عمران کامیانہ
توقعات کے مطابق برطانیہ کے عام انتخابات میں دائیں بازو کی کنزویٹو (ٹوری) پارٹی اپنی تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ پارلیمان میں 244 نشستوں کی کمی کیساتھ اسے صرف 121 نشستیں مل پائی ہیں۔ جبکہ مجموعی ووٹ میں اس کا حصہ تقریباً 43 فیصد سے 23 فیصد تک گر گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں لیبر پارٹی نے 209 کے اضافے کے کیساتھ 411 نشستیں اور (معمولی اضافے کیساتھ) 33 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ’’سنٹرسٹ‘‘ لبرل ڈیموکریٹس 72 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے ہیں (63 کا اضافہ)۔ اگرچہ مجموعی ووٹ میں ان حصہ محض 12 فیصد رہا۔ بہرحال 174 نشستوں کی بڑی اکثریت کیساتھ لیبر پارٹی بغیر کسی اتحادی کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے اور پارٹی رہنما کیئر سٹارمر بر طانیہ کا نیا وزیر اعظم منتخب ہو چکا ہے۔ ملکی تاریخ میں وہ لیبر پارٹی، جو 2010ء کے بعد پہلی بار اقتدار میں آئی ہے، سے تعلق رکھنے والا ساتواں وزیر اعظم ہو گا۔
مذکورہ اعداد و شمار سمیت برطانوی انتخابات کے نتائج ہر حوالے سے لیبر پارٹی کی جیت سے زیادہ ٹوری پارٹی کی شکست اور گہرے بحران‘ بلکہ جزوی انہدام کی غمازی کرتے ہیں۔ ان انتخابات میں برطانوی عوام کی بڑی تعداد کا ایجنڈا کسی نہ کسی طرح ٹوری پارٹی کے اقتدار سے جان چھڑانا تھا۔ یوں لیبر پارٹی کو کسی امید سے زیادہ ٹوری پارٹی سے نفرت کا ووٹ پڑا ہے۔ جو اس کے گزشتہ 14 سالہ دورِ حکومت میں برطانوی عوام کی زندگیاں اجیرن اور بد سے بدتر کر دینے والی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس وقت برطانوی عوام کی وسیع اکثریت کا خیال ہے کہ ان کے حالات 2010ء سے کہیں برے ہیں۔ چنانچہ ٹوری پارٹی ایسے حلقے بھی ہار گئی ہے جو تاریخی طور پر اس کا گڑھ رہے ہیں اور جہاں اسے کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
برطانوی سرمایہ داری کے اپنے بحران کے تحت ٹوری پارٹی کا تقریباً ڈیڑھ دہائی کا اقتدار بھی مسلسل داخلی تقسیم، عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہی رہا۔ اس دوران پانچ وزرائے اعظم تبدیل ہوئے (صرف 2016ء سے 2022ء تک کے عرصے میں چار) جن میں سے لز ٹرس محض 50 دن ہی دفتر میں گزار سکی۔ جبکہ بورس جانسن اور رِشی سوناک جیسوں کو کوئی سنجیدہ لینے کو تیار نہیں تھا اور وہ حکمران سے زیادہ سوشل میڈیا کی طنزیہ میمز کا موضوع بن کے رہ گئے تھے۔
تاہم انتخابی نتائج اور ان سے جڑی غیر سرکاری رائے شماریوں (Opinion Polls) کا تھوڑا باریک بین تجزیہ برطانوی سیاست اور سماج سے متعلق اہم حقائق کو آشکار کرتا ہے۔ مثلاً ٹرن آؤٹ صرف 60 فیصد رہا جو 1885ء کے بعد کسی جنرل الیکشن میں برطانوی عوام کی دوسری سب سے وسیع عدم دلچسپی کی غمازی کرتا ہے۔ اس سے کم ٹرن آؤٹ (59 فیصد) 2001ء میں ہی سامنے آیا تھا۔ یوں بیشتر دوسرے ممالک کی طرح مروجہ سیاست سے لاتعلقی، بیزاری یا بے حسی برطانیہ کی سب سے بڑی ’’پارٹی‘‘ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس صورتحال کی عکاسی انتخابی عمل سے پہلے کے رائے عامہ کے جائزے بھی کرتے ہیں۔ مثلاً جون 2024ء کے ایک سروے کے مطابق برطانوی حکومت اور سیاست پر لوگوں کا اعتماد 50 سال کی کم ترین سطح پر کھڑا ہے۔ اس رائے شماری میں 79 فیصد لوگوں نے نظامِ سیاست و حکومت سے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ جبکہ 71 فیصد کا خیال تھا کہ یورپی یونین سے نکلنے (بریگزٹ) کے بعد حالات خراب ہی ہوئے ہیں (2019ء میں یہ شرح صرف 51 فیصد تھی)۔
انتخابی نتائج کا ایک اور اہم پہلو پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں اور سیٹوں کے درمیان تاریخ کی سب سے بڑی خلیج کا ہے جس نے انتخابی نظام پر سوالات کو جنم دیا ہے۔ مثلاً لیبر پارٹی کو 33 فیصد سے کچھ زیادہ ووٹوں کیساتھ 63 فیصد نشستیں ملی ہیں (یعنی ملنے والے مجموعی ووٹوں سے دگنی)۔ جبکہ انتہائی دائیں بازو کی ریفارم پارٹی کو 14 فیصد ووٹوں کے ساتھ صرف 1 فیصد نشستیں مل پائی ہیں۔ اسی مظہر کا شکار لبرل ڈیموکریٹس اور گرین پارٹیاں بھی ہوئی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ووٹوں کے تناسب سے نشستوں پر مبنی ایک نظام کے تحت حالیہ انتخابات میں لیبر پارٹی کو 195، ٹوری پارٹی کو 156، ریفارم پارٹی کو 91 جبکہ گرین پارٹی کو 45 نشستیں ملتیں۔ لیکن چونکہ کسی حلقے میں ہارنے والی پارٹیوں کے ووٹ صفر سے ضرب کھا جاتے ہیں لہٰذا ایسا نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے لیبر پارٹی کو پارلیمان میں حاصل ہونے والی نشستیں اسے ملنے والے ووٹ کی بہت مبالغہ آرائی پر مبنی عکاسی کرتی ہیں۔
بہرحال بائیں بازو کی گرین پارٹی اپنی تاریخ کی بہترین انتخابی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن دوسری طرف انتہائی دائیں بازو کی ریفارم پارٹی اپنا ووٹ تقریباً 2 فیصد سے بڑھا کر 14 فیصد تک لے گئی ہے اور (ووٹوں کی تعداد کے ساتھ عدم تناسب کے باوجود) پالیمان میں چار نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔ جو کوئی خوشگوار پیش رفت نہیں ہے اور برطانوی محنت کشوں کے لئے ایک تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
لیکن کیئر سٹارمر کے تحت لیبر پارٹی کو ملنے والے ووٹ کا ایک اور حوالے سے بھی تقابلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بائیں بازو کے جیرمی کاربن کی قیادت میں 2017ء میں پارٹی کو ملنے والے ووٹ سے 7 فیصد کم ہیں! 2017ء میں جیرمی کاربن کے تحت لیبر پارٹی کو 40 فیصد ووٹ ملے تھے۔ حتیٰ کہ 2019ء میں بھی کمی کے باوجود پارٹی نے تقریباً حالیہ انتخابات جتنے ووٹ ہی حاصل کیے تھے۔ اگرچہ مذکورہ دو انتخابات میں پارٹی کو بالترتیب 262 اور 202 نشستیں ہی مل پائی تھیں۔ یوں کارپوریٹ میڈیا اور لیبر پارٹی کے اندر و باہر کے دائیں بازو کی جانب سے کیئر سٹارمر کی قیادت میں پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کا تاثر درست نہیں ہے۔ ان حالات میں کیئر سٹارمر 1929ء کے بعد کم ترین ووٹوں سے منتخب ہونے والا وزیر اعظم ہو گا۔
ٹوری پارٹی کی شکست میں ایک اور اہم عنصر دائیں بازو کے ووٹوں کی تقسیم کا بھی ہے۔ 2019ء میں ٹوری پارٹی اور نائیجل فراج کی ریفارم پارٹی (اس وقت کی ’بریگزٹ پارٹی‘) ایک انتخابی الحاق میں تھے جس نے 14 ملین ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم اس بار یہ ووٹ تقسیم کا شکار ہوا ہے۔ اس کے باوجود دونوں دائیں بازو کی پارٹیوں کے ووٹوں کو جمع کیا جائے تو وہ تقریباً 11 ملین بنتے ہیں جو لیبر پارٹی کے مجموعی ووٹ سے 1.2 ملین (12 لاکھ) زیادہ ہیں۔
تاہم جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ لیبر پارٹی کو ملنے والا تقریباً تمام ووٹ کسی امید اور رجائیت سے زیادہ ٹوری پارٹی سے بیزاری، یاس اور فرسٹریشن پر مبنی ہے۔ مثلاً جون میں ہی کیے جانے والے ایک اور سروے کے مطابق لیبر پارٹی کو ووٹ دینے کے خواہاں صرف 5 فیصد لوگ پارٹی کی پالیسیوں سے اتفاق رکھتے تھے۔ جبکہ 48 فیصد خالصتاً ٹوری پارٹی کو فارغ کرنے کے لئے اور باقی ایسی متفرق وجوہات کے تحت ایسا کر رہے تھے جو اسی نصب العین سے ملتی جلتی ہیں۔ حتیٰ کہ صرف 2 فیصد ’’کمتر برائی‘‘ کے نظرئیے کے تحت لیبر کو ووٹ دے رہے تھے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، ’’لیبر پارٹی کے لئے لوگوں میں جوش و خروش کا فقدان حیران کن ہے۔ لیبر پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھنے والے 2015ء، 2017ء اور 2019ء کی نسبت پارٹی کے ساتھ کہیں زیادہ غیر مربوط یا لاتعلق ہیں۔‘‘ اسی طرح کے ایک اور سروے کے مطابق کل ووٹروں میں سے 71 فیصد کا خیال تھا کہ انتخابی مہم میں ان کے بنیادی مسائل پر کوئی خاص بات نہیں کی جا رہی ہے۔
انتخابی نتائج کا ایک اور اہم پہلو فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھانے والے پانچ آزاد امیدواروں کی جیت بھی ہے۔ جن میں مسلمان پس منظر سے تعلق رکھنے والے چار افراد کے علاوہ لیبر پارٹی سے بے دخل ہونے والا جیرمی کاربن بھی شامل ہے۔ جس نے لیبر پارٹی کے امیدوار کو سات ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
بہرحال لیبر پارٹی اب حکومت میں ہے اور سوال آگے کے حالات و واقعات کی پیش بینی کا ہے۔ اپنی وکٹری سپیچ میں سٹارمر کا زیادہ زور لیبر پارٹی کو ’’تبدیل‘‘ کرنے کی اپنی چار سالہ کوششوں اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی آج کی ایک ’’مختلف لیبرپارٹی‘‘ پر تھا۔ ’’یہ الیکشن صرف ایک بدلی ہوئی لیبر پارٹی کے ذریعے ہی جیتا جا سکتا تھا۔‘‘ بنیادی طور پر وہ جیرمی کاربن اور اس سے جڑے بائیں بازو کے رجحانات کی پارٹی سے بے دخلی یا سرکوبی کا حوالہ دے رہا تھا۔ کیئر سٹارمر کے حوالے سے کسی کو خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ دائیں بازو کے اس نمائندے کا موازنہ باآسانی ٹونی بلیئر جیسے سامراجی گماشتے اور جنگی مجرم سے کیا جا سکتا ہے۔ 2020ء میں پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد سے وہ اپنے عزائم اور پالیسیاں کھل کے بیان کرتا آ رہا ہے۔ پچھلے مہینے پارٹی کے انتخابی منشور کی اشاعت کے وقت اس نے بالکل واضح کہا تھا کہ پارٹی کو ’’کاروبار دوست‘‘ ہونا چاہئے (واضح رہے کہ برطانیہ کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین تنظیم ’یونائٹ‘ نے اس منشور پر احتجاج کرتے ہوئے انتخابات میں لیبر پارٹی کی حمایت نہیں کی ہے)۔ علاوہ ازیں سٹارمر نے سرمایہ داروں پر ٹیکس بڑھانے اور حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی سماجی خدمات میں توسیع کو مسترد کیا تھا (’’حکومت کے مالیاتی امور کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘)۔ وہ اسرائیلی صیہونیت کا کھلا حمایتی ہے اور امیگریشن کو ’کنٹرول‘ کرنے کا عندیہ بھی دے چکا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پہ برطانوی سرمایہ داری کے وسیع حلقے بشمول کارپوریٹ میڈیا اس کے حمایتی اور پشت پناہ ہیں۔ ان میں سامراجی سرمایہ داری کے اہم جریدوں ’دی اکانومسٹ‘ اور ’فنانشل ٹائمز‘ کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ لیبر پارٹی کی اِس جیت کے بعد برطانوی سٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ تاریخ بھی کیسے کیسے المیوں سے عبارت ہے!
لیکن سوال صرف سٹارمر کے موضوعی عزائم یا خواہشات کا نہیں بلکہ اس نظام کی معروضی حالت کا بھی ہے جس کی بنیاد پہ اسے حکمرانی کرنا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سرمایہ داری، جو کئی سو سال تک بیشتر دنیا پہ ایک فیصلہ کن سامراجی تسلط کی حامل رہی، مسلسل زوال پذیری کا شکار ہو کے امریکی سامراج کے مطیع کی حیثیت اختیار کرتی گئی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں مارگریٹ تھیچر کا اقتدار گراوٹ کے اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت تھی جس نے اپنی نیولبرل پالیسیوں کی یلغار کیساتھ ایک زمانے کی انتہائی ترقی یافتہ اور دیوہیکل برطانوی صنعت اور کانکنی کی بنیادوں کو اڑا کے رکھ دیا۔ سرمائے کی شرح منافع میں گراوٹ کے ساتھ ریاستی سرمایہ داری کے زوال کے حالات میں برطانیہ کے اَپ سٹارٹ (نودولتی) سرمایہ داروں کی اس سیاسی رہنما نے اپنے طبقے کے شارٹ ٹرم منافعوں کے تقاضوں کے تحت ساری معیشت کو ایک ’رینٹیئر‘ طرز پر ڈھالا جو نجکاری کی دو نمبریوں اور سٹاک مارکیٹ، رئیل اسٹیٹ اور مالیات کے شعبوں کی سٹے بازی وغیرہ پہ مبنی تھی۔ جس میں وقت کے ساتھ خلیج، روس اور ہندوستان کے بدعنوان اور سیاہ سرمائے کی مداخلت بڑھتی گئی ہے۔ حالیہ سالوں میں چینی سرمایہ بھی وارد ہوا ہے۔ 2021ء میں برطانیہ میں رئیل اسٹیٹ کی بڑی لین دین میں سے 20 فیصد سے زائد میں چینی سرمایہ کار ملوث تھے۔
1981ء میں برطانیہ کے صرف دو فیصد حصص غیرملکیوں کی ملکیت میں تھے۔ 2020ء تک یہ حصہ داری 56 فیصد سے تجاوز کر چکی تھی۔ اسی طرح یورپ میں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کل اثاثوں میں سے نصف سے زائد صرف برطانیہ میں ہیں۔ برطانیہ میں امریکی کمپنیوں کے ملازمین کی تعداد جرمنی، فرانس، اٹلی، پرتگال اور سویڈن میں ان کے ملازمین کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے اور برطانیہ کا ایک چوتھائی جی ڈی پی ان کمپنیوں سے وابستہ ہے۔ یوں اچھے وقتوں کی قومی خود انحصاری، تفخر اور پروٹیکشنزم پر مبنی معاشی طرز پرزہ پرزہ ہو چکی ہے۔
2008ء کے بحران کے بعد معیشت کی حالت مزید پتلی ہی ہوئی ہے۔ جس کا اظہار برطانوی سیاست کے مسلسل انتشار اور عدم استحکام میں بھی ہوتا ہے۔ برطانوی معیشت کا تقریباً ہر بنیادی اشاریہ اس تاریخی بحران کی غمازی کرتا ہے۔ جیسا کہ مارکسی معیشت دان مائیکل رابرٹس نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں واضح کیا ہے۔ محنت کی پیداواریت، جسے بورژوا معیشت اہم ترین معاشی اشاریوں میں شمار کرتی ہے، میں اضافے کے حوالے سے برطانیہ‘ سامراجی ممالک کی فہرست میں آخری درجوں پر آتا ہے۔ حقیقی جی ڈی پی کی گروتھ 2008ء سے پہلے کے رجحان سے 20 فیصد نیچے ہے۔ اس وقت معیشت 65 سالوں کی کم ترین شرح نمو کا شکار ہے۔ بلکہ عملاً ایک ریسیشن یا سکڑاؤ سے دوچار ہے۔ فی کس جی ڈی پی کم و بیش 2007ء کی سطح پہ کھڑا ہے جبکہ محنت کشوں کی حقیقی اجرتیں اور قوت خرید 2007ء کی سطح سے بھی نیچے ہے۔ بالخصوص 2010ء میں ٹوری پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد برطانوی عوام کا معیارِ زندگی ترقی یافتہ دنیا کے نچلے درجوں تک گرتا چلا گیا ہے۔ صرف پچھلے تین سالوں کے دوران بجلی اور گیس وغیرہ کے بلوں میں 60 فیصد جبکہ خوراک کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً برطانیہ میں غربت کی شرح اس وقت پولینڈ سے بھی زیادہ ہے!
آمدن اور دولت کی ملکیت کی حوالے سے برطانیہ اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے غیر مساوی یا ناہموار ترین ممالک میں سے ایک ہے (دوسرا نمبر)۔ جبکہ صرف 50 سال پہلے یہ مساوی ترین ترقی یافتہ ممالک میں شامل تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 20 فیصد امیر ترین برطانوی شہریوں کے حصے میں ملک کی 36 فیصد آمدن اور 63 فیصد دولت آتی ہے۔ جبکہ آمدن اور دولت میں 20 فیصد غریب ترین شہریوں کا حصہ بالترتیب 8 فیصد اور 0.5 فیصد ہے۔ علاقائی حوالے سے بھی معیارِ زندگی اور اجرتوں میں تفاوت بہت وسیع ہے۔
2023ء میں تقریباً 43 لاکھ برطانوی بچے غربت کا شکار تھے۔ جو بچوں کی کل تعداد کا 30 فیصد بنتا ہے۔ جبکہ پچھلے ایک سال میں 30 لاکھ لوگوں کو بھوک مٹانے کے لئے فوڈ بینکوں (خیرات) کا رخ کرنا پڑا ہے۔
ہاؤسنگ کا بحران بھی شدید ہوتا جا رہا ہے۔ 1989ء کے بعد کے تیس سالوں میں پہلے کے تیس سالوں کی نسبت 30 لاکھ کم گھر تعمیر ہوئے ہیں۔ طلب اور رسد کے اس فرق کی وجہ سے لندن میں ایک اوسط گھر کی قیمت، جو 1997ء میں اوسط (سالانہ) آمدن سے 3.6گنا تھی، 2023ء میں 12 گنا ہو چکی تھی۔ نتیجتاً پچھلے صرف دو سالوں میں بے گھری یا غیر انسانی حالات کی رہائش میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
2010ء سے 2019ء تک آسٹریٹی کی پالیسیاں 190,000 زائد اموات پر منتج ہوئی ہیں۔ جبکہ ٹوری پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اوسط عمر میں کوئی اضافہ نہیں ہو پایا ہے۔ بلکہ پسماندہ علاقوں میں لاکھوں لوگ دائمی بیماریوں کا شکار ہو کے پہلے کی نسبت جلدی مر رہے ہیں۔ اس سب کے پیچھے پھر ’این ایچ ایس‘ (قومی نظامِ صحت) کی زبوں حالی بھی کارفرما ہے۔ ایک وقت میں دنیا میں بہترین سمجھے جانے والے اس نظامِ صحت (جسے برطانوی عوام کو اعلیٰ ترین معیار کا علاج بالکل مفت فراہم کرنے کے لئے دوسری عالمی جنگ کے بعد کی لیبر حکومت نے شروع کیا تھا) کو مسلسل نجکاری اور انڈرفنڈنگ کے ذریعے تباہی کے دہانے پہ پہنچا دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق این ایچ ایس کا بجٹ شارٹ فال 12 ارب پاؤنڈ تک پہنچ چکا ہے۔ یہی حالات تعلیم کے شعبے کے ہیں یا بنتے جا رہے ہیں۔
جی پی ڈی میں سرمایہ کاری کا حصہ بھی 30 سال کی مسلسل گراوٹ کے ساتھ بیشتر ترقی یافتہ معیشتوں سے کم ہو چکا ہے۔ جس کے پیچھے پھر برطانوی سرمائے کی شرح منافع میں گراوٹ کا رجحان کارفرما ہے۔ یہ رجحان، جو سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کی غمازی کرتا ہے، ناگزیر طور پر نجکاری اور آسٹیریٹی کی پالیسیوں کو مہمیز دیتا ہے۔ جن کے ذریعے منافع کما سکنے کی صلاحیت رکھنے والے سرکاری شعبے سرمایہ داروں کے حوالے کیے جاتے ہیں اور کارپوریٹ سرمائے کے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر منتقل کیا جاتا ہے۔ ایک تیسری صورت میں سرمایہ داروں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے اور اپنے خسارے پورے کرنے کے لئے حکومتیں قرضے لیتی ہیں۔ لیکن اس عمل کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ یہ قرضے سود سمیت لوٹانے ہوتے ہیں۔ ایک حد سے تجاوز کرنے کے بعد یہ حکومتی آمدن کو چاٹتے چلے جاتے ہیں (جیسا کہ سری لنکا یا پاکستان وغیرہ کے حالات ہیں)۔ یوں قرضوں کے ذریعے ایک وقت تک تو نظام کے بحران کو ٹالا جا سکتا ہے۔ لیکن آخر کار یہ بحران زیادہ بھیانک شکل میں اپنا اظہار کرتا ہے اور حکومتوں کو پہلے سے زیادہ جارحانہ کٹوتیوں کی روش اپنانی پڑتی ہے۔ مثلاً اس وقت برطانیہ کا ریاستی قرضہ‘ جی ڈی پی کے 100 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ خساروں اور قرضوں کی اس سطح پر دیوالیہ ہوتی جا رہی بلدیاتی حکومتوں کو چلانے، سرکاری شعبہ جات کے بجٹ شارٹ فال پورے کرنے اور زبوں حالی کا شکار انفراسٹرکچر (بشمول ہاؤسنگ) کی تعمیر و مرمت پر پیسہ لگانا بہت محال ہو جاتا ہے۔ شدید سماجی و معاشی بحران کے ان حالات میں نئی لیبر حکومت کو روزِ اول سے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہو گا اور سٹارمر کے تحت ان سے نمٹنے کے لئے جو پالیسیاں اپنائی جائیں گی ان کی پیش بینی کرنا بھی کچھ محال نہیں ہے۔ منیر نیازی کے بقول
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو…
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ حکومت بہت تیزی سے انتشار، عوامی نفرت اور ممکنہ طور پر کھلے غیض و غضب کا شکار ہو گی۔ ان حالات میں ریفارم پارٹی جیسے رجعتی رجحانات بھی مزید مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن انقلابی بائیں بازو کے لئے بھی ناگزیر طور پر نئے امکانات کھلیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل ڈیموکریسی تاریخی طور پر جن معاشی بنیادوں پر استوار ہوئی تھی سرمایہ داری کے بحران نے وہ کم و بیش منہدم کر ڈالی ہیں۔ شرح منافع کے بحران کے تحت ریاستوں کی آمدن اور معیشت میں حکومتی مداخلت کی گنجائش گھٹتی چلی گئی ہے۔ جبکہ خسارے اور قرضے بڑھتے گئے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام، مزدور تحریک کی زوال پذیری، مغربی سرمائے کی چین میں منتقلی اور نیولبرلزم کی یلغار جیسے عوامل نے پہلے ان پارٹیوں کو روایتی سوشل ڈیموکرٹیک پروگراموں سے ’سنٹر لیفٹ‘ پہ منتقل کیا۔ لیکن 2008ء کے بعد سے یہ اس قدر دائیں طرف جھکتی گئی ہیں کہ روایتی دائیں بازو کے ساتھ گھل مل گئی ہیں اور دونوں رجحانات میں فرق کرنا محال ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں جیرمی کاربن کی ناکامی، پارٹی سے بے دخلی اور پھر پارٹی کے خلاف ہی انتخابات میں اترنا اپنے اندر اہم اسباق سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن اپنی لبرل اور ’سافٹ‘ شکلوں میں روایتی دایاں بازوخود ایک بحران کا شکار اور اپنی روایتی معاشی بنیادوں سے محروم نظر آتا ہے۔ ایسے میں ساری مروجہ یا روایتی سیاست دنیا بھر میں ایک عمومی استرداد کا شکار ہے۔ جس کے مضمرات میں مختلف شکلوں اور شدتوں کیساتھ انتہائی دائیں بازو کا ابھار بھی شامل ہے۔ جو ایک غیر روایتی اور ولگر انداز اور زیادہ ننگے و جارحانہ استحصالی طریقوں سے سرمایہ داری کے بحران کے حل کا پروگرام پیش کرتا ہے۔ جو کارگر نہ ہونے کے باوجود کسی انقلابی متبادل کے فقدان کے حالات میں مقبولیت حاصل کرتا ہے ۔ لیکن پھر سیاسی افق کے بائیں طرف ایک وسیع خلا بھی پیدا ہوا ہے جسے بیشتر صورتوں میں بائیں بازو کے نئے اصلاح پسندانہ رجحانات نے بھرا ہے۔ اپنی ظاہری صورت اور لفاظی میں یہ رجحانات اگرچہ روایتی بائیں بازو سے کہیں زیادہ ریڈیکل معلوم ہوتے ہیں لیکن نظام کی حدود و قیود سے تجاوز نہ کر پانے کی وجہ سے بہت جلد ناکامی اور استرداد کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ سارا عمل آگے بھی جاری رہے گا۔ جب تک کہ سرمایہ داری کو فیصلہ کن طور سے اکھاڑ پھینکا نہ جائے۔ لیکن تاریخی عوامل کی مدتیں انسانوں کی زندگیوں سے کہیں زیادہ طویل ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں پیٹی بورژوا انقلابیت فرسٹریشن اور جلد بازی میں مضحکہ خیز حرکتیں، تجربے اور مہم جوئیاں کرنے پہ اتر آتی ہے۔ یا مایوسی میں مصالحت اور موقع پرستی کی دوسری انتہاؤں پہ چلی جاتی ہے۔ لیکن موجودہ حالات سے واضح ہوتا ہے کہ روایتی پارٹیوں کا وجود کوئی ازلی و ابدی حقیقت نہیں ہے۔ نہ ہی ان کی طرف رجحان یا ان کے اندر کام کوئی آفاقی اصول اور ناقابل تغیر طریقہ کار ہے۔ غیر معمولی تاریخی عوامل اور طبقاتی کشمکش کے ابھار کے وقتوں میں پارٹیاں بنتی ہیں، ابھرتی ہیں، مختلف تبدیلیوں سے گزرتی ہیں۔ لیکن پھر اپنی سماجی و معاشی بنیادیں کھو کر ایک استرداد اور انہدام کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن پھر ان کی زوال پذیری کا عمل بھی مخصوص حالات میں طوالت اختیار کر سکتا ہے جس میں عبوری یا متضاد کیفیات بھی جنم لے سکتی ہیں۔ لیکن اس سارے پراسیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایسی کیفیات میں ان پارٹیوں سے چمٹے رہنا اور ماضی کو زبردستی حال پر منطبق کرتے رہنا بذات خود ایک حماقت بن جاتی ہے۔ بشرطیکہ مقصد انقلابی سیاست کے لبادے میں مادی مفادات کا حصول نہ ہو۔ کیونکہ اس صورت میں یہ کوئی حماقت نہیں بلکہ دانستہ طور پہ سرزد کیا گیا ناقابل معافی جرم ہوتا ہے۔
لیکن پھر مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ کمی صرف ایک انقلابی نام والی الگ پارٹی کا اعلان کرنے کی ہے۔ جس کی گردان مسلسل کرتے رہنے سے محنت کش طبقے کی قیادت کا تاریخی بحران حل ہو جائے گا۔ ایک سنجیدہ جدوجہد سب سے پہلے سماج کے سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ تجزئیے کی متقاضی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک انقلابی تنظیم یا پارٹی کو ہر اہم موڑ پر اپنی پوزیشنوں اور طریقہ ہائے کار پر نظر ثانی کرنی پڑتی ہے۔ جس کا آغاز بھی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑھ کر تاریخ کا دھارا موڑ دینے کا نصب العین پہاڑوں سے بلند حوصلے اور چٹانوں سے کہیں زیادہ مضبوط صبر و تحمل کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ نہ تو تاریخی ارتقا کا کوئی بنا بنایا خاکہ موجود ہے‘ نہ انقلاب برپا کرنے کا کوئی ریڈی میڈ نسخہ اپنا وجود رکھتا ہے۔ ورنہ لینن اور ٹراٹسکی جیسے عظیم انقلابیوں کو بار بار اپنے تناظروں اور طریقوں کی اصلاح کی ضرورت پیش نہ آتی۔
اگر غور کریں تو بیشتر ترقی یافتہ دنیا کے حالات برطانیہ سے مختلف نہیں ہیں۔ اسی بحران کے ایک متضاد نتیجے کے طور پر فرانس کا فار رائٹ‘ اقتدار کی دہلیز پہ کھڑا ہے اور سارا بایاں بازو اسے روکنے میں لگا ہوا ہے۔ ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں حالات کہیں زیادہ بھیانک ہوتے جا رہے ہیں۔ کینیا میں حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جو تیونس اور مصر سے 2011ء میں شروع ہوا تھا اور اتار چڑھاؤ کیساتھ سری لنکا، لبنان اور سوڈان سمیت کئی ممالک سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ برطانیہ کے محنت کش عوام کو بھی سٹارمر حکومت کی درسگاہ سے گزرنا ہو گا۔ جہاں بہت سے دوسرے اسباق کے ساتھ وہ یہ نتیجہ زیادہ ٹھوس انداز سے اخذ کرنے پر مجبور ہوں گے کہ ساری مروجہ سیاست اور نظام کا انقلابی متبادل تخلیق و تعمیر کیے بغیر نجات اور آسودگی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔