خبریں/تبصرے

امریکی قبضے نے صرف انسانی جانیں لیں: طالبان کی فتح امن کی نشانی نہیں

فاروق طارق

یہ واضح ہے کہ امریکی سامراج کی افغانستان میں انسانی اور مالی انوسٹمنٹ ضائع ہو گئی ہے۔ طالبان لڑائی کے بغیر ہی افغانستان پر قبضہ کر رہے ہیں۔ جو کچھ افغانستان میں 20 سالوں تک ترقی، جمہوریت اور افواج کی ٹریننگ کے نام پر خرچ ہوا، اس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

کاسٹ آف وار پراجیکٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں 2226 ارب ڈالر اس جنگ میں جھونکے۔ اس رقم سے پوری دنیا میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکتی تھیں۔ امریکی ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے جنگی اخراجات میں 815.7 ارب ڈالر خرچ کئے۔ پاکستان کا کل غیر ملکی قرضہ اس وقت 116 ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان کے کل غیر ملکی قرضے سے 7 گنا زیادہ امریکہ نے جنگ میں صرف کئے۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود امریکی جلدی میں افغانستان سے نکلے اور ان کے لائے ہوئے اشرف غنی کی افواج بغیر لڑے یہ سب کچھ طالبان کے حوالے کر رہی ہیں۔

اس جنگ میں جو جانی نقصان ہوا اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں اپریل 2021ء تک 47 ہزار 235 سویلین، 72 صحافی اور 444 ایڈ ورکرز ہلاک ہوئے۔ 66 ہزار افغان فوجی بھی اس جنگ کی نظر ہو گئے۔

امریکہ کے اپنے 2 ہزار 4 سو 42 فوجی مارے گئے اور 20 ہزار 6 سو 66 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 3 ہزار 8 سو پرائیوٹ سکیورٹی کے فوجی یعنی کرائے کے فوجی ہلاک ہوئے۔ نیٹو کی افغان افواج میں 40 ممالک کے فوجی حصہ لے رہے تھے۔ اس میں سے بھی 11 سو 44 فوجی مارے گئے۔

جو افراد بے گھر ہوئے اور ملک سے باہر پناہ گیر ہوئے، انکی تعداد 27 لاکھ ہے جو ملک کے اندر در بدر ہوئے ان کی تعداد 40 لاکھ ہے۔ امریکی سامراج نے چالاکی کے ساتھ 2001ء کے بعد جاری اس جنگ میں اپنے پاس سے رقم کم خرچ کی اور زیادہ تر قرضہ لیکر اس جنگ میں رقم لگائی۔ ایک اندازے کے مطابق اس نے 5 سو 36 ارب ڈالر صرف سود کی مد میں ادا کئے۔ اس کے علاوہ اس نے واپس آنے والے جنگی فوجیوں کے میڈیکل اور دیگر اخراجات میں 2 سو 96 ارب ڈالر خرچ کئے۔

جو 3 لاکھ افغان فوج لڑے بغیر ہتھیار ڈال رہی ہے اس کی ٹریننگ پر 88 ارب ڈالر خرچ ہوئے، اس کے علاوہ 36 ارب ڈالر ری کنسٹریکشن پراجیکٹس جیسے کہ ڈیم، ہائی ویز وغیرہ پر خرچ کئے گئے، 9 ارب ڈالر تو اس بات پر لگا دئیے گئے کہ افغان پوست کاشت نہ کریں۔

امریکیوں کا خیال تھا کہ ترقی کرنے سے افغان طالبان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ اس وقت اس سب کے باوجود جبکہ طالبان قبضہ کر رہے ہیں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد اور غربت کی شرح 47 فیصد تک ہے۔ یہ ورلڈ بینک کے اندازے ہیں۔

اگرچہ کچھ انسانی ترقی بھی ہوئی۔ مثلاً عمر کی شرح 56 سے بڑھ کر 64 سال ہو گئی، پیدائش کے بعد پانچ سال تک مرنے والے بچوں کی تعداد نصف ہو گئی۔ تعلیم کی شرح 8 فیصد سے بڑھ کر 43 فی صد ہو گئی۔ 89 فیصد کے پاس شہروں میں پینے کا صاف پانی مہیا ہے۔ جو پہلے صرف 16 فیصد تھا۔

اب جو بھی امریکیوں نے لگایا وہ طالبان کے ہاتھوں آ جائے گا۔ افغان فوجی اسلحہ چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، وہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اب طالبان 1996ء والے افغانستان پر قبضہ نہیں کر رہے۔ 2021ء والے افغانستان پر قبضہ کر رہے ہیں، جس پر کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔

امریکیوں کی اس شکست کا موازنہ سوویت یونین کی جانب سے 1986ء کے جنیوا معاہدہ کے بعد افغانستان چھوڑنے سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ٹرینڈ افواج اور افراد ان کے جانے کے تین سال بعد بھی حکومت میں رہے۔ یہاں تو اشرف غنی اینڈ کمپنی دنوں میں فارغ ہو گئے ہیں۔

افغانستان کا تاریخی سبق یہ ہے کہ غیر ملکی افواج کی براہ راست مداخلت کے ذریعے تیار کردہ افواج ملکی دفاع نہیں کر سکتیں۔ سوویت یونین کی افواج 10 سال رہیں اور ناکام ہوئیں۔ 20 سال تک امریکی اور نیٹو افواج رہیں، ان کی تربیت یافتہ افغان فوج بغیر لڑائی تتر بتر ہو گئی۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ افغان عوام اور فوجیوں کے پاس لڑنے کی کوئی نظریاتی بنیاد موجود نہ تھی۔ اشرف غنی اینڈ کو ہر طرح سے کرپشن میں ملوث تھے۔ طبقاتی فرق عروج پر تھا۔ افغان امریکیوں کے لئے نہیں لڑے وہ انکے ایجنٹوں کے لئے کیسے لڑ سکتے تھے۔

اشرف غنی اینڈ کو سرمایہ داری کی غلیظ ترین شکل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دوسری جانب طالبان جو اپنی تمام تر درندگی کے باوجود، مذہب کا استعمال اچھی طرح کر سکے۔ انکے پاس مذہبی ریاست کا ایک نظریہ موجود تھا۔ اشرف غنی اینڈ کو کونسی ریاست چاہتے تھے وہ کبھی یہ واضح ہی نہ کر سکے۔

طالبان کی فتح پوری دنیا کے ترقی پسندوں کے لئے ایک انتہائی بری خبر ہے۔ امریکیوں کے ایجنٹوں پر تنقید کا مقصد طالبانی درندوں کی حمائیت کرنا نہیں۔ ان دونوں کی مخالفت جاری رہے گی۔ ایک حقیقی جمہوری سوشلسٹ نظریہ کی فتح ہی افغانستان میں مستقبل کی مسلسل خون ریزی کو روک سکتا ہے۔

طالبان کی فتح امن کا نشان نہیں بلکہ مسلسل خانہ جنگی کا پیغام ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایک اور مذہبی جنونی ریاست کا قیام پورے خطہ میں جاری مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دے گا اور امن مخالف اقدامات ہوتے رہیں گے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔