عمران کامیانہ
گزشتہ چند سو سالوں کے دوران ملکوں یا قومی ریاستوں کی حدود کو خود سرمایہ داری نے روند ڈالا ہے اور ایک عالمی معیشت قائم کی ہے جس پر تمام قومی معیشتیں منحصر ہیں۔ یہ عالمی معیشت مختلف قومی معیشتوں کا جمع حاصل نہیں ہے بلکہ ایک دیوہیکل اور خودکار حقیقت ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر محنت کی تقسیم کی ہے۔
مثلاً اگر ہم آج کے مشہور زمانہ ’آئی فون‘ کو ہی لیں تو اس کی سکرین، سٹوریج اور کیمرا جاپان کی کمپنیاں بناتی ہیں۔ بیٹری، وائی فائی اور ریڈیو ریسیور وغیرہ چین کی کمپنیاں بناتی ہیں۔ سافٹ وئیر امریکہ میں بنتا ہے۔ ریم اور پروسیسر کوریا کی کمپنیاں بناتی ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ان کمپنیوں کے نیچے کئی ذیلی کمپنیاں ہیں اور پیداوار کی ’آؤٹ سورسنگ‘ کا یہ سلسلہ درجنوں ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
گویا ایک موبائل فون بنانے کے لئے بین الاقوامی سطح کی تقسیمِ محنت درکار ہے۔ ایک ”سوشلسٹ ملک“ کو یہ سب کچھ خود سے بنانے کے لئے دیوہیکل وسائل درکار ہوں گے، درجنوں نہیں سینکڑوں نئی صنعتیں لگانی پڑیں گی اور پھر سب سے اہم ٹیکنالوجی کا سوال ہے۔ یہ تمام تر ٹیکنالوجی شروع سے ایجاد کرنے کی کوشش یقینا کوئی معقول خیال نہیں ہو گا۔ لیکن اگر ہم پھر بھی فرض کر لیں ایک الگ تھلگ ملک میں آئی فون بنا لیا جاتا ہے تو اِس کی پیداواری لاگت اتنی زیادہ ہو گی کہ یہ ساری مشقت معاشی حوالے سے ہی گھاٹے کا سودا ہو گی۔
اس مظہر کو چکن سینڈوچ کی سادہ سی مثال کی مدد سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک سینڈوچ کو تمام اجزا اور لوازمات سمیت ’سکریچ‘ سے تیار کرنے کے لئے (یعنی تمام اجزا خود بنائے جائیں‘ منڈی سے کچھ نہ خریدا جائے) کتنا وقت درکار ہو گا؟
ایک امریکی یوٹیوبر نے کچھ سال پہلے یہ تجربہ کیا جس میں اسے چھ مہینے لگے اور ایک سینڈوچ 1500 ڈالر میں پڑا۔ معاشیات کی رو سے اگر چھ مہینے کی محنت کی’آپرچونیٹی کاسٹ‘ (یعنی اس کی محنت کا ممکنہ متبادل استعمال) کو بھی شامل کیا جائے تو سینڈوچ کی لاگت اس سے کئی گنا (بلکہ کئی سو گنا) زیادہ بن جائے گی۔ یہ حقیقت اس کے علاوہ ہے کہ ابھی سینڈوچ کے لوازمات اور اجزا بنانے کی تکنیک اور اوزار اسے نئے سرے سے ایجاد نہیں کرنے پڑے۔
عالمی تجارت اور تقسیمِ محنت سے کٹ جانے والے کسی بھی ملک کو کم و بیش اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک دوسری صورت یہ ہے کہ ہر طرف سے سرمایہ داری میں گھرے ’سوشلسٹ ملک‘کو محنت کی عالمی تقسیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے عالمی منڈی کا حصہ بننا ہو گا۔ لیکن عالمی منڈی میں تجارت کے لئے اسے نا گزیر طور پر منڈی کے قوانین کے تابع ہونا پڑے گا۔ یوں عالمی منڈی کی قوتیں آخر کار ایک ملک کی سوشلسٹ منصوبہ بندی پر حاوی ہو جائیں گی۔ ویسے بھی دو متضاد نظام لمبے عرصے تک ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
سرمایہ دارانہ سماج کی پیداواری قوتیں عرصہ قبل قومی حدود سے تجاوز کر چکی ہیں اور پے درپے ہونے والی دو عالمی جنگوں نے دہائیاں قبل اِس حقیقت کا اظہار کر دیا تھا۔ یوں آج کے عہد میں باقی دنیا سے کٹ کر ’ایک ملک میں سرمایہ داری‘ بھی کہیں وجود رکھتی ہے نہ ایسا ممکن ہے۔
چونکہ تکنیک اور پیداواریت (Productivity) کے لحاظ سے سوشلزم کو سرمایہ داری سے آگے کا مرحلہ ہونا چاہئے لہٰذا قومی حدود کے اندر الگ تھلگ سوشلسٹ سماج تعمیر کرنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ پیداواری قوتوں کو سرمایہ داری سے بھی پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہے اور ایک رجعتی یوٹوپیا ہے۔
بالخصوص ایک پسماندہ ملک میں تو ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مارکس کے الفاظ میں ”پیداواری قوتوں کی ترقی (سوشلزم کی) بالکل عملی شرط ہے کیونکہ اس کے بغیر مانگ (قلت) پھیلتی ہے اور مانگ کے ساتھ ضروریاتِ زندگی کی جدوجہد دوبارہ شروع ہو جاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ تمام تر پرانی بکواس ناگزیر طور پر پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔“
یوں ایک عالمی نظام کے خلاف جدوجہد بھی عالمی سطح پر کی جا سکتی ہے اور اس کی جگہ بھی ایک عالمی نظام ہی لے سکتا ہے۔ ایک ملک میں انقلاب برپا کر کے عالمی سرمایہ داری کو اکھاڑا نہیں جا سکتا ہے۔ ہاں مگر اِس عمل کا آغاز ضرور کیا جا سکتا ہے اور یہ ایک تاریخی فریضہ ہے جس میں کوتاہی ایک تاریخی جرم بن جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے ترقی یافتہ یورپ میں انقلابات کا انتظار کرنے کی بجائے پسماندہ روس میں سرکشی کی جرات مندانہ قیادت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا تھا اور انقلابِ روس کو دنیا بھر کے انقلابات کے لئے ایک تحریک اور عمل انگیز بنانے کی کوشش کی تھی۔
ٹراٹسکی نے ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں واضح کیا تھا، ”سماج اتنے منطقی نہیں ہوتے کہ پرولتاریہ کی آمریتوں کی تاریخیں عین اُسی لمحے آ جائیں جب معاشی اور ثقافتی حالات سوشلزم کے لئے پک کر تیار ہو جائیں۔ انسانیت اگر اتنی نظم و ترتیب کے ساتھ ارتقا پذیر ہوئی ہوتی تو آمریت کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، نہ ہی بالعموم انقلاب کی ضرورت پیدا ہوتی۔ زندہ تاریخی سماج بالکل بے آہنگ ہوتے ہیں اور جتنے بے آہنگ ہوتے ہیں اتنی ہی تاخیر زدہ اُن کی ترقی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت اسی بے آہنگی کا ہم آہنگ اظہار تھی کہ روس جیسے پسماندہ سماج میں بورژوا حکومت کی مکمل فتح سے پہلے ہی بورژوازی گل سڑ چکی تھی اور سوائے پرولتاریہ کے کوئی نہ تھا جو قومی قیادت میں اس کی جگہ لے سکے۔“