہیں کہ سویلین معاملات میں فوج کی مداخلت بھی حالیہ دہائیوں میں کسی بھی سول حکومت سے کئی گنا زیادہ رہی ہے۔ بیرون ملک اہم پالیسی دورے جنرل باجوہ کرتے رہے ہیں، یا پھر وزیراعظم کے ہمراہ جاتے رہے ہیں۔ 22جولائی2019کو امریکی صدر ٹرمپ سے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات میں ان کے ہمراہ آرمی چیف جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
اہم عہدوں پر ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔ سی پیک اتھارٹی، پی آئی اے، سٹیل ملز، این آئی ایچ اور این ڈی ایم اے کے سربراہان ریٹائرڈ فوجی افسرتھے۔ جولائی2019میں نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل(این ڈی سی) بنائی گئی، جس میں آرمی چیف کو بھی شامل کیا گیا۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ فوج کے سابق ترجمان جنرل (ر)عاصم باجوہ کو وزیراعظم کا خصوصی ایڈوائزر برائے اطلاعات تعینات کیا گیا۔ اس تقرری کو کورونا وبا کے دوران حکومت کی ابلاغ عامہ کی کارکردگی پر فوج کے عدم اطمینان کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ عاصم باجوہ کو بعد ازاں خاندان پر کرپشن کے الزامات کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا۔
ڈاکٹر عاصمہ فیض کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت فوج کو اقتدار میں حصہ دار بنانے میں کسی بھی سول انتظامیہ سے کئی گناہ آگے بڑھ گئی تھی اور سول فیصلہ سازی کی ملٹرائزیشن نے عمران خان کے پاپولسٹ اقتدار کے اندر پلتی آمریت کو بے نقاب کر دیا تھا۔
دوسری جانب عمران خان حکومت فوج کے سول اقتدار پر اثرورسوخ کو فیصلہ کن حد تک بڑھانے والے پہلے کردار تو بن کر سامنے آئے ہیں،تاہم بدقسمتی سے وہ آخری نہیں ہیں۔ پاکستانی معیشت کی زبوں حالی اور ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں صورتحال اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ ایک صحت مند لبرل جمہوریت کے پروان چڑھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئے ہیں۔ فوج کے بڑھتے ہوئے معاشی کردار کی صورت سیاسی کردار کا وسیع ہونا ناگزیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد فوجی اشرافیہ کی سول حکومت میں مداخلت کا سلسلہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
یوں ماضی کے آزمودہ چہروں کی ناکامی کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے نام پر سامنے آنے والے عمران خان بھی اسی راہ کے ہی راہی ثابت ہوئے ہیں، جس پر ان کے پیش رو چلتے آئے ہیں، یا ان کے بعد آنے والے چل رہے ہیں۔ حقیقی تبدیلی کا راستہ حکمرانوں کے چہرے تبدیل کرنے سے نہیں بلکہ نظام کو تبدیل کرنے سے ہی آ سکتی ہے، اور نظام کی تبدیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کے سیاسی میدان میں داخل ہونے اوراقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی صورت ہی ہو سکتی ہے۔ حقیقی جمہوریت بھی تب ہی پروان چڑھے گی جب اکثریتی عوام اپنی آزادانہ رائے اور اقتدار میں شراکت کے ذریعے فیصلہ سازی میں بااختیار ہونگے۔