ساحر لدھیانوی
دھرتی کی سلگتی چھاتی سے بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں
سڑکوں کی زباں چلاتی ہے ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں
یہ کس کا لہو ہے کون مرا اے رہبر ملک و قوم بتا
یہ جلتے ہوئے گھر کس کے ہیں یہ کٹتے ہوئے تن کس کے ہیں
تقسیم کے اندر طوفاں میں لٹتے ہوئے گلشن کس کے ہیں
بد بخت فضائیں کس کی ہیں برباد نشیمن کس کے ہیں
کچھ ہم بھی سنیں ہم کو بھی سنا
کس کام کے ہیں یہ دین دھرم جو شرم کا دامن چاک کریں
کس طرح کے ہیں یہ دیش بھگت جو بستے گھروں کو خاک کریں
یہ روحیں کیسی روحیں ہیں جو دھرتی کو ناپاک کریں
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
جس رام کے نام پہ خون بہے اس رام کی عزت کیا ہوگی
جس دین کے ہاتھوں لاج لٹے اس دین کی قیمت کیا ہوگی
انسان کی اس ذلت سے پرے شیطان کی ذلت کیا ہوگی
یہ وید ہٹا قرآن اٹھا
یہ کس کا کہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا