مائیکل کاراجیس
2014 سے یوکرین کی صورت حال کے بارے میں مشہور افسانوی دعوؤں سے متعلق جاری سیریز کا یہ دوسرا مضمون ہے۔ بلاشبہ یہ واحد کوشش نہیں ہے جس کے ذریعے ان افسانوی کہانیوں کوبے نقاب کیا جارہا ہے، بلکہ یہ اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ انہیں جتنا زیادہ بے نقاب کیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔ راقم کے خیال میں یہ ایک ایسا کام ہے، جو سوشل میڈیا پر تواتر سے شیئر ہونے والے اس جھوٹ کو آسانی سے پکڑنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
مندرجہ بالا نقشہ یہ دکھاتا ہے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی کو روسی بولنے والوں نے منتخب کیا۔ اب ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ (اگر ان کے خلاف نسل کشی نہیں بھی کرتے تو)ان کی زبان پر وہ پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ اس کی حقیقت اس لنک میں دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ کافی حد تک منقسم متھ ہے۔ یہ کہنا کہ یوکرین نے 2014میں روسی زبان کو گھٹانے کے لیے اپنے زبان کے قانون میں تبدیلی کی، یا اس سے بھی زیادہ بڑھ کر یہ کہہ دینا کہ اس نے زبان پر پابندی لگا دی، یہ ایک عام ٹینک (خود ساختہ کمیونسٹ) کا دعویٰ ہے جو 2014سے ڈونیٹسک اور لوہانسک کے کچھ حصوں کے روس کے ساتھ الحاق کے جواز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یقینا 2014میں روسی زبان پر پابندی نہیں لگائی گئی، نہ اس کے بعد لگائی گئی، مزید یہ کہ 2014میں زبان کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی، نہ ہی 2019تک ایسا ہوا۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی بھی بڑی تعداد میں روسی بولنے والے یوکرینیوں کی طرح روسی زبان بولتے ہیں اور درحقیقت زیلنسکی 2019میں بڑے پیمانے پر روسی بولنے والوں کے ووٹ پر ہی منتخب ہوئے تھے۔ مشرقی یوکرین میں روسی بولنے والے فروری 2022 سے بڑے پیمانے پر روسی قتل عام کا شکار رہے ہیں اور اس کے خلاف مزاحمت پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ نیشنل گارڈ کی مشہور/بدنام ازوف رجمنٹ (اسے اکثر 2014 میں موجود رہنے والی فاشسٹ ازوف بٹالین کے ساتھ الجھا دیا جاتا ہے) زیادہ تر روسی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ 2017 کے ایک سروے کے مطابق 67.8فیصد یوکرینی عوام یوکرینی کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں، 13.8فیصد نے اسے روسی قرار دیا، جب کہ 17.4فیصد نے اعلان کیا کہ دونوں زبانیں ان کی مادری زبانیں ہیں۔ تاہم مغربی یوکرین میں 92.8فیصد یوکرینی بولنے والے ہیں اور صرف 1.9فیصد روسی بولنے والے ہیں۔ مشرقی یوکرین میں 36.1فیصد یوکرینی کو اپنی زبان مانتے ہیں،جب کہ 24.3فیصد جو روسی ہونے کادعویٰ کرتے ہیں۔ وسطی علاقوں میں اعداد و شمار کسی حد تک درمیان میں ہوتے ہیں، لیکن عام طور پر مغربی اعداد و شمار کے بہت قریب ہوتے ہیں۔
1996 کا آئین یوکرینی کو واحد ریاستی زبان بناتا ہے۔ درحقیقت یہ کہتا ہے کہ ”ریاست یوکرین کے پورے علاقے میں سماجی زندگی کے تمام شعبوں میں یوکرینی زبان کی جامع ترقی اور کام کو یقینی بناتی ہے۔“ تاہم روسی اور دیگر اقلیتی زبانوں کے لیے مضبوط تحفظ موجود تھا،جو ان خطوں میں جہاں یہ اقلیتیں نمایاں ہیں، یوکرینی زبان کے ساتھ ساتھ ایک سرکاری کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس طرح آئین یہ بھی کہتا ہے کہ ”یوکرین میں روسی اور قومی اقلیتوں کی دیگر زبانوں کی آزادانہ ترقی، استعمال اور دفاع کی ضمانت دی گئی ہے۔“
2012 تک تمام زبانوں کے متعلق قوانین اسی متوازن آئین پر مبنی تھے۔ 2012 میں یانوکووچ نے ایک نیا زبان کا قانون متعارف کرایا جس نے روسی کو’علاقائی زبان‘ بنا دیا۔ اس قانون کے تحت روسی زبان کو ان علاقوں میں یوکرینی کے برابر انتظامی درجہ دیا گیا،جہاں بھی روسی کم از کم 10 فیصد آبادی کی زبان تھی، اور دیگر اقلیتی زبانوں کو بھی یہی حیثیت حاصل ہو سکتی تھی۔ چونکہ یوکرین کے نصف علاقوں میں 10 فیصد سے زیادہ کی زبان روسی ہے، اس لیے یہ کافی وسیع تھا۔ بہت سے یوکرینیوں نے محسوس کیا کہ اس نے توازن کو بہت بگاڑ دیا ہے۔
پھر 2014 میں کیا ہوا؟
ابتدائی طور پر یانوکووچ کے زوال کے بعد پارلیمنٹ نے اس نئے زبان کے قانون کو منسوخ کرنے کی کوشش کی جسے یانوکووچ نے صرف دو سال قبل 2012 میں متعارف کرایا تھا۔ اسے ختم کرنے کا پارلیمنٹ کا مقصد پچھلے قانون کی طرف لوٹنا تھا،جو 1990 کی دہائی کے اوائل میں یوکرین کی آزادی کے بعد سے 1996 کے آئین پر مبنی تھا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا 1994تا2012 کے لسانی ڈھانچے کی طرف لوٹنا شاید ہی کوئی بنیاد پرست روسی زبان مخالف قدم تھا۔ یہ محض دوسری سمت میں حالیہ بنیاد پرست تبدیلی کو ہٹانے جیساتھا۔ تاہم یہ تبدیلی بھی نہیں ہوئی، کیونکہ اسے نگراں صدر نے ویٹو کر دیا تھا۔ یانوکووچ کا بنیادی طور پر 2012 کا روس نواز قانون 2019 تک قانون ہی رہا۔
لہٰذا اس صریح جھوٹ کو ایک طرف چھوڑ دیں کہ یوکرین نے روسی زبان پر پابندی لگا دی اور اس طرح مشرقی یوکرین میں روسی بولنے والوں کی طرف سے ردعمل کو ہوا دی۔ درحقیقت 2014 میں روسی بولنے والوں کے حقوق کے لیے کچھ نہیں ہوا، جس سے جھوٹ اور بھی بدتر ہو گیا۔ اب یقینا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قانون کو واپس اصل حالت میں تبدیل کرنے کی کوشش مشرقی یوکرین میں بہت سے روسی بولنے والوں کی طرف سے نئی حکومت پر عدم اعتماد کو فروغ دینے کا ایک عنصر ہو سکتی ہے۔ گو کہ یہ کسی مجوزہ تبدیلی کا اصل مواد نہیں تھا، بلکہ ایسا وسیع تر سیاق و سباق میں ایسا لگتا ہے اور یہ یانوکووچ کی روس کی جانب سے حمایت، کریمیا کے روس سے کریمیااور یانوکووچ کے زوال کے فوراً بعد ڈونباس میں روس کی مداخلت کے رد عمل میں میدان تحریک کے بعد کی نئی جارحانہ یوکرینی قوم پرستی کے تناظر میں تھا۔ اس یوکرینی قوم پرستی میں ایک خوفناک تناؤ شامل تھا، جو درحقیقت مشرق میں بہت سے لوگوں کو الگ کر رہا تھا۔ تاہم جو کچھ ہوا اس کے بارے میں صریح بے ایمانی اور جھوٹ کے بغیر بھی یہ نکتہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ اچھی طرح سے دلیل دی جا سکتی ہے کہ 2012-14 کا یانوکووچ کاقانون زبانوں کی مکمل مساوات کے تجریدی تصور پر مبنی ایک بہتر قانون تھا۔ یہاں تک کہ ٹوٹی ہوئی گھڑی بھی دن میں دو بار درست ہو سکتی ہے، اور ممکنہ طور پر غلط وجوہات کی بناء پربھی۔ ایک غیر یوکرینی کے طور پر میں اس بحث میں پڑنا پسند نہیں کرتا ہوں۔ یوکرینی دلیل اس حقیقت پر مبنی ہے کہ یوکرین سینکڑوں سالوں سے روس کی کالونی تھا، اور اس پورے عرصے میں (زارشاہی اور سٹالنزم کے تحت) یوکرینی زبان کو فعال طور پر دبایا گیا اور اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ ایک اہم طبقاتی پہلو بھی ہے کہ روسی، جو نوآبادیاتی انتظامیہ کی زبان تھی اور شہری مراکز، یہاں تک کہ کیف پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے آئی، جب کہ دیہاتوں میں بہت بڑی اکثریت میں یوکرنی بولنے والے تھے۔ زارشاہی کے روس کے آخری وقت میں یوکرینی بولنا بھی شرمناک سمجھا جاتا تھا۔ ایسا اس لیے بھی تھا کہ گاؤں میں زیادہ بولی جانے والی زبان ہونے کی وجہ سے اسے کم تر سمجھا جاتا تھا اور کیونکہ 20ویں صدی کے اوائل میں صنعت کاری کے دوران دیہی باشندوں کا شہروں میں ہجوم تھا۔ لہٰذایوکرین کو اب اپنی زبان کو قومی زبان کے طور پر فروغ دینے کا حق حاصل ہے۔ روسی بولنے والوں کو اپنی زبان استعمال کرنے کا حق ہونا چاہیے، لیکن یہ استعمار کی زبان ہے جو استعمار اور جبر کے ذریعے غالب ہوئی۔ کون سی دلیل درست ہے؟ دونوں دلائل درست ہیں، اور بہت کچھ اس سیاق و سباق اور انداز پر منحصر ہے جس میں اس طرح کے قوانین متعارف کروائے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ تاہم جو بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ یوکرین کا آئین اور 2012 سے پہلے کا قانون عالمی معیارات کے لحاظ سے شاید ہی غیر معمولی ہیں، بلکہ اس کے برعکس وہ معمول کے مطابق ہیں۔ یہ سابق کالونیوں کے لیے اور بھی کم غیر معمولی ہیں۔ مثال کے طور پر آئرلینڈ میں آئرش زبان کو انگریزی کی قیمت پر فروغ دینے کے لیے کئی دہائیوں کے دوران کی جانے والی کوششوں کا کیا ہوگا؟
2019 کا نیا زبان کا قانون اس وقت زیلنسکی کی اپوزیشن کے خلاف تھا اور اس نے روسی زبان کو جزوی طور پر ڈاؤن گریڈ کیا(زیلینسکی کو 2019 میں روسی بولنے والوں کے ووٹوں سے منتخب کیا گیا تھا)۔ اس نئے قانون کو سبکدوش ہونے والی پوروشینکو حکومت نے آگے بڑھایا کیونکہ اس نے زیادہ سے زیادہ موقع پرستانہ طور پر قوم پرست دائیں بازوکی طرف جھکاؤ کیا (ستم ظریفی یہ ہے کہ 2014 میں پوروشینکو، جو اس وقت روسی بولنے والوں کے ووٹوں سے اور اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے منتخب ہوئے۔انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ 2012 کے قانون کو منسوخ کرنے کی پارلیمنٹ کی کوشش ایک سنگین غلطی تھی)۔ اس نئے زبان کے قانون نے یوکرینی کو پورے یوکرین میں ریاست کی واحد زبان بنا دیا۔ اگرچہ یہ قانون یوکرین کے آئین سے مطابقت رکھتا ہے جو یوکرینی کو سرکاری زبان بناتا ہے، آئین میں روسی اور دیگر اقلیتی زبانوں کوبھی سخت پروٹیکشن حاصل ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں ہیں۔ نیا قانون ان میں سے کچھ پروٹیکشنز کی حیثیت کو دلیل سے کم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اسکولوں میں پورے ملک میں یوکرینی تعلیم کی زبان ہے۔ سکول میں روسی زبان مضمون کے طور پر سیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم پری اسکول اور پرائمری اسکول میں روسی یا دیگر اقلیتی زبانوں سے تعلق رکھنے والے بچے یوکرینی کے علاوہ اپنی زبان میں بھی پڑھ سکتے ہیں، لیکن وہ ہائی اسکول میں نہیں پڑھ سکتے۔ بین الاقوامی نقطہ نظر سے یہ تبدیلی یقینارجعت پسند ہے، لیکن یہ دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے شاید ہی منفرد ہے۔
نیا قانون یوکرینی کو تمام سرکاری کمیونیکیشن یعنی حکومتی کارروائیوں بشمول مقامی حکومتوں کی زبان بناتا ہے۔ اپنے آپ میں یہ عالمی معیارات کے لحاظ سے شاید ہی غیر معمولی ہے۔ میڈیا کے حوالے سے تاہم یہ قانون انتہائی رجعت پسند ہے اور یقینی طور پر یوکرین کے آئین کی خلاف ورزی کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔ قانون میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ روسی یا دیگر زبانوں میں کسی بھی اشاعت کے ساتھ مواد اور حجم میں مساوی یوکرینی ورژن کو شامل کرنے کی شرط ایک سخت اور ناقابل عمل ضابطہ ہے۔ کریمیائی تاتار زبان، اور یورپی یونین کی زبانوں کے لیے استثنا ہے لیکن روسی کے لیے نہیں ہے۔ اگرچہ ایک سابق کالونی کو یقینی طور پر قومی زبان کو فروغ دینے کا حق حاصل ہے، لیکن ایسا کرنے سے دوسری زبانوں کے بولنے والوں کے لیے عملی سطح پر روزمرہ کی زندگی مزید مشکل ہوتی ہے، ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور محنت کش طبقے تقسیم ہوتے ہیں۔
تاہم 2019 کے بعد بھی اس دلیل کو استعمال کرنے کی کوشش کرنا پیوٹن کے محبت میں مبتلا عناصر کی منافقت کا نچوڑ ہے۔ انہیں جس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ قانون روس کے ساتھ الحاق شدہ کریمیا میں اس کے نفاذ کے برسوں بعد ہی آیا۔ 2015 میں کریمیا نے اسکول کی تعلیم کی زبان صرف روسی بنائی، جبکہ طالب علموں کو اختیاری زبانوں کے طور پر یوکرینی یا تاتار سیکھنے کی اجازت دی گئی۔ پری اسکول اور پرائمری اسکول میں تعلیم روسی کے علاوہ یوکرینی یا تاتار میں بھی ہوسکتی ہے، لیکن ہائی اسکول میں نہیں۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے یوکرین کی حکومت نے چار سال بعد روسی قبضے میں کریمیاکی حکومت کے قانون کا سرقہ کیا، لیکن کریمیا میں حقیقت اس سرکاری تنزلی سے بھی بدتر ہے۔ حقیقت میں یوکرینی کو کریمیا کے تمام اسکولوں اور تمام سرکاری معاشرے سے جامع طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ کریمیا اور ڈونباس دونوں میں روسی ملکیت والے حکمرانوں کی پہلی کارروائیوں میں سے ایک یہ تھی کہ کثیر اللسانی نشانوں کو صرف روسی نشانوں سے بدل دیا جائے۔
اسی طرح روس کی ملکیت والے ڈونباس سٹیٹ لیٹس میں 2014 میں ان کے ارد گرد الحاق کے فوراً بعداقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کی نومبر 2014 کی رپورٹ کے مطابق”یوکرینی زبان اور تاریخ کی تعلیم کو خارج کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ریاستی اسکول ڈپلومے حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔“ 2015 میں نصاب میں تبدیلی کی گئی، یوکرینی زبان کے اسباق کو ہفتے میں 8 گھنٹے سے کم کر کے دو گھنٹے کر دیا گیا، جبکہ روسی زبان اور ادب کے اسباق میں اضافہ ہوا۔ روس کے پانچ نکاتی گریڈنگ سسٹم نے یوکرین کی 12 نکاتی اسکیم کی جگہ لے لی۔ اس وقت سے اسکول چھوڑنے والوں کو روسی نشان یعنی دو سروں والے عقاب کے ساتھ روسی سرٹیفکیٹ ملے۔ 2020 میں روسی کو واحد ریاستی زبان قرار دیا گیا۔
یہ سب کچھ2019 کے یوکرینی قانون کا جواز نہیں ہے (جس کی موجودہ صدر زیلنسکی نے مخالفت کی)، لیکن یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ تاریخ الٹ ہے۔ یوکرین میں 2014 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، 2014 کے آخر میں اور 2015 کے اواخر میں ڈونباس اور کریمیا میں روسی قبضے میں رجعت پسند تبدیلیاں ہوئیں۔ تاہم برسوں بعد یوکرائن میں بھی روسی اقدام کی نقالی پر مبنی رجعتی تبدیلیاں کی گئیں، تاہم جو کسی بھی لحاظ سے روسی زبان پر ’پابندی‘ نہیں قرار دی جا سکتی۔
(بشکریہ:theirantiimperialismandours.com، ترجمہ: حارث قدیر)