خبریں/تبصرے

سوات ایک بار پھر سیلاب کی لپیٹ میں

 

عثمان توروالی

پچھلے سال کے سیلاب نے اب تک سوات کی تاریخ میں سب سے زیادہ تباہی مچائی۔ اربوں روپے کے ہوٹل، انفراسٹرکچر اور دیگر نقصانات ہوئے، گرمائی سیزن ڈاؤن گیا اور لوگوں کے کروڑوں کا بزنس ٹھپ ہوا۔ عوامی نمائندوں اور مقامی انتظامیہ نے حالات کو کنٹرول کرنے میں کئی دن لگائے۔ کہیں ایکسکویٹر نہیں پہنچ پا رہا تھا،تو کہیں عوام پہاڑوں میں کچی پگڈنڈیوں پر خوار ہورہی تھی۔ ایک مہینے تک بحرین کے پل پر کام ہوتا رہا اور آخر کار پاک فوج نے آس پاس کے درخت کاٹ کر ایک عارضی پل تعمیر کر لیا۔

موجودہ سیلاب تک کالام کی شاہراہ پر وہی پرانا لکڑیوں کا بنا پل تھا، جس کے ساتھ ہی ایک کچا پل بنادیا گیا تھا۔ تاہم اب دونوں پل پچھلے کچھ دنوں سے پانی کے اندر ہیں۔ دونوں اطراف پر رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ سوات کی آدھی آبادی کو راشن تک رسائی نہیں، کیونکہ پل کے اوپر سے پانی بہہ رہا ہے۔ بحرین بازار میں نئی تعمیر کی گئی دکانیں اور کاروبار پر بھی پانی بہہ رہا ہے۔ جس بازار کو مغربی ملکوں کے خوبصورت شہروں سے تشبیہ دی جاتی تھی، وہ اب پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہا ہے۔

بحرین سے آگے سڑک پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لوگ پہاڑ پر چڑھ کر سفر کرتے ہیں۔ ان کی پیٹھ پر سامان اور ساتھ میں خواتین ہوتی ہیں۔ وہ شدید بارش میں کچی پگڈنڈیوں کو مشکل سے کراس کر پاتے ہیں۔ مین روڈ کالام کے کئی مقامات پچھلے سال کے سیلاب میں خراب ہوئے تھے، اس بار ان جگہوں پر پانی پھر سے چڑھ گیا ہے۔ کالام روڈ پر ٹریک مکمل طور پر بند ہے اور لوگ ٹرکوں میں محصور ہوکر مال مویشیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، جنہیں وہ بالائی سوات کے پہاڑوں تک لے جانا چاہتے تھے۔

حکومت کی غفلت کا نتیجہ اب عوام بھگت رہے ہیں۔ ایک سال تک کے عرصے میں بحرین کے سڑک پر کہیں بھی تعمیراتی کام نہیں ہوا۔ موسم سرما میں پانی تقریباً ختم ہوگیا تھا، لیکن اب ہلکی بارش کے ساتھ بھی پانی کا لیول اتنا بڑھ جاتا ہے کہ کہیں کام نہیں ہوپاتا۔

بحرین اور کالام کے درمیان واحد راستہ ایک لٹکا لکڑیوں کا پل ہے، جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے اور کسی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔

حکومت کی کالام روڈ پر پل اور سڑک کی تعمیر پر سرد مہری کا سارا عذاب اب عوام کے سر پڑا ہے۔ بحرین پل جو بالائی سوات میں سب سے اہم پل ہے، اب تک پل تعمیر نہ ہو پانا لمحہ فکر ہے۔ بالائی سوات صرف قدرتی وسائل لوٹنے کے وقت یاد آتا ہے، جب ٹرک بھر بھر کر نیچے علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں۔

پانی کا لیول مزید بارشوں کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ پانی کے راستے بند ہیں، نتیجتاً سارا پانی عمارتوں اور سڑکوں پر آئے گا۔ حکومت اور مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ جلد از جلد دریا کا راستہ خالی کرے، سڑکوں اور پلوں کو تعمیر کرے۔ پچھلے سال مقامی کاروباری طبقے کو کروڑوں کا نقصان ہوا، اس بار بھی سوات کی حالت دیکھتے ہوئے کوئی سیاح اس طرف رخ نہیں کرے گا۔

سیاحت سے سالانہ قومی خزانے کو بھاری مالی فائدہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کا روزگار بھی منسلک ہے۔ سوات کے ان سیاحتی مقامات کو سیاحوں کیلئے مزید پرکشش بنانے اور رسائی آسان کرنے کیلئے ترجیحی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے اہلیان سوات کی زندگیوں کو بھی سہل کیا جا سکتا ہے۔

Usman Torwali
+ posts

عثمان توروالی سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا ہے۔ مختلف جرائد کے لئے سیاسی موضوعات پر کالم نگاری کرتے ہیں۔