علی مدیح ہاشمی
ترجمہ: ایف ایس
”سائیکو تھراپی کا مقصد لوگوں کو آزاد کرنا ہے“: رولو مے (امریکی ماہر ِنفسیات)
کچھ سال پہلے، میرے بچوں کی اسکول انتظامیہ نے والدین کی اساتذہ سے میٹنگ کے سلسلہ میں مجھ سے رابطہ کیا۔ بطور ماہرِ نفسیات 20 سال سے زیادہ عرصے کی پریکٹس کے دوران جب لوگ اچانک مجھ سے رابطہ کر کے اپنا اعصابی بوجھ ہلکا کرنا شروع کرتے ہیں تو میں مسکرا کر کچھ منٹ سنتا ہوں اور پھر آہستہ سے تجویز پیش کرتا ہوں کہ شاید ہمیں یہ گفتگو بعد میں کرنی چاہئے (جب دھیان سے بات سننے کیلئے میرے پاس وافر وقت ہو گا)، کسی اور جگہ (جہاں وہ بلا خوف و خطر بات کر سکیں)۔
اس دن لیکن اسکول کی ایڈمنسٹریٹر شیریں (ان کا اصل نام نہیں) کچھ مختلف بات کرنا چاہتی تھیں۔ وہ ایک ماہر ِنفسیات کی تلاش میں تھیں، انہوں نے کسی تنظیم سے وابستہ ماہر کے بارے میں اپنے اکثر دوستوں سے سن رکھا تھا۔
انہوں نے مذکورہ ماہر ِنفسیات سے وقت لینے کے لئے فون کیا، ملاقات ہوئی اور ان کے ساتھ ایک دو سیشن کئے۔ پھر تھراپسٹ نے مشورہ دیا کہ وہ ان کے ”کورس“ میں شامل ہو جائیں (بھاری فیس کے ساتھ) اور اس شمولیت سے انہیں مطلوبہ نفسیاتی مدد حاصل ہو گی اور وہ خود بھی ماہرِ نفیسات بن جائیں گی۔
انہوں نے چند ماہ تک کورس کیا اور کچھ سرسری ”امتحانات“ کے بعد انہیں بتایا گیا کہ اب وہ ایک ”نفسیاتی معالج“ ہیں اور انہیں لوگوں کی ’تھراپی‘ شروع کر دینی چاہیے۔ وہ مجھ سے جو بات کرنا چاہتی تھیں وہ یہ تھی کہ اپنے ”ڈپلوما“ کے باوجود وہ خود کو ذہنی پریشانیوں میں مبتلا لوگوں کی مدد کیلئے تیار نہیں کر پاتی تھیں۔ انہوں نے پوچھا کیا میں ان کی مدد کر سکتی ہوں؟
میں اس ’تھراپسٹ فیکٹری‘ کے بارے میں قدرے مطلع تھا۔ میں نے شیریں سے کہا کہ اگر وہ اپنی طرح کے کچھ مزید ”ڈپلوما ہولڈرز“ تلاش کر لیں تو میں شاید ان کے لئے ایک کلاس یا کوئی باضابطہ رہنمائی کا بندوبست کر سکوں حالانکہ دماغی امراض اور نفسیات کے میرے ماہرین ساتھی جن سے میں اس کام کیلئے رابطہ کر سکا انہوں نے اس کی سختی سے مخالفت کی کیوں کہ وہ اس موہوم سے پردے کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے جس کی اوٹ سے وہ پیسہ کماتے ہیں اور نہ وہ ان لوگوں کو کھونا چاہتے تھے جو معدودے چند قابل ترین معالجین کے متلاشی رہتے ہیں۔
شیریں کے مخمصے نے ایک بہت بڑے مسئلہ کو اجاگر کیا۔ ذہنی صحت کی خدمات میں بڑھتی ہوئی طلب اور ان خدمات کی فراہمی کے لئے مناسب اہلیت اور تربیت یافتہ پیشہ ور معالجین کی شدید قلت، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ نا اہل، جعلی اور دھوکے باز معالج اس خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سانپ کا تیل بھی فروخت کر جائیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں ’سائیکو تھراپی‘ کے شعبے میں کسی بھی طرح کے لائسنس یا ضابطے کی مکمل کمی (حتیٰ کہ یہ شعبہ ”لائف کوچنگ“ سے گہرا تعلق رکھتا ہے) نے یہ ناممکن بنا دیا ہے کہ پریشانی کا شکار شخص ضرورت کے وقت کس سے رجوع کرے۔ اس مسئلہ نے کرونا وائرس کے بعد ذہنی صحت سے متعلق مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے جو پہلے ہی ہم پر مسلط ہیں اور آنے والے وقتوں میں اس میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔
یہ مسئلہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی موجود ہے۔ ایک دہائی قبل جب میں امریکہ میں پریکٹس کر رہا تھا، میں امریکن سوسائٹی آف سائیکو فرماکولوجی کا رکن بن گیا۔ میں نے انہیں 100 ڈالر بھیجے تھے اور انہوں نے مجھے ایک آفیشل سرٹیفکیٹ ارسال کیا جو میں نے اپنے دفتر کی دیوار پر فریم کرا کے آویزاں کر دیا لیکن میں نے اسے کبھی اپنے سی وی میں تعلیمی قابلیت کے طور پر ظاہر نہیں کیا، نہ ہی اپنے بزنس کارڈ میں، مریضوں یا آجروں کے ساتھ کسی معاملے میں استعمال کیا (کیونکہ یہ ’ڈگری‘ نہیں تھی جو میں نے کسی منظور شدہ ادارے کے تعلیمی کورس میں امتحانات کے بعد حاصل کی تھی)۔
چند سال قبل پاکستان میں جعلی ڈگری اسکینڈل نے ان تعلیمی گھوٹالوں کو بے نقاب کیا تھا اور ظاہر ہے انٹرنیٹ نے مشکوک افراد کو پکڑنا اور بھی مشکل بنا دیا ہے لہٰذا تناؤ، اضطراب یا افسردگی یا اس سے زیادہ سنگین مسائل جیسے منشیات کی علت، ذہنی دیوانگی، شیزوفرینیا یا خودکشی کے فریب سے نکلنے کے لئے کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اسے کہاں جانا چاہیے؟
کیا اصل، قابل اعتماد اور اہل تھراپسٹ اور ذہنی صحت کے معالجین کو ’تھراپسٹ فیکٹریوں‘ (جنہیں ’ڈپلوما ملز‘ بھی کہا جاتا ہے) سے الگ کرنے کا کوئی طریقہ ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا؟
ہاں اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے تھراپسٹ کو تلاش کریں جو اپنے شہر یا بیرون ملک کے معروف اداروں سے فارغ التحصیل ہوں۔ لاہور کے قدیم ادارے پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی یا میری اپنی مادر علمی (جہاں میں اس وقت پڑھاتا بھی ہوں) کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سبھی دماغی امراض اور نفسیات کی انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم دیتے ہیں۔
بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی ایسے تعلیمی پروگرام ہوں گے۔ ان تعلیمی پروگراموں کے فارغ التحصیل گریجویٹس کی نفسیاتی علاج اور ذہنی صحت کی کم از کم مناسب تربیت ضرور ہو گی۔ مغربی ممالک میں دیگر متعلقہ مضامین جیسے کہ سماجی کام، بحالی کیلئے مشاورت اور انسداد منشیات کیلئے کونسلنگ بھی تعلیم کے تسلیم شدہ شعبے ہیں لہٰذا جب آپ کسی معالج کو تلاش کریں تو اس کی اہلیت دیکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا اسے آپ جیسے مسائل کے حامل افراد کے ساتھ کام کا تجربہ ہے۔
حالیہ دنوں میں بہت سی ’ہیلپ لائنز‘ استعمال کرنے سے گریز کریں۔ خاص طور پر جب سے کورونا وائرس شروع ہوا ہے، جب تک آپ تنظیم چلانے والے لوگوں اور ہیلپ لائن کی تصدیق نہ کر لیں، رابطہ نہ کریں۔ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے اس بارے میں پوچھیں کہ آیا انہیں کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانے کا تجربہ ہوا ہے (اور پھر مذکورہ بالا طریقے کے مطابق ان کی قابلیت کو چیک کریں)۔
جب آپ کسی معالج کے ہاں جائیں تو اس سے بہت سے سوالات کریں (تعلیم، قابلیت اور مہارت کے بارے میں) اور اگر وہ ٹال مٹول یا دفاعی انداز اپنائے تو خاموشی سے واپس چلے آئیں۔ اگر آپ کو کوئی غلط چیز نظر آئے یا اس کا تجربہ ہو تو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن میں شکایت درج کرائیں۔
فی الوقت سائیکو تھراپی اور دیگر دماغی صحت کی خدمات کو معیاری بنانے اور صوبائی اور وفاقی سطح پر نگرانی اور ضابطے تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں (اگرچہ اس میں وقت لگ سکتا ہے)۔ اس کے علاوہ چونکہ ذہنی صحت کے اہل پیشہ ور افراد کی کمی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، حکومت پاکستان نے صوبائی حکومتوں اور قومی تنظیموں کے ساتھ مل کر جیسا کہ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی، دماغی صحت کی خدمات کی فراہمی شروع کر دی ہیں جو بغیر کسی قیمت کے یا کم قیمت پر بڑی تعداد میں لوگوں کو مہیا کی جا سکتی ہیں۔
ان میں ’نفسیاتی فرسٹ ایڈ‘ پر مبنی ”پی ایف اے موبائل“ نامی ایک مفید ایپ گوگل پلے یا ایپل اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے منظور شدہ مینٹل ہیلتھ اینڈ سائیکو سوشل سپورٹ پروگرام بھی آبادی کی سطح کے لحاظ سے ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن اسے فعال بنانے کے لئے صوبائی اور قومی سطح پر حکومتی تعاون کی ضرورت ہے…اگرچہ پورے پاکستان میں معیاری سائیکو تھراپی (اور نفسیاتی علاج) کی کمی ہے لیکن اگر آپ کچھ کام کرنے پر راضی ہیں تو آپ کیلئے اعلیٰ درجے کی سائیکو تھراپی کی خدمات اور اسے حاصل کرنے کے طریقے موجود ہیں۔
یہ ضروری ہے کیونکہ ایک غیر تعلیم یافتہ اور نااہل معالج پریشانیوں کا شکار اور جذباتی طور پر کمزور انسان کے لئے فائدے سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ قواعد و ضوابط، نگرانی اور احتساب کا ضابطہ تیار کیا جا رہا ہے لیکن اس کے نافذ ہونے میں مزید کئی سال لگیں گے۔ اس وقت تک خریدار ہوشیار رہیں۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے