خبریں/تبصرے

امریکی عدالت نے پولیس اہلکار کو سیاہ فام جارج فلوئڈ کا قاتل قرار دے دیا!

قیصر عباس

امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے دارلحکومت میناپلس میں عدالت نے سیاہ فام جارج فلوئڈ کے قتل کے ا لزام میں ایک سفید فام پولیس اہلکار کومجرم قرار دیدیا۔ پولیس افسر ڈیرک شوون پر اپنے گھٹنے تلے دبا کر گزشتہ مئی میں سرعام فلوئڈ کی سانس بند کرنے کا الزام تھا۔

سفید فام، سیاہ فام اور اقلیتی ارکان پر مبنی جیوری کے اس متفقہ فیصلے کے بعد مجرم کو پولیس کی نگرانی میں جیل بھیج دیا گیا جسے طویل مدت کے لئے سزا ئے قید دی جا سکتی ہے۔ جیوری کے اس فیصلے میں ڈیرک کو تین دفعات میں مجرم قراردیا گیا جن کے تحت انہیں 40 سال، 25 سال اور 10 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے جس کا اعلان بعدکی کاروائیوں میں کیا جائے گا۔

عدالت کے باہر تقریباً تین سو مظاہرین نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے قانون اور اقلیت کی جیت قرار دیا۔ فیصلہ سنتے ہی مظاہرین میں ایک جشن کا سماں تھا۔ کچھ عرصے سے نہ صرف امریکہ کے کئی شہروں بلکہ دنیا بھر میں اس سفاکانہ قتل پر احتجاجی سلسے جاری تھے۔ امریکہ میں اس قسم کے واقعات میں شاذ و نادر ہی پولیس کو سزاوار قرار دیا جاتا ہے۔ ملک میں 2005ء سے اب تک ہونے والے اس قسم کے ہزاروں واقعات میں صرف 140 پولیس اہلکاروں ہی کو سزا دی گئی ہے۔

فیصلے کے فوراً بعد مقتول کے بھائی فلونیز فلوئڈ نے آنسو ؤں اور اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا ”میں دعا کر رہا تھا کہ وہ قاتل کو سزا سنائیں۔ امریکہ میں افریقی النسل لوگوں کو عموماً انصاف نہیں ملا کرتا۔“

لیکن ایک کھلی سڑک پر دن دہاڑے ہونے والے اس قتل کے متعدد گواہ موجود تھے جن میں سے ایک نے اس پوری واردات کو فون پر ریکارڈ کیا اور عدالت میں ایک اہم ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس مقدمے کا اہم پہلو یہ تھا کہ پولیس ڈپارٹمنٹ نے ان چاروں پولیس افسران کو سبکدوش کر دیا جو واقعے کے وقت موجود تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ محکمے کے کئی افسران اور خود پولیس سربراہ نے عدالت میں گواہی دیتے ہوئے مجرم کو قصوروار قرار دیا۔

صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا اور خبردار کیا کہ ”یہ کافی نہیں ہے، ہم اور اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ ہم اصلاحات کے ذریعے نظام میں تبدیلیاں لائیں گے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے مزید واقعات نہ ہوں۔ ہمارے لئے یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہے۔“

منی سوٹا یوں تو امریکہ کی ایک لبرل ریاست ہے جہاں انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی ہی زیادہ تر فتح یاب رہتی ہے لیکن سماجی طور پر اسے ایک تنگ نظر ریاست کے طور پربھی دیکھا جاتا ہے۔ ریاست کے تضادات کے مارے لوگوں کے لئے ’Minnesota Nice‘ کا محاورہ بھی مشہور ہے جس کا مطلب ہے ’باہر سے خوش مزاج، اندر سے تنگ نظر۔‘

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔