تاریخ

بھگت سنگھ: جس کے افکار آج بھی حکمرانوں کے لئے ڈراونا خواب ہیں!

کپل دیو

28 ستمبر 1907ء کو لائل پور (فیصل آباد) کے سکھ گھرانے میں بھگت سنگھ کا جنم ہوا۔ بھگت سنگھ کا گھرانہ برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمتی سیاست میں پیش پیش تھا۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد اور چچا جیل سے آزاد ہوئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دادی نے بچے کا نام ’بھگت‘ یعنی بھاگوں (قسمت) والا رکھا۔

بھگت سنگھ نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ جہاں انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لینا شروع کیا۔ اپنی دو دہائیوں پر محیط مختصر زندگی کے باوجود بھگت سنگھ برصغیر میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے نمایاں کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہ دو دہائیاں عالمی و ملکی حوالے سے تاریخی واقعات سے بھرپور تھیں۔ دنیا پہلی عالمی جنگ کا شکار تھی۔ ایشیا کا وسیع علاقہ سلطنت برطانیہ کے قبضے میں تھا اور دوسری جانب روس میں زار شاہی کی بنیادیں ہل رہی تھیں۔

برطانوی حکومت نے عوامی تحریک کو کچلنے اور حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے کانگریس جیسی تنظیم بنانے کے بعد اپنی روایتی پالیسی ”تقسیم کر کے حکومت کرو“ کو سماج کی گہرائی میں مزید پیوست کرتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا۔

بھگت سنگھ کے جذبے و جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب چار سال کی عمر میں پوچھا گیا کہ آپ کھیتوں میں کیا اگا رہے ہو تو اُس کے جواب میں بھگت سنگھ نے کہا کہ گولیاں اگا رہا ہوں جس سے برطانوی سامراج کا خاتمہ کریں گے۔

ایک طرف برطانوی راج کا جبر و استحصال مزید بڑھ رہا تھا تو دوسری طرف برطانوی سرکار کی پیوند کردہ قومی بورژوا لیڈرشپ برطانوی حکومت کے ساتھ تھی۔ گاندھی کو قیصر ہند کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ انڈین سمر میں مصنف نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ ”جب 1915ء میں گاندھی ہندوستان واپس آئے تو وہ اس وقت بھی ایسی شخصیت نہیں لگ رہے تھے جس نے سلطنتوں کو ہلا کہ رکھ دیا ہو۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ 3 جون 1915ء کو کنگ کی سالگرہ کے اعزاز میں احمد آباد کے موہن داس گاندھی کو برطانوی سلطنت کی خدمات کے پیش نظر قیصر ہند (ہندوستان کے شہنشاہ) کے لقب سے نوازا گیا۔“

1919ء میں امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے ظالمانہ قتل عام نے 12 سالہ بھگت سنگھ کی سوچ پر گہرا اثر چھوڑا۔ دوران طالبعلمی ایک دن بھگت سنگھ لاہور سے 30 کلو میٹر دور جلیانوالہ باغ گئے اور شہیدوں کی مٹی کی خاک لے کر گھر لوٹے۔

اسی دوران ہی گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی تھی جس میں ہندوستان کے عوام خصوصاً نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بھگت سنگھ بھی گاندھی کی اس تحریک سے کافی متاثر تھے۔ تشدد کے واقعات کے باعث گاندھی نے سول نافرمانی تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جس کی وجہ سے بھگت سنگھ سمیت دیگر نوجوانوں میں گہری مایوسی پھیلی۔ نوجوان دل برداشتہ ہو گئے اور گاندھی کی چالبازیوں کو سمجھتے ہوئے دوسری راہ اختیار کی۔

برصغیر سے دور روس میں 1917ء میں ہونے والے بالشویک انقلاب کے برصغیر کی قومی آزادی کی تحریک پر اثرات پڑنے لگے۔ ڈاکٹر لال خان اپنی کتاب ’پاکستان کی اصل کہانی‘ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”قومی آزادی کی تحریک کو انقلاب روس نے ایک الگ رخ دے دیا تھا۔ تحریک آزادی میں بائیں بازو کا اثر بڑھنے لگا۔ برطانوی سامراج کو خطرہ تھا کہ قومی آزادی کی تحریک طبقاتی بنیادوں پر مضبوط ہو کر طبقاتی جدوجہد کی صورت نہ اختیار کر لے…“

بھگت سنگھ لاہور میں بھارت نوجوان سبھا کا قیام عمل میں لایا۔ لیکن بعد میں ’ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن‘ (HRA) کا حصہ بنا جس میں لالہ لجپت رائے جیسے بائیں بازو کے رہنما شامل تھے۔ بھگت سنگھ اٹلی کے نوجوانوں کی تحریک سے کافی متاثر تھا۔ 1925ء میں کاکوری ٹرین ڈکیتی کا واقع ہوا۔ اسی مہم جوئی کی نتیجے میں ایچ آر اے کے کامریڈوں کی گرفتاری عمل میں آئی اور 1927ء میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، روشن سنگھ اور راجندر سنگھ کو لاہور میں پھانسی دے دی گئی۔

اس واقعے کے بعد بھگت سنگھ سیاسی طور پر کافی سرگرم ہو گیا۔ اس نے سنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کیا۔ ان میں جان ریڈ کی مشہور کتاب”دنیاکو جھنجھوڑ دینے والے دس دن“ سمیت دیگر کئی تاریخی اور انقلابی کتابیں شامل تھیں۔ ’ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن‘ سے ’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن‘ تک کی تبدیلی اس مطالعے کا واضح اظہار تھی۔ بھگت سنگھ سوشلزم کی طرف راغب ہونے لگا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے قومی بورژوا سیاست کی بجائے انقلابی سیاست کے راستے پر سفر شروع کیا۔ بھگت سنگھ ایسی آزادی میں یقین نہیں رکھتا تھا جو سماج میں طبقاتی استحصال، ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ نہ کر سکے۔ وہ ایسی آزادی کی کھلی مخالفت کرتا تھا جس میں گوروں کی جگہ پر مقامی سرمایہ دار ہندوستانی محنت کشوں کا استحصال جاری رکھیں۔

2 مئی 1926ء کو لاہور میں دسہرہ کے تہوار پر بم دھماکے کی وجہ سے 1927ء میں پہلی بار بھگت سنگھ کو گرفتار کیا گیا۔ ایک مہینہ زیر حراست میں رہنے کے بعد 4 جولائی 1927ء کو رہائی ہوئی۔ 30 اکتوبر 1928ء کو ہندوستان میں سائمن کمیشن آیا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے لالہ لجپت رائے کو سائمن کمیشن کے خلاف لاہور میں احتجاج کی قیادت کرنے کی پیشکش کی۔ اس احتجاج میں برطانوی حکومت کی لاٹھی چارج کے نتیجے میں لالہ لجپت رائے شدید زخمی ہوئے اور دو ہفتوں بعد زخموں کی تاب نہ لانے کی وجہ سے شہید ہو گئے۔ بھگت سنگھ اور دیگر ساتھیوں نے اپنے لیڈر کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ لاٹھی چارج کے احکامات دینے والے سکاٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن پہچاننے میں غلطی کی وجہ سے سکاٹ کے بجائے سانڈرس کو قتل کر دیا گیا۔

اس قتل نے ایک طرف برطانوی حکومت کی بنیادیں ہلائیں تو دوسری جانب بھگت سنگھ اور دیگر شریک ساتھی خبروں کی زینت بن گئے۔ 8 اپریل 1929ء کو دہلی میں اسمبلی ہال میں بم پھینکے گئے۔ جس کا مقصد کسی کو جانی نقصان پہنچانے کے بجائے برطانوی سامراج کو للکارنا تھا۔ یوں بم پھینکنے کے بعد بھگت سنگھ اور سکھ دیو نے گرفتاری پیش کی۔ وہ دہلی جیل میں 22 اپریل تک پولیس کے ریمانڈ میں تھے۔ 12 جون کو عمر قید کی سزا سنانے کے بعد دونوں گرفتار نوجوانوں کو لاہور اور میانوالی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ وہاں بھگت سنگھ نے جیل کے اندر اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس میں جیل کے اندر فراہم کردہ قیدیوں کو سہولیات کے فقدان کے خلاف بھوک ہڑتال کا آغاز کیا۔ بھوک ہڑتال کی خبر لوگوں کو متوجہ کرنے لگی۔ بھگت سنگھ کی شہرت دن بہ دن بڑھنے لگی۔ کانگریس پارٹی کی تاریخ لکھنے والے پٹابھی سیتارمیا کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ”پورے ملک میں بھگت سنگھ کی مقبولیت مہاتما گاندھی سے کسی بھی طور کم نہیں ہے۔ کہیں کہیں شاید زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔“

114 دنوں کی طویل بھوک ہڑتال بالآخر 5 اکتوبر 1929ء کو ختم کی گئی۔ عدالتی کارروائی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ عدالت میں جج کے سامنے انقلابی نوجوان سوشلزم اور انقلاب کے نعرے بلند کرتے ہوئے داخل ہوتے تھے۔ عدالتی کارروائی کی سرخیاں اخباروں میں چھپتی تھیں اور پورے ہندوستان کی توجہ اسی کیس پر مرکوز ہو گئی تھی۔

بھگت سنگھ نے دوران قید مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنابھی جاری رکھا۔ یہی وہ وقت تھا جب بھگت سنگھ نے اپنی سیاسی جدوجہد کو مضامین میں قلمبند کرتے ہوئے نوجوانوں سے اپنی جدوجہد کی حقیقت کا اظہار کیا۔ 7 اکتوبر 1930ء کو سانڈرس قتل کیس میں 68 صفحات پر مبنی فیصلہ سنایا گیا۔ بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی اور دیگر ساتھیوں کو 5 سے 7 سال کی سزا سنائی گئی۔

پھانسی کی سزا کی خبر نے ہندوستان میں ہلچل پیدا کر دی۔ نوجوان بھارت سبھا اور دیگر طلبہ تنظیموں نے اداروں خصوصاً کالجوں اور سکولوں میں ہڑتالوں کا اعلان کر دیا۔ شدید عوامی ردعمل، احتجاجوں اور درخواستوں کو قطع نظر رکھتے ہوئے برطانوی حکومت نے 24 مارچ 1931ء کو تینوں انقلابیوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصّے اور ردعمل کو دیکھ کر پورے کرہ ارض پر پھیلی سلطنت نے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر مقررہ وقت سے ایک دن پہلے 23 مارچ 1931ء کو شام 7 بجے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ پھانسی سے قبل بھگت سنگھ نے لینن کی مشہور کتاب ”ریاست اور انقلاب“ کا مطالعہ کرتے ہوئے جیلر سے کہا کہ اپنے کامریڈ سے آخری ملاقات کر کے چلتا ہوں۔

اس رات جیل کے اندر تمام قیدی ہتھکڑیاں بجاتے رہے اور جیل انقلابی نعروں سے گونج رہی تھی۔ آس پاس کے رہنے والے لوگ بھی گھروں کی چھتوں پر نعرے سن رہے تھے۔ کئی لوگ جیل کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو انقلابی نغمہ ”رنگ دے بسنتی“ گاتے ہوئے تختہ دار کی جانب گئے تھے۔ سرخ انقلاب کے ان سپاہیوں کی جیل کے اندر کی زندگی کا بھی ہر ایک دن برطانوی سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں کے لئے درد سر بنا رہا۔

آج ہندوستان اور پاکستان کو ایک خونی سامراجی لکیر ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ لیکن دونوں طرف محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل مشترک ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن مسائل کا حل بھی مشترک ہے۔ یہ حل یقینا بھگت سنگھ کے سوشلسٹ انقلاب کے خواب پر ہی مبنی ہو سکتا ہے جس سے آج بھی دنیا بھر کے حکمران خوفزدہ ہیں۔

Kapil Dev
+ posts

کپل دیو کا تعلق ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ حیدرآباد سے ہے۔