حارث قدیر
اپنے مالی خسارے کی وجہ سے پشاور یونیورسٹی کچھ عرصے سے خبروں میں ہے۔ اساتذہ سمیت ملازمین کی تنخواہیں تک ادا نہیں کی جا رہیں۔ حکومتی طرفدار اس صورتحال کی ذمہ داری اوور سٹافنگ کو قرار دے رہے ہیں۔ اصل وجوہات کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔ پشاور یونیورسٹی کے ملازمین اور یونین رہنماوں سے انٹرویوز کی مدد سے تیار کی گئی مندرجہ ذیل مختصر رپورٹ اصل وجوہات کی نشاندہی کرتی ہے: مدیر
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی درسگاہ پشاور یونیورسٹی میں مالیاتی بحران کے نام پر ٹیچنگ سٹاف اور درجہ سوم اورچہارم کے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ مالیاتی بحران کی وجہ سے الاؤنسز کی کٹوتی کرتے ہوئے بنیادی تنخواہ فراہم کرنے کے تحریری حکمنامہ پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا اور بنیادی تنخواہوں میں سے بھی کٹوتی کرنے کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ اس کے علاوہ کلریکل سٹاف کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس کو ابھی تک ماہ جنوری کی تنخواہ (جو یکم فروری کو ملنی تھی) ابھی تک ادا نہیں کی جا سکی ہے۔
پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے وائس چانسلر کے نام کھلا خط تحریر کرتے ہوئے تنخواہوں میں کٹوتی کی قانونی وجہ، کٹوتی شدہ تنخواہ کی باقی ماندہ رقوم کی ادائیگی کی تاریخ اور آئندہ ماہ کی تنخواہوں میں کٹوتی کئے جانے یا نہ کئے جانے کی بابت وضاحت مانگی تھی ہے۔ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے مطابق وائس چانسلر کی وضاحت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل دیا جائے گا۔ تاہم امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگرآئندہ ماہ بھی تنخواہوں میں کٹوتی کرنے کا منصوبہ جاری رکھا گیا تو پھر کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جائے گا۔
ادھر پشاورمیں موجود دیگر چار جامعات میں بھی آنیوالے دنوں میں مالیاتی بحران اور تنخواہوں میں کٹوتیوں کے خطرات منڈلانے لگے ہیں، جس کی وجہ سے دیگر چاروں جامعات کی ٹیچرز ایسوسی ایشنوں نے بھی پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے مشترکہ طور پر جامعات کے خلاف ہونیوالی مبینہ سازش کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک ڈاکٹر فیض اللہ کا خیال ہے کہ یہ مالیاتی بحران نہیں ہے بلکہ تعلیم کے شعبہ کی نجکاری کا ایک منصوبہ ہے جس پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
’روزنامہ جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ’گزشتہ عرصہ میں درجہ چہارم کے 450 سے زائد کنٹریکٹ ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا لیکن اطلاعات ہیں کہ مستقل آسامیاں تخلیق کر کے درجہ چہارم کے ملازمین کی تعیناتی کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ ملازمتوں سے فارغ ہونے والے ملازمین چونکہ اے این پی کے دور حکومت میں بھرتی کئے گئے تھے، اس لئے اب نئی حکومت نئے ملازمین اپنے ووٹرز میں سے بھرتی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی میں ہر سال طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ٹیچرز کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ 16000 طلبہ زیر تعلیم ہیں لیکن 600 اساتذہ کی فیکلٹی موجود ہے۔ زیادہ تر اساتذہ وزٹنگ لیکچررز ہیں جن کا دہرا استحصال ہو رہا ہے۔‘
’وفاقی حکومت کی طرف سے ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے ایچ ای سی کی جانب سے مالی اعانت میں کم رقم دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ صوبائی حکومت کی گرانٹ میں بھی کمی کر دی گئی ہے، یونیورسٹی کے ساتھ منسلک کالجز کو بھی اضلاع کی جامعات کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس لئے متعدد ایسے ذرائع بھی تھے آمدن کے جو کم ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسا کوئی بڑا مالیاتی بحران نہیں ہے جس کی وجہ سے اس طرح کا عمل کیا جائے۔‘
ادھر پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ وہ اس عمل کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ تعلیم کے ساتھ اس طرح کا سلوک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ صرف پشاور یونیورسٹی میں نہیں ہو رہا بلکہ مستقبل میں دیگر جامعات میں بھی ایسا ہی سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ ہمیں اس کے خلاف مل کر جدوجہد کرنا ہو گا۔ تعلیم کو کاروبار بنانے کے عمل کو روکنا ہو گا اور جامعات کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔