پاکستان

دریائے سوات بچاؤ

عثمان توروالی

وادی سوات اپنی قدرتی خوبصورتی کے لئے مشہور ہے ۔جہاں صاف و شفاف چشمے، ندی نالے، برف پوش پہاڑ اور دیار کے لمبے درخت سیاحوں کو اپنے سحر میں لے لیتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں سیاح جون کی سخت گرمی میں ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لئے سوات کا رخ کرتے ہیں۔ سوات کی ساری خوبصورتی دریائے سوات سے ہے ،جو تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے سوات کی شناخت میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دریا سوات کے بالائی علاقے گبرال، اتروڑ، مہوڈنڈ، آسریت، آریانئی، شیطانگوت، مانکیال اور درال سے نکلتا ہے اور پورے زریں سوات کی خوبصورتی بناتا ہوا 350 کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہوئے دریائے کابل میں جا گرتا ہے۔

دریائے سوات میں تاریخ کا بڑا سیلاب 2010 میں آیا ،جو اپنے ساتھ دریائے سوات کے کناروں پر واقع ہوٹلوں، مکانات، پلوں، بازاروں اور کئی سیاحتی پوائنٹس سمیت سوات کے انفراسٹرکچر کو بہا کر لے گیا۔ تقریباً 14 سال گزرنے کے بعد بھی چگار، چھم گھڑی، رامیٹ وغیرہ کے پل اب تک تعمیر نہیں ہوسکے۔ سوات میں دوسرا سیلاب 2020 میں آیا ،جو پہلے والے سے کئی گنا زیادہ اور تباہ کن تھا۔ اس نے گبرال، کالام، بحرین اور دیگر کئی علاقے جیسے پشمال، مانکیال اور چھم گھڑی میں تباہی مچائی۔ اربوں کی عمارتیں، باغات، پل اور سڑکیں مسمار ہوئیں۔ حکومت وقت نے وقتی ازالے سے بڑھ کر کچھ نہیں کیا۔ لوگ فصلوں کو بوریوں میں کندھے پر رکھے پہاڑی دشوار گزار راستوں سے لاکر سبزی منڈی پہنچانے کی کوشش کرتے تھے، بیشتر فصلیں منڈی پہنچنے سے پہلے ہی خراب ہو جاتی تھیں۔

اس کے بعد اگست 2021 میں ایک اور سیلاب آیا ،جس نے دوبارہ بحال ہوتے بازاروں، دکانوں اور اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے کچے پلوں کو پھر سے روند ڈالا۔ آج بھی 2021 کی سیلاب میں بہہ جانی والی سڑکیں، گبرال، اتروڑ، آسریت، مانکیال، چھم گھڑی، اور لامبٹ کے مقامات پر اپنی خستہ حال شکل میں پڑی ہیں۔ حکومت اور متعلقہ ادارے اب تک نیند سے بیدار نہیں ہوئے ہیں۔

بالائی سوات میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ 30سے40 کلو میٹر کے علاقے میں ایک بھی لڑکیوں کا مڈل سکول نہیں ہے۔ کالج کا دور دور تک کوئی نام نہیں ہے ۔ بحرین میں بھی کوئی سیکنڈری سکول نہیں ہے۔ لڑکیاں اور لڑکے 15کلو میٹر دور پیاء کے مقام پر واقع کالج جاتے ہیں۔ بحرین کے بالائی علاقوں سے آنے والے طلباء و طالبات کے لئے کوئی قریبی سیکنڈری سکول اور کالج نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہیں۔ صحت کا بھی یہی حال ہے۔

ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ریاست بالائی سوات کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے۔ مدین اور بحرین کے بیچ تین مختلف جگہوں پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بنائے جارہے ہیں۔ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے کالام سے دریائے سوات کا پانی ٹنل میں ڈالا جائے گا اور اسریت کے مقام پر نکالا جائے گا۔ اسریت میں پاور ہاؤس بنایا جائے گا۔ دوسرے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے اسریت کے مقام پر دریا کا پانی ٹنل میں ڈالا جائے گا اور کیدام کے مقام پر نکالا جائے گا۔ اسی طرح تیسرے پراجیکٹ میں دریا دوبارہ کیدام کے مقام پر ٹنل میں ڈالا جائے گا اور مدین کے قریب کسی جگہ پر نکالا جائے گا ،جہاں پاور ہاؤس کا قیام ہوگا۔

یہ پراجیکٹس نہ صرف ماحول دشمن ہیں بلکہ اس سے مقامی معیشت بھی تباہ ہو جائی گی۔ تقریباً پچاس کلومیٹر پانی ٹنل کے ذریعے سے گزرے گا۔ دریائے سوات خاص کر سردیوں کے موسم میں خالی پڑ جائے گا۔ بو، گند اور کم پانی ہزاروں سال سے بہتے دریا کی خوبصورتی کو ایک گندی نالی میں بدل دینگے۔ آبی زندگی ختم ہوجائی گی۔ دریا کم ہونے کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگا۔

کالام اور مدین کے بیچ دریا کے کنارے سیکڑوں ہوٹل، مارکیٹیں اور سیاحتی مقامات ہیں، وہ سب خالی پڑ جائیں گے۔ مقامی معیشت کا انحصار سیاحت اور زراعت پر ہے۔ اگر دریا کا پانی کم ہوا تو سیاحت کے ساتھ ساتھ زراعت تباہ ہو جائے گی اور ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ جائی گی۔ مقامی لوگ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ جس سے وہ اپنی زبان، ثقافت، لوگ اور علاقہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینگے۔

پیڈو ،جو ان پراجیکٹس کی سرپرستی کررہا ہے ،نے اب تک متاثرین کو اعتماد میں نہیں لیا ہے اور مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام بھی شروع کردیا ہے۔ متاثرین کو رقم دیکر چپ کرایا گیا ہے، تاہم متاثرین میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ ان کو شدید تحفظات ہیں وہ ان منصوبوں کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ اس کے لیے ‘دریا بچاؤ مہم’ بھی چلائی جارہی ہیں۔ اس میں مقامی مشران، وکلاء، علماء، طلبہ اور سماجی کارکنوں نے ان پراجیکٹس کے خلاف آواز اٹھانے اور مخالفت کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہیں۔

ریاست ان منصوبوں کو ترقیاتی منصوبوں کا نام دے رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں ترقی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ سڑکیں، بازار، پل، صحت اور تعلیم برباد پڑے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی لوگوں کی رائے کو ان کے وسائل کے استحصال میں نہ دبائے بلکہ مقامی لوگوں کی وسائل پر ان کا حق تسلیم کرے۔

Usman Torwali
+ posts

عثمان توروالی سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا ہے۔ مختلف جرائد کے لئے سیاسی موضوعات پر کالم نگاری کرتے ہیں۔