نقطہ نظر

یوکرائن جنگ پر مارکسی موقف (کچھ بنیادی نکات)

انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے اور پیوٹن کے ساتھ ہاتھ ملانے کے عمل نے دنیا بھر میں یوکرائن جنگ کی بحث کو ایک بار پھر ابھارا ہے۔ ان حالات میں کچھ دن پہلے تک پیوٹن کی بالواسطہ یا براہِ راست حمایت کرنے والا کیمپسٹ بایاں بازو ایک نئے تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ہم ٹھیک دو سال قبل انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کی بین الاقوامی کانگریس میں منظور ہونے والی ایک قرارداد اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد اس جنگ کے دو بڑے اتحادیوں (سوویت یونین اور امریکہ) نے دنیا کے مختلف حصوں کو اپنے اپنے ’’حلقہ اثر ‘‘ میں تقسیم کیا۔ امریکہ نے مغربی یورپ اور لاطینی امریکہ (اور دیگر ممالک) پر غلبہ حاصل کیا۔ جبکہ سوویت یونین نے مشرقی یورپ اور افریقہ و جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں پر اپنا تسلط قائم کیا۔ اِن دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کی شروعات ہوئی۔ جس میں کئی پراکسی جنگیں شامل تھیں۔

دونوں عالمی طاقتوں کی فوجی صلاحیت کم و بیش ایک جیسی تھی۔ تاہم سوویت یونین آہستہ آہستہ اسلحہ کی دوڑ میں مات کھاتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ امریکہ سے بہت پیچھے رہ گیا۔ یہی حال اس کی معیشت کا بھی ہوا۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد یوکرائن نے 1991ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے آزادی حاصل کی۔

یوکرائن کی زمین اور اس کے عوام کئی صدیوں تک زار روس کے زیر تسلط رہے۔ جس دوران روسی ریاست نے یوکرائن کو اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی طور پر جبر و استحصال کا نشانہ بنایا۔ جیسا کہ کوئی بھی سامراجی ریاست کرتی ہے۔ 1917ء کے اکتوبر انقلاب کے بعد لینن اور ٹراٹسکی نے محکوم اقوام کے حوالے سے بین الاقوامی مارکسی موقف اپنایا اور ان اقوام کو خود ارادیت کا مکمل حق دیا۔ جس میں علیحدگی کا حق بھی شامل تھا۔ مقصد یہ تھا کہ خطے ( اور بالآخر دنیا بھر) میں ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جائے۔ تاہم چند سال بعد سٹالن نے لینن کی مارکسی پوزیشن کو منسوخ کر کے اسے قوم پرستانہ اور جابرانہ پالیسی سے بدل دیا۔

سوویت یونین کے انہدام کی وجہ صرف روس کے اندر عدم اطمینان (جو بیوروکریٹک منصوبہ بند معیشت کے بحران، سنسرشپ، ریاستی جبر وغیرہ سے پیدا ہوا) نہیں تھی۔ بلکہ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی اقوام کے قومی محرومی کے جذبات بھی تھے۔ جو روسی تسلط اور کنٹرول (جسے عام طور پر ’’روس کاری‘‘ یا ’’رسیفیکیشن‘‘ کہا جاتا ہے) سے نجات پانے کے خواہاں تھے۔ یہ وہ پالیسی تھی جو لینن کی وفات اور ٹراٹسکی کی جلاوطنی کے بعد رد ِانقلابی سوویت بیوروکریسی نے اپنائی تھی۔
اسی تناظر میں یوکرائن کے محنت کش عوام میں قومی محرومی اور جبر کے احساسات ہمیشہ موجود رہے ہیں اور وہاں روسی ریاست (’’روس‘‘) کو ہمیشہ ایک جابر اور سامراجی قوت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد روس ایک سرمایہ دارانہ ملک بن گیا۔ جہاں ایک ’’گینگسٹر/مافیائی‘‘ طرز کی آمرانہ حکومت قائم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پیوٹن روسی سرمایہ داروں کے رجعتی اور بدعنوان طبقے کا آمرانہ نمائندہ بن گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے سٹالنزم کی بیوروکریسی کے حصے کے طور پر سوویت یونین کو لوٹا اور تباہ کیا اور بعد میں نجکاری کے دوران پبلک اثاثوں کی چوری اور لوٹ مار کے ذریعے ارب پتی بن گئے۔

یہ سچ ہے کہ اپنی تمام تر زوال پذیری کے باوجود امریکی سامراج اب بھی دنیا کی سب سے طاقتور سامراجی قوت ہے اور اسی لئے ہم اس کی تمام پالیسیوں اور اقدامات کی عالمی سطح پر مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔ تاہم مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے بیشتر حصوں میں اب بھی روس جابرانہ کردار ادا کرتا ہے اور اس کا مقصد اپنے تسلط کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینا ہے۔

لہٰذا چاہے ہم سابق سوویت یونین کو ’’انحطاط پذیر (مسخ شدہ) مزدور ریاست‘‘ سمجھیں یا ’’ریاستی سرمایہ داری‘‘، اس میں کوئی شک نہیں کہ 2022ء میں جب روس نے یوکرائن پر کھلا حملہ کیا تو یہ ایک سامراجی نوعیت کی سرمایہ دارانہ ریاست کی کارروائی تھی۔ جس کا مقصد خطے اور دنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط بنانا تھا۔ روس کی فوجی اور معاشی طاقت یوکرائن کے مقابلے میں بے حد زیادہ ہے۔بلکہ دنوں میں موازنہ ممکن ہی نہیں ہے۔

سامراجی حکمران کبھی بھی دوسرے ممالک پر حملے کی اصل وجوہات تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ’’فاشزم کو شکست دینے‘‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں یہ عالمی غلبے کے لئے سامراجی قوتوں کی جنگ تھی۔ اسی طرح عراق پر حملے کو ’’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘‘ کے جھوٹے دعووں سے جواز دیا گیا۔ ایسے بودے بہانے سامراجی جارحیتوں کی تاریخ میں عام ہیں۔

روس نے دعویٰ کیا کہ یوکرائن پر اس کا حملہ ملک کو ’’نازی اثرات سے پاک کرنے‘‘ (Denazification) اور ’’روسی آبادی کی نسل کشی کو روکنے‘‘ کے لئے ہے۔ لیکن یوکرائن میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ صرف دو فیصد عوام انتہائی دائیں بازو کے قوم پرستوں کی حمایت کرتے ہیں۔ جو فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک سے بھی کم شرح ہے۔

پیوٹن کا یہ دعویٰ کہ نیٹو کی توسیع نے روس کو خود کو مغربی سامراجیت سے بچانے کے لئے یوکرائن پر حملے پر مجبور کیا‘ بھی جھوٹ ہے۔ کیونکہ روس خود ایک سامراجی طاقت ہے۔ جو یورپ کی سب سے بڑی فوج اور دنیا کا سب سے بڑا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھتی ہے۔ معاشی طور پر فی کس آمدن کے لحاظ سے روس‘ یوکرائن سے کم از کم چار گنا طاقتور ہے۔ یہ پاکستان اور افغانستان جیسا تناسب بنتا ہے۔ روس کی آبادی 14 کروڑ ہے۔ جبکہ یوکرائن کی صرف ساڑھے تین کروڑ۔

لینن کا قوموں کے درمیان جنگوں کا تجزیہ ہمیشہ اس سوال سے شروع اور اسی پر ختم ہوتا تھا کہ کون سی روش عالمی مزدور تحریک کو مضبوط یا کمزور کرے گی۔ لینن نے ہمیشہ ’’ظالم قوموں‘‘ اور ’’مظلوم قوموں‘‘ کے درمیان واضح فرق روا رکھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جب جابر ممالک کے محنت کش اپنے حکمران طبقے کے ساتھ مل کر محکوم اقوام پر ظلم کرتے ہیں تو وہ عالمی مزدور تحریک کو کمزور کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سے مختلف ممالک کے محنت کش تقسیم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے طبقاتی مفادات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سامراجی حملے صرف جابر ملک کے حکمران طبقے کو فائدہ دیتے ہیں۔ اس لئے جابر ممالک کے محنت کشوں کا سامراجی حملے کی حمایت کرنا اپنے طبقاتی مفادات کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس طرح سے 1) وہ اپنے ملک میں اپنے طبقاتی دشمن کو مضبوط کرتے ہیں۔ 2) وہ حملے کا شکار ملک کے محنت کش بھائیوں میں اپنے خلاف بداعتمادی اور تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

مظلوم اقوام کو خود ارادیت کا حق حاصل ہے۔ جس میں سامراجی حملے کے خلاف مزاحمت کا حق بھی شامل ہے۔ درحقیقت یوکرائنی عوام کی مضبوط مزاحمت نے ہی پیوٹن کے فوجی منصوبوں کو یوکرائن میں ناکام بنائے رکھا ہے۔ ایک بار پھر‘ بات محنت کش طبقے کی ہے۔ یوکرائن کے عام لوگوں کے روسی حملے کے خلاف مزاحمت کے حق کی حمایت کا مطلب روسی حکمران طبقے کے خلاف یوکرائنی حکمران طبقے کی سیاسی حمایت نہیں ہے۔

پیوٹن کے یوکرائن پر حملے نے نیٹو کی کمزور پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اور اسے مزید توسیع کا جواز دیا ہے۔ یہ زیلنسکی حکومت کو تمام قسم کی مزدور دشمن اور غیر جمہوری پالیسیاں نافذ کرنے کا موقع بھی دے رہا ہے۔ جن کی طبقاتی یکجہتی و سوشلسٹ پروگرام کے تحت ٹھوس مزاحمت اور مخالفت ضروری ہے۔

انقلابی شکست پسندی (Revolutionary Defeatism) کی پالیسی یہاں موزوں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ صرف سامراجی قوتوں کے درمیان براہِ راست جنگوں پر لاگو ہوتی ہے۔ بالخصوص جب یہ جنگیں بڑے یا عالمی پیمانے کی حامل ہو جائیں۔ اِس کیس میں یوکرائن سامراجی طاقت نہیں ہے۔

اگرچہ مغربی سامراج یوکرائن کو مالی اور فوجی امداد دے رہا ہے۔ لیکن نیٹو نے جنگ میں براہ راست حصہ ابھی تک نہیں لیا۔ ان کی جانب سے ابھی تک اس سمت میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ یہی صورتحال چین کی ہے۔ لہٰذا یہ ابھی تک ایک عالمی اور بین السامراجی جنگ نہیں ہے۔ اگر مستقبل میں ایسا ہوا (جو انتہائی تباہ کن ہوگا) تو انقلابیوں کو اپنی پوزیشن کو ازسرِ نو مرتب کرنا پڑے گا اور سامراجی جنگ کی مخالفت کو بنیادی مقصد بناتے ہوئے مظلوم اقوام کے دفاع اور خود ارادیت کی حمایت جاری رکھنا ہو گی۔ اگر یہ سامراجی کشمکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو آئی ایس ایل اس پر اپنے انقلابی سوشلسٹ پروگرام اور حکمت عملی کے مطابق ردعمل دے گی۔

یوکرائن کی موجودہ جنگی صورتحال کے حوالے سے مارکسی اساتذہ کی حکمت عملی کا ذکر ضروری ہے۔ جب جاپان نے نیم نوآبادیاتی چین پر سامراجی حملہ کیا تو ٹراٹسکی نے چینی محنت کشوں کے لئے حملہ آوروں کے خلاف لڑنے کی پالیسی تجویز کی لیکن اپنے سیاسی پروگرام اور تنظیمی آزادی کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔*

یاد رہے کہ مغربی سامراجی قوتیں اس جنگ میں بھی ملوث تھیں اور چینی قوم پرستوں کو مختلف مراحل میں مالی، فوجی اور سفارتی مدد دے رہی تھیں۔ ان میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا وغیرہ شامل تھے۔

اسی طرح انقلابِ روس کے دوران جب کورنیلوف پیٹروگراڈ پر چڑھائی کی تیاری کر رہا تھا تو بالشویکوں نے کیرنسکی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد اور کورنیلوف کی افواج کے خلاف عسکری جدوجہد ایک ہی حکمت عملی کے تحت کی۔ ایسی ہی پالیسی ٹراٹسکی نے ہسپانوی خانہ جنگی کے دوران تجویز کی تھی۔ یعنی سٹالنسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹوں کے خلاف سیاسی جدوجہد اور فرانکو کے خلاف عسکری جدوجہد۔ ایسی کسی بھی صورتحال میں طاقت کا توازن جانچنا اور طبقاتی مفادات کو مدنظر رکھنا لازم ہوتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ خود ساختہ ’’سامراج مخالف‘‘ بائیں بازو کے عناصر جو پیوٹن کے حملے کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت کرتے ہیں‘ ایک سنگین غلطی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں انقلابی شکست پسندی کی پالیسی اپنانا روسی جارحیت کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ ان میں سے کئی گروہ اتنے گمراہ ہیں کہ وہ روس کو نہ صرف سامراجی قوت ماننے سے انکاری ہیں بلکہ اسے سرمایہ دارانہ ریاست بھی نہیں مانتے۔ نظریاتی طور پر ایسے غیر مستحکم اور موقع پرستانہ رجحانات کا مقدر نامرادی ہی ہے۔

نیٹو یا زیلنسکی حکومت کی حمایت یا ان کے لئے نرم گوشہ رکھنا بھی اتنی ہی بڑی نظریاتی اور سیاسی غلطی ہے۔ ہم یوکرائنی عوام کی مزاحمت کی حمایت ایک آزادانہ پوزیشن سے کرتے ہیں۔ یعنی حکومت کی مخالفت کیساتھ اور محنت کش طبقے کے عالمی مفادات کی خاطر۔ یہی وہ کام ہے جو ہم جنگ کے دوران یوکرائنی حکومت کی مزدور دشمن، یونین دشمن اور جمہوریت مخالف پالیسیوں کی مذمت کے ذریعے کر رہے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو آئی ایم ایف یا یورپی یونین کی معاشی پالیسیوں کی مخالفت اور مزاحمت ہے۔

ان حالات میں یوکرائنی محنت کشوں سے کہنا کہ وہ روسی حملے کو نظرانداز کر کے اپنی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھالیں‘ روس کی سامراجی جارحیت کی حمایت کے مترادف ہے۔ لیکن مخصوص حالات میں یوکرائنی محنت کش روسی حملے کو شکست دینے اور زیلنسکی حکومت و سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کے قابل ہوں تو اس تاریخی فریضے کی تکمیل میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

زیلنسکی حکومت کا خاتمہ ایک انقلابی فریضہ ہے لیکن یہ حق صرف یوکرائنی محنت کشوں کو حاصل ہے۔ کوئی بیرونی طاقت اس کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔

موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ روسی جارحیت اور جنگ کے خاتمے کی مہم کو وسیع تر سرمایہ داری مخالف پروگرام کے ساتھ چلایا جائے اور یہ عمل یوکرائنی عوام کی روسی حملے کے خلاف مزاحمت کی طبقاتی حمایت سے شروع کیا جائے۔ روسی جارحیت کی مذمت اور فوجوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا جائے۔ یوکرائنی عوام کی فتح پیوٹن حکومت کو کمزور کرے گی اور مشرقی یورپ کے عوام اور روس کے محنت کش طبقے کے لئے نئی راہیں کھولے گی۔ یہ دنیا بھر میں مزدور دشمن حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو تیزی اور تقویت دے گی۔

ہم ڈونیٹسک، لوہانسک اور کریمیا کے عوام کے خود ارادیت کے حق کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن روسی افواج کے بغیر۔ تاکہ فیصلہ واقعی جمہوری ہو۔

ساتھ ہی ہم نہ صرف نیٹو کے مشرقی یورپ سے انخلا بلکہ مکمل تحلیل اور اس کی تمام توسیع پسندانہ عسکری پالیسیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم مغربی سامراج کی جنگی پالیسیوں اور دفاعی بجٹ میں اضافے کی مخالفت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں روسی عوام پر اثر انداز ہونے والی اقتصادی پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ جنگ مخالف روسی شہریوں کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم روسی و یوکرائنی حکمران طبقے کے اثاثے ضبط کرنے کا انقلابی پروگرام پیش کرتے ہیں۔

ضروری ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کا قومی مسئلے پر تاریخی موقف دہرایا اور مضبوط کیا جائے اور مشرقی یورپ، قفقاز (Caucasus) اور وسط ایشیا کی اقوام کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کو بنیادی حل کے طور پر پیش کیا جائے۔ایسی فیڈریشن جو سامراجی اثر و رسوخ اور عدم مساوات سے پاک ہو۔ جنگ کے خلاف اپنی پالیسی کے تحت ہم یوکرائن میں انقلابی تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم یوکرائنی سوشلسٹ لیگ اور مشرقی یورپ میں آئی ایس ایل کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کے اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ تاکہ انٹرنیشنلسٹ سوشلسٹ موقف کا بھرپور پرچار کیا جا سکے۔

اسی تجزئیے اور پالیسی کی بنیاد پر آئی ایس ایل کو دنیا بھر میں جہاں ممکن ہو یکجہتی کے اقدامات میں شامل رہنا چاہیے اور یوکرائنی ساتھیوں کی حمایت کی بین الاقوامی مہم کو جاری رکھنا چاہیے۔

***

*کامریڈ ٹراٹسکی نے چین پر جاپانی حملے کے معاملے پر زبردستی انقلابی ڈیفیٹزم کی پالیسی لاگو کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ 23 ستمبر 1937ء کو میکسیکو کے معروف مصور ڈیگو رائے ویرا کو خط میں انہوں نے لکھا:
’’بورژوا پریس کو اپنے اعلامیے میں‘ میں نے کہا کہ یہ چین کی تمام مزدور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگلی صفوں میں جاپان کے خلاف جنگ میں حصہ لیں لیکن ایک لمحے کے لئے بھی اپنے پروگرام اور آزادانہ سرگرمی کو نہ چھوڑیں۔ اس پر ایفل کے پیروکاروں نے چیخ و پکار شروع کر دی کہ یہ تو ’’سوشل حب الوطنی‘‘ ہے! یہ تو چینگ کائی چیک کی گماشتگی ہے! یہ تو طبقاتی جدوجہد کے اصول سے روگردانی ہے! بالشویزم نے تو سامراجی جنگ میں انقلابی ڈیفیٹزم کی پالیسی کی تبلیغ کی تھی! ایفل والوں کے10 ستمبر 1937ء کے ایک ڈاکومنٹ سے لی گئیں یہ چار سطور بالکل واضح کرتی ہیں کہ ہمارا واسطہ یا تو حقیقی غداروں سے ہے یا یہ یکسر احمق اور فاترالعقل قسم کے لوگ ہیں۔ لیکن حماقت بھی اس درجے تک پہنچ جائے تو غداری ہی بن جاتی ہے۔
’’ہم تمام جنگوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں نہ آج تک دیکھا ہے۔ مارکس اور اینگلز نے برطانیہ کے خلاف آئرلینڈ کے لوگوں اور زار کے خلاف پولینڈ کے لوگوں کی انقلابی جدوجہد کی حمایت کی تھی۔ حالانکہ اِن دونوں قومی جنگوں کے رہنما زیادہ تر بورژوازی میں سے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں جاگیردارانہ اشرافیہ کے لوگ بھی شامل تھے… اور تمام کے تمام رجعتی کیتھولک تھے… ہم مارکسسٹوں اور بالشویکوں نے (فرانسیسی) سامراجی غلبے کے خلاف (مراکشی) بربروں کی جدوجہد کو ترقی پسندانہ جنگ قرار دیا تھا۔ لینن نے سامراجی اور نوآبادیاتی یا نیم نوآبادیاتی قوموں کے درمیان فرق کی بنیادی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سینکڑوں صفحات کالے کیے۔ استحصالی اور استحصال زدہ ممالک میں تمیز کیے بغیر ’’انقلابی ڈیفیٹزم‘‘ کی عمومی بات کرنا بالشویزم کا بدترین کیریکیچر (تضحیک آمیز خاکہ یا مضحکہ خیز کارٹون) بنانے اور پھر اس کیریکیچر کو سامراج کی خدمت پر معمور کر دینے کے مترادف ہے۔
’’چین ایک نیم نوآبادیاتی ملک ہے جسے جاپان ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نوآبادیاتی ملک میں تبدیل کر رہا ہے۔ جاپان کی جدوجہد سامراجی اور رجعتی ہے۔ چین کی جدوجہد نجات دہندانہ اور ترقی پسندانہ ہے۔ لیکن چینگ کائی شیک؟ ہمیں چینگ کائی شیک، اس کی پارٹی یا چین کے سارے حکمران طبقے کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ بالکل جیسے مارکس اور اینگلز‘ آئرلینڈ اور پولینڈ کے حکمران طبقات کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں تھے۔ چینگ کائی شیک چینی کسانوں اور مزدوروں کا قاتل اور جلاد ہے۔ لیکن آج وہ جاپان کے خلاف چین کی بچی کھچی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے پر مجبور ہے۔ کل شاید وہ پھر دغا دے گا۔ یہ عین ممکن ہے۔ بلکہ یہ ناگزیر ہے۔ لیکن آج وہ لڑ رہا ہے۔ صرف بزدل، بدذات اور عقل سے پیدل لوگ ہی اس لڑائی میں شمولیت سے انکار کر سکتے ہیں۔‘‘

Roznama Jeddojehad
+ posts