حارث قدیر
عبدالخالق کہتے ہیں کہ پاکستان ڈیٹ سپائرل (Debt Spiral) یعنی قرضوں کے گرداب میں پھنس چکا ہے اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، سوائے اسکے کہ عوام سڑکوں پر آئیں اور عوامی طاقت کے ذریعے سے عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی ملکوں کے قرضوں سے انکار کیا جائے۔
عبدالخالق ادارہ برائے سماجی و معاشی انصاف (ISEJ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور دنیا بھر میں ناجائز قرضوں کے خاتمے پر کام کرنے والے نیٹ ورک ’CADTM‘ کے رکن ہیں۔ پاکستان میں ناجائز اور غیر قانونی قرضوں کے خاتمے کی تحریک میں سرگرم ہیں۔ گزشتہ روز ’روزنامہ جدوجہد‘ نے عبدالخالق کا ایک خصوصی انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
داخلی اور بیرونی قرضوں میں کیا فرق ہے اور انکی کتنی اقسام ہوتی ہیں؟
عبدالخالق: اندرونی و بیرونی قرضے کو انٹرنل اور ایکسٹرنل ڈیٹ بھی کہتے ہیں۔ مقامی قرضہ لوکل کرنسی میں ہوتا ہے جبکہ بیرونی قرضہ عالمی کرنسی یعنی ڈالروں میں ہوتا ہے۔ اس لئے بیرونی قرض ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاﺅ کے ساتھ ہی کم یا زیادہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ داخلی قرضہ مقامی کرنسی میں ہوتا ہے جسے نوٹ چھاپ کر بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اب سٹیٹ بنک کو خودمختاری دیئے جانے کی قانون سازی کے بعد یہ معاملہ بھی مشکل ہو تا جائے گا۔
بیرونی قرضے کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ جو قرضہ دوسرے ملکوں، پیرس کلب، لندن کلب وغیرہ سے لیا جاتا ہے اسے بائی لیٹرل ڈیٹ (دو طرفہ قرضہ) کہتے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں مثلاً آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ سے لیا جانے والا قرضہ ’ملٹی لیٹرل ڈیٹ ‘کہلاتا ہے۔ بائی لیٹرل قرض زیادہ تر ملکوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر لیا جاتا ہے اور عموماً مہنگا قرض ہوتا ہے۔ ملٹی لیٹرل قرض نسبتاً سستا قرضہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرائط عائد کی جاتی ہیں جو سخت ہوتی ہیں۔
قرض کی تیسری قسم وہ ہے جو عالمی مارکیٹ سے لیا جاتا ہے۔ بانڈز کے تحت یا کریڈٹ ایجنسیز سے یہ قرض لیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض پر شرح سود بہت کم ہوتی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ سے لئے جانے والے قرض پر شرح سود بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سے لئے گئے قرض کی شرائط بہت سخت ہوتی ہیں۔ وہ پالیسیوں میں مداخلت کرتے ہیں، ملکی خودمختاری تک داﺅ پر لگ جاتی ہے۔
پاکستان پر اس وقت مجموعی قرضہ کتنا ہے اور داخلی و بیرونی قرض کا تناسب کیا ہے؟
عبدالخالق: پاکستان میں داخلی قرضہ زیادہ ہے۔ یہ پاکستانی روپے میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے اس لئے ڈالروں میں اس کے اعداد و شمار تعین نہیں کئے جا سکتے۔ اس وقت پاکستان پر کل 111 ارب ڈالر کے لگ بھگ بیرونی قرض ہے جبکہ داخلی قرضہ اس سے دوگنا ہے، یعنی تقریباً 222 ارب ڈالر کے لگ بھگ کہا جا سکتا ہے۔ مجموعی قرض کو ملا کر آبادی پر تقسیم کیا جاتا ہے اور جب عمران خان کی حکومت آئی تھی تو کہا جا رہا تھا کہ پاکستان میں ہر آدمی 1 لاکھ 40 ہزار روپے کا مقروض ہے جو اس وقت تقریباً 2 لاکھ روپے فی کس تک پہنچ چکا ہے۔
پاکستان عالمی طورپر ’ڈیٹ ڈسٹریس‘ ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ 2025ءتک پاکستان کی کل آمدن قرضوں کی واپسی پرجائے گی۔ ملکی جی ڈی پی میں قرضوں کی ادائیگیوں کے علاوہ کسی مد میں اخراجات کی گنجائش ہی نہیں بچے گی۔ اس وقت مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 80 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ مشرف دور میں ایک ایکٹ منظور ہوا تھا جس کے تحت جی ڈی پی سے قرضوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے لیکن کبھی بھی یہ تناسب 60 فیصد تک نہیں رہا اور 2025ءتک یہ جی ڈی پی کے 100 فیصد تک آ جائے گا۔ اس وقت ایف بی آر جو ٹیکس جمع کرتا ہے اس کا 45 فیصد سے زیادہ قرضوں کی واپسی پر چلا جاتا ہے، اس کے علاوہ دفاعی بجٹ ہے اور ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز سمیت متعدد ایسے ادارے ہیں جو مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں۔
کیا نجکاری کے ذریعے سے اس بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے؟
عبدالخالق: نجکاری کی بجائے ان اداروں کی اصلاح کرنا ہو گی۔ ان اداروں کی صورتحال ملازمین کے سامنے رکھی جانی چاہیے تاکہ وہ مل کر اس کو منافع بخش بنانے کےلئے کردار ادا کریں۔ حکومت جس طرح سے نجکاری کا منصوبہ بنا رہی ہے اس میں پی ایس او (پاکستان سٹیٹ آئل) کو بھی نجکاری کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جو ایک منافع بخش ادارہ ہے۔ جب پی ایس او کی نجکاری کی بات ہو گی تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔
موجودہ حکومت نے اب تک کتنا قرضہ لے لیا ہے؟
عبدالخالق: جب پی ٹی آئی حکومت آئی تھی تو اس وقت مجموعی قرضہ 73 ارب ڈالر کے قریب تھا۔ اس حکومت نے 30 سے 35 ارب ڈالر تک قرضے لئے ہیں۔ اس وقت جو قرضے پاکستان لے رہا ہے وہ صرف قرضوں کی واپسی پر استعمال ہو رہے ہیں۔ ہم اس وقت ایک ’ڈیٹ سپائرل‘ میں ہیں۔ اب کوئی بھی حکومت آ جائے اس ’ڈیٹ سپائرل‘ سے نکلنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ نہ ہی جمہوری حکمران اس سے باہر نکل سکتے ہیں اور نہ ہی ڈکٹیٹر اس سے باہر نکل سکتے ہیں۔ عمران خان نے دعوے بہت کئے تھے لیکن وہ بھی کچھ نہیں کر سکے اور نہ ہی کوئی حل اس حکمران طبقے کو نظر آ رہا ہے۔
قرضوں کے اس گرداب سے نکلنے کا کیا طریقہ ہے؟
عبدالخالق: مختلف طریقے ہیں۔ سب سے پہلا طریقہ تو ’آسٹریٹی ‘ (کفایت شعاری) کا ہے۔ یہ آئی ایم ایف والی آسٹریٹی نہیں ہے، جس میں سبسڈیز کم کرنا، نجکاری کرنا وغیرہ شامل ہے۔ ہم جس آسٹریٹی کی بات کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے خرچے کم کریں، ڈیفنس بجٹ کو کم کریں، اضافی منسٹریز کا بوجھ ختم کریں اور اب تک جو قرضے لئے گئے ہیں انکا آڈٹ ضرور کریں۔
خاص طور پر بیرونی قرضوں کا آڈٹ کیا جائے جو ایک وسیع، جمہوری اور آزادانہ آڈٹ ہونا چاہیے۔ ایک پارلیمانی ڈیٹ آڈٹ کمیشن قائم کیا جائے، اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو شامل کیا جائے، گلوبل ڈیٹ ایکسپرٹس کو شامل کیا جائے، متعلقہ محکمہ جات کو بھی شامل کیا جائے جو قرضوں کے معاہدوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ آڈٹ 70ءکی دہائی سے شروع کیا جانا چاہیے۔ اس آڈٹ کے نتائج کی بنیاد پر جہاں جہاں ناجائز یا غیر قانونی قرضوں کی نشاندہی ہو وہ قرضے دینے سے انکار کیا جائے اور یہ قانونی طو رپر ممکن بھی ہے۔ عالمی سطح پر ’ڈیٹ جسٹس موومنٹس‘ کے ساتھ شامل ہوا جائے۔
قرضوں سے مکمل انکار کی صورت میں کیا نتائج سامنے آئیں گے؟
عبدالخالق: ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ قرضے دینے سے انکار کر دیا جائے۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو تمام مالیاتی مارکیٹ سے آپ آﺅٹ ہوکر تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی سب سے بڑی دھمکی ہے جو مالیاتی ادارے استعمال کرتے ہیں۔ 2001-02ءمیں ارجنٹینا نے قرضے دینے سے انکار کر دیا تھا، اس وقت سرمایہ داروں کے ترجمان تمام بڑے جریدوں نے کہا تھا کہ ارجنٹینا ڈوب جائے گا۔ ارجنٹینا کو اس وقت بہت زیادہ دھمکایا بھی گیا تھا لیکن 3 ماہ بعد ہی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں نے میز پر بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی بات کی تھی۔ اس ساری صورتحال کےلئے عوامی طاقت کا ہونا بہت ضروری ہے تبھی یہ کام ہو سکتا ہے۔ سیاسی منشا، پاپولر قیادت اور عوام کا ساتھ ہو تو ایسا ہو سکتا ہے۔
اوڈئیس ڈیٹ (’Odious Debt‘ یا ناجائز قرضہ) اور غیر قانونی قرضوں سے کیا مراد ہے، ایسے قرضوں سے انکار کیاجا سکتا ہے؟
عبدالخالق: ناجائز قرضہ وہ ہے جو عوام کی مرضی کے خلاف استعمال ہو، جو کسی ایسے شخص نے لیا ہو جو عوام کا حقیقی نمائندہ نہ ہوں، مثلاً ڈکٹیٹروں کا حاصل کیا گیا قرضہ ایسے قرضوں میں شامل ہوتا ہے۔
قرضہ لینے والے اور دینے والے دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ دونوں ذمہ داریوں میں شراکت دار ہوتے ہیں۔ جس مقصد کےلئے قرض لیا گیا ہو اسی پر استعمال کو یقینی بنایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ ماضی میں کسی اور مقصد کےلئے لیا گیا قرضہ اسلحہ خریدنے یا عوام کو دبانے پراستعمال کیا گیا۔ ضیا الحق اور مشروف جیسے ڈکٹیٹروں نے جو قرضے لئے وہ ’ اوڈئیس ڈیٹ‘ کہلاتے ہیں کیونکہ یہ افراد عوام کی مرضی سے منتخب نہیں ہوئے تھے۔
ایسے قرضے دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً امریکہ نے جب عراق پر حملہ کیا اور صدام کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو اس وقت عراق پر واجب الادا قرضے، جو فرانس، روس اور دیگر ممالک نے دے رکھے تھے، امریکہ نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ نے کہا تھا کہ صدام عوام کا حقیقی نمائندہ نہیں تھا، وہ ڈکٹیٹر تھا اس لئے اس نے جو قرضے لئے ہیں وہ جائز قرضے نہیں ہیں، انکی ادائیگی نہیں کی جا سکتی۔
کچھ ایسے قرضے بھی ہیں جو ناقص منصوبوں پر خرچ ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال فلپائن میں ایک ڈیم بنانے کےلئے لیا گیا قرضہ ہے جو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور اسکی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔ اس ڈیم کی تعمیر کے بعد تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جس جگہ وہ ڈیم تعمیر کیا گیا ڈیم کےلئے موزوں نہیں تھی۔ جیولوجیکل سروے اور انوائرمنٹل اسسمنٹ نہیں کی گئی تھی، جس کی وجہ سے وہ ڈیم خطرے کی زد میں آ گیا ، ورلڈ بینک نے یہ غلطی تسلیم کی تھی۔
ناجائز اور غیر قانونی قرضوں کے اعداد و شمار کس طرح حاصل کئے جا سکتے ہیں، ماضی میں بھی کبھی ایسی کوشش ہوئی؟
عبدالخالق: جو میں نے پہلے بات کی تھی کہ ایک ایسا آڈٹ کمیشن بنایا جائے جو یہ ساری تحقیقات کرے۔ اس کے بغیر یہ اعداد و شمار نہیں حاصل کئے جا سکتے۔ مالیاتی معاملات میں آر ٹی آئی (Right to Information) کے ذریعے سے بھی معلومات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ کمیشن ہی یہ معلوم کر سکتا ہے کہ جو قرضے لئے گئے وہ کس کام کےلئے لئے گئے اور کس کام پر خرچ ہوئے، کتنا سود دیا گیا وغیرہ۔
جو جائز قرضے ہیں وہ واپس کئے جانے چاہئیں، جو ناجائز اور غیر قانونی قرضے نکلیں انہیں دینے سے انکار کیا جانا چاہیے۔ ایسے بھی قرضے ہوتے ہیں جو ایسے لوگوں کے ذریعے لئے گئے ہوتے ہیں جو متعلقہ منصوبہ جات پر کام یا قرض لینے کا دائرہ اختیار نہیں رکھتے۔
ماضی میں ایسے 2 کوششیں ہو چکی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کی کوئی حیثیت نہیں تھی نہ ہی کچھ کام کر سکی۔ عمران خان کی موجودہ حکومت نے بھی ایک کمیٹی بنائی جس کا نام ’انکوائری کمیٹی ‘ رکھا لیکن اس کا دائرہ کار گزشتہ 10 سالہ حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کی انکوائری کرنا تھا۔ اس طرح صرف سیاسی انتقام لیا جا سکتا ہے، تحقیقات نہیں کی جا سکتیں۔
ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور سے اب تک یہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس کےلئے پارلیمانی نمائندہ کمیشن ہو جس کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آئینی تحفظ دیا جائے۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے یہ اعداد و شمار بھی مل سکتے ہیں اور اس سے متعلق فیصلہ سازی بھی کی جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت قرضوں کے اس گرداب سے نکلنے کےلئے کیا اقدامات کر سکتی ہے؟
عبدالخالق: ہم ایک سپائرل ڈیٹ میں ہیں۔ اس سے نکلنے کا موجودہ وقت کوئی راستہ یا طریقہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان کوئی غریب ملک نہیں ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ وہ سوائے لوٹنے کے کوئی کنٹری بیوشن نہیں دے رہی ہے۔ اس وقت پاکستان ایسا ملک ہے جس میں پورے ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام دوبارہ بحال ہونے کے بعد 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ 85 فیصد ڈائریکٹ ٹیکس عائد کئے گئے ہیں، ڈائریکٹ ٹیکس جنہیں انکم یا کارپوریٹ ٹیکس کہتے ہیں انکا حصہ جمع شدہ ٹیکسوں میں محض 15 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کی نئی شرائط زیادہ خونخوار ہیں۔ کارپوریٹ ٹیکس کم کرنے اور ان ڈائریکٹ ٹیکس مزید بڑھانے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ اس طرح عام لوگ مزید مہنگائی اور مصائب کا شکار ہونگے۔ 2025ءتک حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ حکومت آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدرآمد کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کر سکتی۔
پاکستان کو قرضوں کے اس گرداب سے کیسے نکالا جا سکتا ہے، ان مسائل سے نجات کا کوئی امکان بھی موجود ہے؟
عبدالخالق: عوام سڑکوں پر آئیں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ عوام کی طاقت جب سڑکوں پر آتی ہے تو حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے بھی اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اصل طاقت عوام کے پاس ہے لیکن فی الحال اسکا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ عوام سیاسی عمل سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔ مسلسل غداریوں کا شکار ہو کر ظلم سہتے جا رہے ہیں اور اس کرب کو کوئی سیاسی شکل نہیں مل پا رہی ہے۔ عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی تمام پارٹیاں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن سے تحریک انصاف تک سب مافیاز ہیں، وہ عوام کی نمائندہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔
سب بڑی پارٹیاں نجکاری کرنا چاہتی ہیں اور سارے ہی آئی ایم ایف کے آگے سرنگوں ہیں۔ تمام سیاسی قوتیں دائیں بازو کی جانب جھک چکی ہیں، کوئی بھی عوامی خواہشات کی نمائندگی نہیں کر رہا ہے جس کی وجہ سے وقتی طو رپر سب کچھ بہت مشکل لگ رہا ہے۔ بہر حال یہ لڑائی عوام نے لڑنی ہے۔
گو اس وقت سیاسی ہلچل نظر نہیں آرہی ہے لیکن بعض اوقات انتہائی چھوٹے چھوٹے واقعات کسی بڑے واقعے کو جنم دے سکتے ہیں۔ عوامی طاقت کے اظہار کے علاوہ اس وقت قرضوں میں جکڑے پاکستان کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے۔