طنز و مزاح

میرا مقصد صرف اسلام کو سائنس سے بچانا ہے

مفتی منیب الرحمن

الحمداللہ آج بروز پیر پنجم شوال میں نے گزشتہ جمعرات کے روزے کی قضا رکھی ہے۔ ارادہ تو دوم شوال جمعتہ المبارک کا تھا لیکن شیطانوں کی رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ماورائے خارجہ روابط کے بعد یہ معلوم ہوا کہ شیطانیت میں بڑھتی فرقہ واریت کے باعث یہ معلوم کرنا دشوارہو گیا ہے کہ کونسا شیطان کس دن روزہ رکھے گا۔ ہم فقہ شیطانوں نے مزید یہ حقیقت افشا کی کہ شیطانی رویت ہلال کمیٹی آج کل کسی بھی فرقے کی گواہی قبول کر لیتی ہے۔ اللہ ہمیں تمام اسلامی فرقوں کے شیاطین و ابالیس کے شر سے محفوظ رکھے۔

پانچ دن تاخیر کے بعد ہی سہی روزے کی نیت و جذبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پانچ دن کیا میں تو جہاں پانچ دہائیوں پہلے کھڑا تھا وہیں جوں کا توں، جیسے کا تیسا، کوئی ایسا ویسا، کھڑا ہوں۔ لوگ مجھے مولویوں کا مہ نور بلوچ صرف حسنِ صورت کی وجہ سے نہیں کہتے…لیکن سحور کی نیت سے اب تک ایک ہی خدشہ لاحق ہے، یہ وہی خوف ہے جو کئی برسوں سے طاری ہے…اس ڈر کی جڑ ہے سائنس۔

میں نے اور محکمہ موسمیات نے اکھٹے ہی 1950ء کی دہائی میں ہوش سنبھالا۔ تب سے اب تک کئی شامیں ان کی چھت پر کھلم کھلا نڈر ہو کر گزاریں…اکثر اوقات کب شامیں راتوں میں تبدیل ہو جاتیں پتہ ہی نہیں چلتا تھا…ہم دونوں کو چندہ سے بے حد لگاوَ تھا اور چھت پر چڑھ کر اس کے ساتھ خوب آنکھ مچولی کھیلا کرتے تھے…لیکن نہ میں اور نہ ہی موسمیات، جسے میں پیار سے موسمی کہا کرتا تھا، چندہ کے انفرادی پیار میں ایک دوسرے کے زمرے میں دخل اندوز ہوتے اور ہماری یہ محبت کا انوکھا مثلث دہائیوں تک بدستور قائم و دائم رہا…پھر ہماری زندگی میں ڈبو آیا۔

ڈبو نے اسلامی اور شیطانی رویت ہلال کمیٹیوں کے بعد اسی طرز کی ایک تیسری کمیٹی بنائی: سائنسی رویت ہلال کمیٹی…یہ کمیٹی بھی شیطانی کمیٹی سے مماثلت رکھتے ہوئے غائبانہ وجود رکھتی ہے…ڈبو نے اس کمیٹی کو ایک ’ایپ‘ میں محفوظ کر رکھا ہے اور اس کا نام ہے ’دی رویت‘۔

جب معلوم ہوا کہ اس ’رویت‘ کی تخلیق میں موسمی نے بھی ڈبو کا ساتھ دیا تو لامحالہ ہمارا بریک اپ ہو گیا…تب سے موسمی کی پروفائل ٹینڈر پر ہے اور میری زندگی ٹینڈر باکس پر۔

میں یہاں واضح کر دوں کہ میں ڈبو سے کوئی ذاتی عداوت نہیں رکھتا…ٹینڈر اور دی رویت جیسی تمام ایپس سب سائنس کی دین ہیں اور سائنس ہی ہماری اصلی رقیب ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اگر ڈبو اور سائنس کے ناجائز تعلقات پر نیٹ فلکس نے کوئی سائی فائی شو بنا ڈالا تو وہ دونوں حدود قوانین کی زد میں آ جائیں گے اور اسی وجہ سے وہ شو عالم اسلام میں ٹاپ ٹرینڈ کرے گا۔

میرا مقصد صرف اسلام کو سائنس سے بچانا ہے۔

جو ماضی میں سائنس کے خطرناک موہک پن سے نا آشنا تھے ان کے لئے اس عید کا سکینڈل باعث بیداری ہونا چاہئے…ذرا سوچئے! آج کل جو لوگ چاند کو سائنس کی گندی نظر سے دیکھنے کی باتیں کر رہے ہیں انہوں نے کل اسی سائنس کی نظر سے کچھ اور دیکھ لیا تو؟

کل کو وہ یہ بھی کھوجنے لگیں گے کہ گھوڑے اڑتے کیسے ہیں، کیا بندر ابوالاشرف المخلوقات ہے، یہ کرہ بچھایا کیسے جاتا ہے، اور ڈائناسور کا جوڑا کس سیلاب میں ڈوب گیا؟

کل کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے َ تیار کیا گیا جنوں سے بجلی بنانے کا منصوبہ اِنھی تحقیقی لوگوں نے رد کیا تھا، آج یہ اس خیال کو ہی مضحکہ خیز کہتے ہیں، کل کو یہ نعوذ باللہ جنوں کے وجود پر ہی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ یاد رہے سائنس اور تحقیق دونوں ڈائنیں جڑواں بہنیں ہیں لہٰذا یکساں خوبرو اور شاطر ہیں۔

باقی سب چھوڑئیے۔ کچھ چندہ کا ہی سوچئے۔ نہیں نہیں وہ امت یا حکومت کا دینی علما کو دیا گیا چندہ نہیں۔ وہی چاند جس سے ہمارا ابدی رشتہ ہے۔

آج ایپوں سے چاند دیکھنے والے کل چاند پر قدم رکھیں گے۔ چاند پر قدم رکھنے والا تحقیق کا ڈسا متجسس مومن سپلٹنگ پوائنٹ کی تلاش میں پڑ گیا پھر کیا ہو گا؟ میں آپ کو بتلائے دیتا ہوں کہ ایسے سائنس شدہ مومن کے کان میں وہ اذان کبھی نہیں گونجے گی جو نیل آرمسٹرانگ کو سنائی دی تھی۔

کل کو یہی سائنس شدہ مسلمان پوچھے گا کہ جب کہ آج سب کے پاس موبائل فون ہیں تو نعوذ باللہ لاوَڈ سپیکر پر اذان دینے کی کیا ضرورت ہے، ایپ سے ہرکوئی انفرادی طور پر اذان سن سکتا ہے…اور یوں وہ لاوَڈ سپیکر جس کی اسلامی برکات سمجھنے میں ہم نے تاخیر کر دی تھی ہم سے چھن نہ جائے۔

دار السلام کی تو چلیں خیر ہے۔ دار الحرب میں لاوَڈ سپیکر کے بغیر سچے مومنین کیسے کفار پر رعب جمائیں گے؟ کل کو یہی سائنسی کیڑے کہیں گے کہ دینی کتابوں سے پڑھ کر کوئی ایجاد کر کے دکھاوَ، انھیں پھر آپ ہی سمجھاتے پھر ئے گا کہ بھیا ایجاد ہونے سے پہلے کیسے بتا دیں کہ صحیفوں میں کس ایجاد کا ذکر کہاں ہے؟

مذکورہ بالا تحقیقاتی جارحیت کی وجہ سے باقی تمام بڑے سے بڑے مذاہب آج اس حال میں ہیں کہ آج کوئی بھی ان کے مذہبی عقائد کو للکارتا ہے تو ان کی غیرت کا ظہور ویسے نہیں ہوتا جیسے ہمارا ہوتا ہے۔ وہ بدبخت تو اپنی حرمت و ناموس کی دھجیاں خود اڑائے پھرتے ہیں۔ یہ انہی ڈائنوں کی وجہ سے ہے…لہٰذا خدارا سائنس کو اسلام سے جدا رکھئے۔

موسمی اور چندہ سے دوری تو میں برداشت کر لوں گا، دین سے دوری نہ سہوں گا نہ کسی مسلمان کو سہنے دوں گا۔

تحریر:کنور خلدون شاہد

Kunwar Khuldune Shahid
+ posts

کنور خلدون شاہد ایک صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ ’دی ڈیپلومیٹ‘ کے پاکستان میں مقیم نمائندہ ہیں، ’دی سپیکٹیٹر‘ کے لیے بطور کالم نگار کام کرتے ہیں اور پاکستانی سیٹائر اخبارات ’دی ڈیپینڈنٹ‘ اور ’خبرستان ٹائمز‘ کے شریک بانی ہیں۔